اگر ہم ماضی میں جائیں، یعنی آج سے کوئی 9، 10 سال پہلے تو دنیائے کرکٹ کا منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا۔ بیٹنگ کے کئی بڑے نام اپنے کیریئر کے آخری ایام گزار رہے تھے اور ان کی جگہ متعدد ایسے کھلاڑیوں کو جگہ دی جا رہی تھی جنہیں مستقبل کا اسٹار سمجھا جارہا تھا۔

بھارت ویرات کوہلی، نیوزی لینڈ کین ویلیم سن اور آسٹریلیا نوجوان اسٹیو اسمتھ کو میدان میں لایا اور پاکستان کا جواب تھا عمر اکمل۔ اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 129 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے والے عمر اکمل، جن کی خاص بات تھی بے خوف ہوکر بلے بازی کرنا۔

مزید پڑھیے: لاہور کے ساتھ آخر مسئلہ ہے کیا؟

نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی پہلی ٹیسٹ اننگز میں جب دوسرے اینڈ سے 5 وکٹیں گرچکی تھیں تو اس مشکل وقت میں بھی عمر اکمل نے نہ شین بونڈ کا دباؤ لیا اور نہ ہی ڈینیل ویٹوری کو خاطر میں لائے بلکہ جب وہ 91 رنز بنا چکے تھے تو مسلسل 2 گیندوں پر چھکا اور چوکا لگا کر سنچری بھی مکمل کی۔

اپنی اسی بے خوف اور مثبت کرکٹ کی بدولت انہیں دورۂ آسٹریلیا میں بھی خوب سراہا گیا۔ ٹونی گریگ، بل لاری اور مارک نکولس جیسے بڑے نام 19 سالہ عمر اکمل کو مستقبل کا بڑا کھلاڑی قرار دے رہے تھے۔ لیکن ... یہ سب ایک خواب ثابت ہوا۔ ویرات کوہلی، کین ویلیم سن اور اسٹیون اسمتھ کیریئر کی بلندیوں تک پہنچے اور آج بھی دنیا کے بہترین بیٹسمین شمار ہو رہے ہیں جبکہ عمر اکمل کہاں ہیں؟ شاید بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔

صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ لاہور قلندرز نے بھی عمر اکمل سے ہاتھ کھینچ لیے۔ قلندرز نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پچھلے تمام سیزنز میں عمر اکمل کو سب سے اعلیٰ یعنی پلاٹینم کیٹیگری میں منتخب کیا تھا لیکن ان کی مایوس کن کارکردگی سے اس قدر بددل ہوئے کہ اس بار آنکھیں سر پر رکھ لیں۔ عمر اکمل کو پلاٹینم تو کیا کسی نے ڈائمنڈ کیٹیگری میں بھی نہیں لیا یہاں تک کہ کوئٹہ نے گولڈ کیٹیگری میں عمر اکمل کا نام پیش کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں رحم کھا کر ٹیم میں لیا گیا ہے اور بعد میں گلیڈی ایٹرز کو اس فیصلے پر سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

لاہور قلندرز نے مایوس ہوکر عمر اکمل کو ٹیم سے فارغ کردیا
لاہور قلندرز نے مایوس ہوکر عمر اکمل کو ٹیم سے فارغ کردیا

بہرحال، عمر اکمل کی داستان سے صاف ظاہر ہے کہ صرف ٹیلنٹ سب کچھ نہیں ہوتا، اپنے کھیل کے حوالے سے کھلاڑی کا رویہ بھی اہمیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی درست رہنمائی کرنے والوں کی موجودگی بھی بہت اہم ہے جو اچانک مل جانے والی شہرت کے مضر اثرات سے آپ کو پناہ میں رکھتے ہیں اور نت نئی منزلوں کی جستجو دے کر آپ کو طویل عرصے تک کارکردگی دکھانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

پھر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور عمر اکمل کے برانڈ کی کرکٹ بھی آپس میں میل نہیں کھاتی۔ کوئٹہ پاکستان سپر لیگ کی تاریخ کی کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک ہے کہ جس نے پہلے دونوں سیزنز میں فائنل تک رسائی حاصل کی۔ چیمپئن تو دونوں بار نہیں بن پائی لیکن ہر بار ٹائٹل کے لیے مضبوط ترین امیدوار ضرور رہتی ہے اور اِس بار بھی کوئٹہ کو ’چھپا رستم‘ سمجھا جارہا ہے کہ جو پی ایس ایل چیمپئن بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا حکومتی بچت مہم پی ایس ایل تک بھی پہنچ گئی؟

اس بار بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے جس طرح آغاز لیا ہے، وہ کسی بھی طور پر حیران کن نہیں ہے بلکہ حیرت کی اصل بات تو یہ ہے کہ انہيں پوائنٹس ٹیبل پر نمبر ایک بنانے میں عمر اکمل کا کردار بہت اہم ہے۔

پشاور زلمی کے خلاف پہلے میچ میں جب 156 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے کوئٹہ اپنے 3 اہم کھلاڑیوں احمد شہزاد، شین واٹسن اور رائلی روسو سے محروم ہوچکا تھا، تب عمر اکمل نے صرف 50 گیندوں پر 75 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی اور کئی پرانی یادیں تازہ کردیں۔ پھر اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف بھی 158 رنز کے تعاقب میں عمر اکمل نے 28 گیندوں پر 44 رنز بنائے اور کوئٹہ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت عمر اکمل 2 میچوں میں 119 رنز بنا کر سیزن میں سب سے آگے ہیں اور 'حنیف محمد کیپ' انہی کے سر پر سجی ہوئی ہے۔ عمر اکمل نے اپنا آخری ٹیسٹ 2011ء، ون ڈے 2017ء اور ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں کھیلا تھا یعنی انہیں ملک کی نمائندگی کیے ہوئے بھی اس وقت 2 سال ہوچکے ہیں۔

عمر نے پاکستان کے لیے اپنا آخری میچ تب کھیلا تھا جب ان کی عمر 26 سال تھی یعنی وہ آج بھی صرف 28 سال کے ہیں۔ کیا بہتر کارکردگی اور بہتر طرزِ عمل کے ساتھ عمر کا کیریئر دوسرا جنم لے سکتا ہے؟ ایک ایسے سال میں جب پاکستان نے ورلڈ کپ کھیلنا ہے، بیٹنگ لائن میں واضح کمزوریاں موجود ہیں، عمر اکمل کی فارم میں واپسی ان کو ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ میں لا سکتی ہے لیکن اس کے لیے انہیں بہت کڑے امتحان سے گزرنا ہوگا۔ کیا ورلڈ کپ سے پہلے عمر اکمل خود کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں