زبیدہ مصطفیٰ۔
زبیدہ مصطفیٰ۔

ہمارے صحت کے شعبے کو ایک مسئلہ لاحق ہے۔ یہ اب حد سے زیادہ ’میڈیکلائز‘ (بے جا علاج اور ادویات سے بھرپور) ہوچکا ہے۔ کئی فزیشن اور سرجن دوا ساز کمپنیوں کے اشاروں پر ایسا طریقہ علاج اختیار کر رہے ہیں جس کا زیادہ انحصار تشخیصی ٹیکنالوجی اور ادویات پر ہے۔ بیماری سے بچاؤ کی ادوایات کو تو ٹھیک اسی طرح دھیان نہیں جاتا ہے جس طرح صحت عامہ کی آگاہی، غذائیت، صفائی، طرز زندگی اور صاف پانی کی دستیابی اور نکاس آب جیسی بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر توجہ نہیں دی جاتی۔

نتیجتاً، امراض کا علاج اتنا زیادہ مہنگا بن چکا ہے کہ جو اکثر عوام کے بس سے باہر ہے۔ صرف امیر اور مراعت یافتہ اشخاص بیمار ہونے پر اطمنان بخش علاج کی سہولت حاصل کرنے کی امید کرسکتے ہیں، جبکہ ملک کی قومی صحت کے اعشاریے انتہائی بُری صورتحال بیان کرتے ہیں۔

ویسے تو ملک کے دیگر شعبے بھی اتنی ہی ابتر صورتحال کا شکار ہیں مگر شعبہ صحت کی صورتحال کے باعث سبھی کو سنگین نتائج بگھتنے پڑسکتے ہیں۔ وائرس، بیکٹریا اور بیسلی حدود سے انجان ہوتے ہیں۔ وبائی مرض ایک سے دوسرے شخص میں پھیل سکتا ہے اور پھیلتا ہے، پھر چاہے متاثرہ شخص کی سماجی و معاشی حیثیت اور طبقاتی درجہ کوئی بھی ہو۔

اس ہورے منظرنامے میں تب دق (ٹی بی) کے عالمی دن کے موقعے پر 3 ڈاکٹروں سے ملاقات کافی باعث مسرت ثابت ہوئی جنہوں نے اس مہلک بیماری کے بارے میں عوامی آگاہی پھیلانے کے نت نئے طریقوں کو متعارف کروایا ہے۔ ان 3 خواتین ماہر ڈاکٹروں نے ٹی بی سے بچاؤ اور اس کے علاج کا ایک جامع اور مربوط طریقہ اختیار کیا ہے کہ جس کے بغیر پاکستان میں اس بیماری کے خاتمے کے مقصد کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔

اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر غزالہ انصاری، بہبود ایسوسی ایشن کے ٹی بی کلنک کی چیئرپرسن ڈاکٹر فرحت اجمل، اور شریک چیئرپرسن ڈاکٹر صبا ہاشمی نے پاکستان میں ٹی بی کے پھیلاؤ کی سنگینی کے بارے میں بات کی اور اس کے ساتھ انہوں نے اس بیماری کے خاتمے کی مہم میں عوام کو شامل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ یہ ایک نیا خیال ہے جس سے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ صحت عامہ کی مہمات میں وہ کس قدر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ لوگوں میں اس قسم کی مہمات کی ذمہ داری لینے کا رجحان بھی پیدا ہوگا۔

یہ کام کس طرح کیا جاسکتا ہے، اس کا عملی مظاہرہ بہبود اسکول نے کرکے دکھایا۔ ٹین ایجرز کے ایک گروپ کو ٹی بی کے آثار اور علامات، اس کے صحت عامہ پر پڑنے والے اثرات اور ٹی بی کے معائنہ، تشخیص اور علاج کے لیے کہاں سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے، ان سب باتوں کے بارے میں تفصیلی بریفننگ دی گئی۔ اس کے بعد اس گروپ کو شرین جناح کالونی میں کمیونٹی کے پاس بھیجا گیا جہاں انہوں نے چھوٹی کارنر میٹنگ میں لوگوں کو ٹی بی کے بارے میں آگاہی دی۔ ٹی بی کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب کے موقعے پر حاضرین کے سامنے ایک ایسی ہی میٹنگ کی ریکارڈنگ سنائی گئی۔

پس منظر میں پرندوں کی چہچہانے کی آوازوں کے ساتھ ریکارڈنگ میں ہم نے طلبا کو پراعتمادی کے ساتھ بولتے ہوئے سنا اور وہ لوگوں کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالوں کا بڑی ہی حوصلہ مندی کے ساتھ جواب دے رہے تھے۔

جب میں نے دسویں جماعت کے انس نامی طالب علم سے اس کے تجربے کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ تجربہ کافی مسرت بخش اور تسکین دہ رہا۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ ایک اچھے مقصد کے لیے کام کر رہا تھا، اور مزید بتایا کہ لوگ انہیں کافی سنجیدگی سے لے رہے تھے۔ انہیں سننے کے لیے جلد ہی لوگوں کا مجمع جمع ہوجاتا جو کہ ان نوجوان مقررین کے لیے کافی حوصلہ بخش بات تھی۔

اس کے بعد یہ ڈاکٹر پیام تعلیم ایجوکیشن سینٹر نامی ایک دوسرے اسکول گئیں، جہاں انہوں نے طلبا اور ان کے والدین سے اسی طرح گفتگو کی جس طرح انہوں نے بہبود اسکول میں کی تھی۔ وہاں سوالات کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، جس نے اساتذہ کو کافی متاثر کیا، جو اب بہبود جیسی مشق میں بڑی جماعتوں کے طلبا کو بھی شامل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

اگر یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے تو یہ ایک بہت ہی مثبت اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹی بی کا شعبہ اپنی اپنی کمیونٹی تک پہنچنے کے لیے اسکول جانے والے بچوں کے تعاون کے ساتھ مزید بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ہم ٹی بی کو سنجیدگی سے لیں۔ دنیا بھر میں ٹی بی سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سالانہ 50 ہزار نئے کیسز کے ساتھ ٹی بی کے 5 لاکھ 50 ہزار کیسز پائے گئے ہیں۔ کچھ برس قبل پاکستان چھٹے نمبر تھا مگر افسوس کے ساتھ ہم اور بھی نیچے کی طرف گئے۔ ناقابل علاج ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی (MDR-TB) کی بات کریں تو عالمی سطح پر ہم چوتھے نمبر پر ہیں، یعنی صورتحال مزید بدتر ہی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہر سال ایم ڈی آر ٹی بی کے 15 ہزار مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے، اور سالانہ پاکستان میں ٹی بی کے باعث ہزاروں لوگوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

عوام میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث 2 بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک بڑی تعداد میں ٹی بی کے کیسز کی نشاندہی نہیں ہوپاتی، یوں انفیکشن مہلک رفتار کے ساتھ تیزی سے جسم کے اندر پھیلتا جاتا ہے اور بیماری کے بوجھ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

ٹی بی کا نیا مریض تشخیص اور علاج شروع ہونے تک 11 سے 15 افراد میں اس بیماری کو منتقل کرسکتا ہے۔ صرف علاج سے اس مرض کے جراثیم کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹی بی کے کئی مریض اپنا علاج مکمل نہیں کرپاتے۔ خود کو بہتر محسوس کرنے کے بعد وہ ادویات لینا چھوڑ دیتے ہیں، اسی وجہ سے ایم ڈی آر ٹی بی کے مریضوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ علاج اتنا پیچیدہ کیوں ہے۔ براہ راست مشاہداتی علاج کے مختصر کورسز (,directly observed treatment, short-course) (DOTS) کی اسٹریٹجی کے تحت ہر ٹی بی مریض کو علاج کے پورے 6 ماہ کے دوران زیر مشاہدہ رکھا جاتا ہے، یوں خرچے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

بہبود ٹیم کی جانب سے اختیار کیے گئے طریقے کی مدد سے متعدد فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ جب ایک کمیونٹی آگاہی پیدا کرنے اور بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کے عمل میں خود شامل ہوگی تو نظام مزید بہتر انداز میں کام کرے گا۔ جہاں لوگ اجتماعی طور پر کام کرسکتے ہیں وہاں وہ لوگ اپنی خوشحالی کی ذمہ داری خود لیں گے۔ جہاں حکومت کے کام کی ضرورت ہے وہاں کمیونٹی حکام پر دباؤ ڈال سکیں گے تاکہ وہ اپنے فرائض کو فرائض کو انجام دیں۔

یہ مضمون 12 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں