irfan.husain@gmail.com
[email protected]

جب ایک جنونی آسٹریلین دہشتگرد، برینٹن ٹرینٹ نے کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد میں درجنوں عبادتگزاروں کو قتل کیا تو نیوزی لینڈ کو شدید صدمہ پہنچا اور خوف نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یہ ایک ایسا پرامن ملک ہے جو دہشتگردی کے اس قدر گھناؤنے سانحے سے انجان تھا۔ پوری دنیا ہمدردی اور حمایت میں اس دور بسے جزیرے کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ تاہم محبت اور ہمدردی سے کس طرح گہرے زخموں کو ٹھیک کیا جاتا ہے یہ ہم نے اس ملک کی نوجوان وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن سے سیکھا جنہوں نے دل کو چھونے والے انسانیت کے لیے جذبات کا مظاہرہ کرکے ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

پوری دنیا نے دہشتگردی کی مختلف طریقوں سے کی جانے والی مذمت میں آرڈرن کے قائدانہ کردار کی تعریف کی۔ سب سے زیادہ مسلمان ان کی ستائش اور پسندیدگی میں آگے آگے رہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے اور اچھی بات بھی ہے، مگر مجھے کیوں منافقت کی بو سی آتی ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ مساجد میں مسلمانوں کا خون ان کے ہی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے ہاتھوں نہایت افسوس کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چند مگرمچھ کے آنسو بہانے اور ظلم بربریت برپا کرنے والے گروہ کی دہشتگردی پر معمول کے مطابق مذمت کرنے کے بعد اُمہ خاموش ہوجاتی ہے۔

ہم نہ تو لواحقین اور زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ آرڈرن جیسی گرم جوش اور ہمدردانہ ملاقاتیں دیکھتے ہیں۔ نہ مرجانے والوں کے لیے پھول رکھتے یا موم بتی جلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’صدمہ اور خوف‘ کا اظہار کرنے والے اداریہ کی امید کرسکتے ہیں۔ اور اسی طرح اگلے واقعے میں بھی یہ معاملہ رہتا ہے۔

افغانستان سے لے کر عراق تک، عبادتگزاروں کو مساجد یا ’عبادت گاہوں‘ میں ذبح کیا جاتا ہے۔ مسلمان رہنما اور علما شاذونادر ہی ان بربریت سے بھرپور حملوں پر دھیان دیتے ہیں اور انہیں حد سے زیادہ مذہبی جوش و خروش کے اظہار کے طور پر لیتے ہیں۔

کیا یہ بے حسی ہماری سنگدلی کی علامت ہے، یا پھر یہ سالوں کے تشدد کا نتیجہ ہے کہ جس نے ہمیں تکلیف سے دوچار افراد کے ساتھ درد بانٹنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے؟ جب ایک ہزارہ شخص شیعہ ہونے کی وجہ سے بم حملے کا نشانہ بنتا ہے تو کیا اس کا خون ہمارے خون سے مختلف ہوتا ہے؟ اور چونکہ اس کے چہرے کی وسطی ایشیائی خصوصیات اس کے عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں، تو کیا یہ اکثریت کی نظروں میں اسے رد کرنے کی وجہ بنتی ہے۔

2014ء میں جب پشاور کے ایک اسکول پر حملہ ہوا جس میں شدت پسندوں کے ہاتھوں تقریباً 140 بچوں کا قتل عام کیا گیا تھا، تو کئی عظیم اور بھلے مانس ہمدردی اور حمایت کا اظہار کرنے وہاں پہنچے۔ مگر جب اسی طرح کے حملے چرچز اور مندروں یا پھر جب امام بارگاہوں پر ہوئے تو اس وقت پر ہوئے تو کتنے لوگ سوگواران سے تعزیت اور زخمیوں کی عیادت کے لیے پہنچے؟ کہاں ہیں آرڈرن صفت مسلمان؟

جب اسرائیلی اور ان کے امریکی حمایتی (بشکریہ ڈونلڈ ٹرمپ) مقبوضہ فلسطین کے مزید حصوں پر قبضہ کرنا شروع کرتے ہیں تو مسلم دنیا میں اس بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کے خلاف چند ایک ملکوں میں ہی مظاہرے کیے جاتے ہیں۔

اسرائیل کے زمین پر قبضوں پر شدید مخالفت کا اظہار مسلم دنیا سے نہیں بلکہ یورپی ملکوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ عرب رہنماؤں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو روزانہ ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کے استحصال پر اب زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ (یہاں محمد بن سلمان کے لیے زور دار تالیاں ہوجائیں۔)

جہاں ہم کشمیریوں کے لیے انصاف کی مانگ کرتے ہیں، وہیں دنیا کے دیگر حصوں میں بسنے والے مسلمانوں کے مشکلات حالات ہمارے لیے زیادہ اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ اگر ہم روہنگیا نسل کشی کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے صرف آن لائن ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا احتجاج کے لیے ہمارا پسندیدہ پلیٹ فارم ہے کیونکہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہے۔

یا پھر دیگر لوگوں کے ساتھ ان کی تکلیف یا غم بانٹنے میں ہماری کمی کی وجہ ہمارا تقدیر پر یقین پرست رویہ ہے؟ اگر ہم یہ مانتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں کہ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے پھر تو عبادتگزاروں کی موت بھی ان کے کرموں کا حصہ ہے۔ لہٰذا ان حملہ آوروں کے حملوں کی کیونکر مذمت کی جائے جو وہی کچھ کر رہے ہیں جس میں خدا کی مرضی شامل ہے؟

یہ ایک بہت ہی پریشان کن سوچ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم معاشروں میں حالات و معاملات ساکن رہتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر بھی اچھوت (یا دلت) اس لیے نچلے سماجی درجے تک محدود رہتے ہیں کیونکہ لوگوں کے نزدیک ہندو عقائد کے مطابق ان کا مقدر ہی کچھ ایسا لکھا گیا ہے۔ کیتھولک چرچ کے زیر اختیار عیسائیوں کو ریفارمیشن اور اس کے بعد انلائٹمنٹ جیسی تحاریک کی صورت میں آزادی ملنے سے قبل اس قسم کی تقدیرپرستی نے انہیں کیتھولک چرچ کے غلبے میں رکھا۔

مغرب میں تقدیر پرستی کو مسترد کرنے اور انفرادیت پسندی کے ابھار سے ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ وہاں عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ہم اپنے کاموں سے خود اپنی تقدیر خود لکھ سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں الہامی مداخلت کا انتظار نہیں کرنا۔ نہ ہی ہماری قسمت ستارے لکھتے ہیں، ہمارا مستقبل وہی ہے جو ہم نے خود تخلیق کیا ہے۔

زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں ہم اپنی غربت کا ذمہ دار یورپی کلونیلسٹون کو ٹھہراتے ہیں۔ مگر کلونیل دور کا خاتمہ ہوئے 70 برس بیت گئے۔ اس طویل عرصے کے دوران اپنے سابقہ حکمرانوں کے چھوڑے گئے قوانین کو تبدیل کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟ ایک وقت پر آکر ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ہماری پسماندگی ہماری قسمت کا ہی حصہ ہے۔ ضمیر فروش اور نااہل حکمران اس تقدیر پرستی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

چین اپنی کئی ایجادات کے باوجود بھی صدیوں تک کمزور اور عالمی منظر نامے سے اوجھل رہا۔ مثلاً، بارود چین نے ایجاد کیا تھا مگر انہوں نے اس کا استعمال بندوق اور توپ بنانے کے لیے نہیں کیا۔ یہ کام مغرب نے کیا اور یوں اس کے لیے دنیا پر قابض ہونا آسان ہوگیا۔ چینیوں کے ایجاد کردہ قطب نما آلے (کمپاس) کی ہی مدد سے مغرب نے دنیا کا بڑا حصہ دریافت اور فتح کیا۔ یہ دراصل انفرادیت پسندی کی تقدیرپرستی پر فتوحات تھیں۔ جب تک ہم اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ نہیں کرلیتے تب تک ہم جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔

یہ مضمون 13 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Shahid Apr 14, 2019 03:50pm
right
یمین الاسلام زبیری Apr 14, 2019 10:56pm
عرفان صاحب بہت عمدہ مضمون ہے۔ ہم یقینا منافقین کی صف میں آتے ہیں۔ آج ہی کے اخبار میں جھنگ سے ایک مظاہرے کی تصویر ہے جو کرئسٹ چرچ کے لیے کیا گیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ وہی لوگ اپنے ہزارہ، عسائی، ہندو اور دوسری اقلیتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔ آپ نے چین کے متعلق ایک نئے زاویے سے ذکر کیا ہے، یعنی بارود کا پر امن استعمال۔ میں اس میں یہ بھی بڑھا دوں کہ وہ چین ہی کا بادشاہ تھا جس نے انگریزوں کی رشوت ٹھکرا دی تھی اور اپنے ہاں افیون کی تجارت نہیں ہونے دی حتہ کہ افیون جنگیں ہوئیں اور وہ بیچارہ اپنی سلطنت کھو بیٹھا۔ اس پر آفرین ہے کہ اس نے کم از کم اپنے ہاں ایک برائی کو روکنے کی تا دم مرگ کوشش کی۔