ازمس جھیل، اَن دیکھی خوبصورتی

ازمس جھیل، اَن دیکھی خوبصورتی

امجد علی سحابؔ

صوبہ خیبر پختونخوا کے مشہور شاعر، مُصنف، محقق اور صحافی سعداللہ جان برق پشتونوں کی تاریخ پر مبنی اپنی 3 جلدی تصنیف ’د پختنو اصل نسل‘ میں لکھتے ہیں کہ اولین انسان کے جنت سے نکالے جانے کے تصور کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ پہلے پہل انسان پہاڑوں کا باسی تھا۔ پہاڑوں میں کھانے پینے کی اشیا کی کوئی کمی نہ تھی۔ یہی پہاڑ انسان کی جنت تھے۔ پھر جب اشیائے خورد و نوش میں کمی واقع ہونے لگی تو انسان پہاڑوں سے نیچے زمین پر بسیرا کرنے لگا اور اپنی جنت سے نکل آیا۔

میں جب بھی پہاڑوں کی سیر کے لیے نکلتا ہوں، کسی نئی آبشار یا جھیل کا نظارہ کرتا ہوں، تو پتا نہیں کیوں میرے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے صدیوں پہلے میری روح اس جھیل یا آبشار کو دیکھ چکی ہے اور اسے اپنے اندر جذب کرچکی ہے۔

اس تحریر کے ذریعے ایک ایسی ہی جھیل کی سیر کرانا مقصود ہے، جس کے بارے میں باقی ماندہ پاکستان کے باسی تو دُور کی بات، اپنی وادی ’اتروڑ‘ کے باسی بھی کم ہی جانتے ہیں۔ آپ اسے بجا طور پر اَن دیکھا پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ آئیے، سب سے پہلے وادئ اتروڑ کا مختصر تعارف آپ سے کرواتے ہیں۔

وادئی اُتروڑ

وادئ اُتروڑ کو اگر جھیلوں کی وادی کہا جائے تو یہی بہتر ہوگا۔ وہ اس لیے کہ دیومالائی کہانیوں کے لیے مشہور جھیل ’کنڈول‘ ہو، سحر انگیز جھیل ’سپین خوڑ‘ ہو، پریوں کا مسکن ’پری جھیل‘ ہو یا پھر تاحد نگاہ پھیلے سرسبز مرغزاروں اور سبزہ زاروں کا لُطف دوبالا کرنے والی جھیل ’ازمس‘ ہو، ان جھیلوں کی سیر کے لیے ضرور بالضرور اس چھوٹی سی وادی کا رُخ کرنا ہوگا۔

اُتروڑ میں ’لدو بانڈہ‘ مذکورہ تمام جھیلوں کے لیے ایک طرح سے بیس کیمپ کا کردار ادا کرتا ہے۔ لدو کا اپنا حسن اتنا ہے کہ ایک بار یہاں قدم رنجہ فرمانے والا تادمِ آخر اس کے سحر سے خود کو نکال نہیں پاتا، اور اسی وادی اُتروڑ کا دیسان بانڈہ تو نہ صرف سوات بلکہ پورے ملک میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔

لدو بانڈہ کا ایک دلفریب منظر—امجد علی سحابؔ
لدو بانڈہ کا ایک دلفریب منظر—امجد علی سحابؔ

سپین خوڑ جھیل سے لی جانے والی دیسان بانڈہ کی خوبصورت تصویر—امجد علی سحابؔ
سپین خوڑ جھیل سے لی جانے والی دیسان بانڈہ کی خوبصورت تصویر—امجد علی سحابؔ

آغازِ سفر

وادئ اُتروڑ تک پہنچنے کے لیے سفر کا آغاز سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے کرنا پڑتا ہے۔ مینگورہ سے بحرین تک کا راستہ پکی سڑک پر مشتمل ہے جو 57 تا 58 کلومیٹر بنتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے میں باآسانی یہ راستہ طے کیا جاسکتا ہے۔ صبح 7 بجے اگر سفر شروع کیا جائے اور بحرین کے مقام پر ہی ناشتہ کیا جائے تو اس سے بہتر بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ بحرین بازار ہوٹلوں اور ریسٹورینٹ کے حوالے سے پورے سوات میں مشہور ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ قیمتیں بھی مناسب ہیں۔

بحرین کے آگے اُتروڑ تک راستہ کچا اور پُرخطر ہے۔ گو کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے اول اول کافی سرگرم دکھائی دے رہی تھی مگر جیسے ہی وقت گزرتا جا رہا ہے، ان کی سرگرمی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔

ناشتہ بحرین میں کرنے کے بعد دوپہر کا کھانا باآسانی کالام بازار میں تناول کیا جاسکتا ہے، جہاں مختلف ریسٹورینٹس پر من پسند مقامی و غیر مقامی کھانے مل جاتے ہیں۔ زیادہ تر ریسٹورینٹ لاہور و ملتان وغیرہ کے مالکان اور خانساماؤں کے ہیں۔ کالام بازار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز مل سکتی ہے۔

کالام سے آگے گھنے جنگل میں ایک دوراہا آتا ہے، جہاں سے ایک راستہ مٹلتان، مہوڈنڈ، جھیل سیف اللہ اور ڈونچار آبشار کی طرف نکلتا ہے جبکہ دوسرا وادئ اُتروڑ، گبرال، شاہی باغ، گوجر گبرال اور خرخڑے جھیل کی طرف نکلتا ہے۔مذکورہ دونوں راستوں پر فور بائے فور گاڑی کے ذریعے ہی سفر طے کیا جاسکتا ہے۔

اتروڑ میں موسمِ گرما میں ہر روز دوپہر کے بعد بادلوں کے ایسے ٹکڑے آنکھ مچولی کھیلتے دیکھے جاسکتے ہیں—امجد علی سحابؔ
اتروڑ میں موسمِ گرما میں ہر روز دوپہر کے بعد بادلوں کے ایسے ٹکڑے آنکھ مچولی کھیلتے دیکھے جاسکتے ہیں—امجد علی سحابؔ

جنگل کا راستہ شروع ہونے سے پہلے دریا پر بنایا گیا مقامی پل—امجد علی سحابؔ
جنگل کا راستہ شروع ہونے سے پہلے دریا پر بنایا گیا مقامی پل—امجد علی سحابؔ

ازمس جھیل کے راستے میں آنے والی خوبصورت آبشار—امجد علی سحابؔ
ازمس جھیل کے راستے میں آنے والی خوبصورت آبشار—امجد علی سحابؔ

مینگورہ شہر سے وادئ اتروڑ تک کا فاصلہ 110.6 کلومیٹر ہے جسے ٹھیک 5 یا ساڑھے 5 گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ روڈ پر تعمیراتی کام یا عید اور دیگر چھٹیوں کے موقع پر بمپر ٹو بمپر ٹریفک والی صورتحال نہ ہو۔

اُتروڑ کے مین روڈ سے ایک راستہ دریا کی طرف مڑتا ہے، جہاں آدھے گھنٹے کے فاصلے پر لدو بانڈہ کی حد شروع ہوتی ہے۔ لدو میں کیمپنگ کے لیے بڑے بڑے میدان ہیں، جہاں باآسانی خیمے لگا کر رات گزاری جاسکتی ہے۔ صبح تازہ دم وادئ اُتروڑ کی مذکورہ جھیلوں میں سے کسی ایک کا قصدِ سفر کیا جاسکتا ہے۔ لدو سے باآسانی گائیڈ مل سکتا ہے، جو بخوشی 2 سے 5 ہزار روپے تک کی فیس لے کر 8 سے 10 افراد پر مشتمل ٹیم کو کسی بھی جھیل یا جنت نظیر بانڈوں میں سے ایک کی سیر کرواتا ہے۔

ازمس جھیل کی وجۂ تسمیہ

ازمس جھیل (Izmis Lake) کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے چند روایات مشہور ہیں۔ ہمارے 25 سالہ نوجوان گائیڈ قاسم خان پختون کے بقول، ’ازمس ہماری مادری زبان میں زمین کے ایک ایسے ٹکڑے کو کہتے ہیں، جس پر سبزہ ہی سبزہ ہو۔‘ دوسری روایت وادئ اتروڑ کے 50 سالہ شخص (جس کا نام اس وقت میرے ذہن سے نکل چکا ہے) کے مطابق، ’ازمس ہماری زبان میں غار کو کہتے ہیں، چونکہ جھیل کے راستے پر یا اس کے آس پاس بڑے بڑے پتھر ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس انداز سے ملتے ہیں کہ غار نما مقامات نظر آنے لگتے ہیں۔‘

اِزمِس جھیل—امجد علی سحابؔ
اِزمِس جھیل—امجد علی سحابؔ

جھیل پر آئی ہوئی ایک ٹیم کے 2 ممبر جھیل کے قریب بیٹھے محوِ گفتگو ہیں—امجد علی سحابؔ
جھیل پر آئی ہوئی ایک ٹیم کے 2 ممبر جھیل کے قریب بیٹھے محوِ گفتگو ہیں—امجد علی سحابؔ

دونوں روایات اپنی اپنی جگہ درست ہوں گی مگر جہاں تک میرا مشاہدہ ہے ازمس میں بڑی بڑی چراہ گاہیں بھی ہیں اور غار نما جگہیں بھی وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ سبزہ زاروں میں چرتے مال مویشی ازمس بانڈہ کی خوبصورتی ہیں اور غار نما جگہیں ہم جیسوں کے لیے بارش اور تیز آندھی میں نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔

ازمس جھیل

ازمس جھیل وادئ اتروڑ کی شمال مشرقی حصے میں سطح سمندر سے تقریباً 11 ہزار 230 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ جھیل کو 3 اطراف سے فلک بوس پہاڑ گھیرے ہوئے ہیں، جن کی چوٹیوں پر سارا سال پڑی رہنے والی برف جھیل کو وافر مقدار میں پانی مہیا کرتی رہتی ہے۔

ازمس جھیل—امجد علی سحابؔ
ازمس جھیل—امجد علی سحابؔ

جھیل تک رسائی کے 2 طریقے ہیں۔

  • پہلا، پا پیادہ لدو سے جھیل تک مسافت طے کی جاسکتی ہے۔ یہ صبر آزما مرحلہ تقریباً 6 سے 7 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
  • دوسرا، چینیٹی شی بانڈہ تک جیپ ایبل ٹریک پر فور بائے فور گاڑی کے ذریعے مسافت طے کی جاسکتی ہے۔ یوں پھر جھیل تک ساڑھے 4 یا 5 گھنٹے میں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

چینیٹی شی بانڈہ سے آگے 2 گھنٹے کی مسافت قدرے مشکل ہے مگر بانڈہ کے ارد گرد جب فلک بوس پہاڑوں اور برف کی سفید چادر سر پر تانے چوٹیوں پر نظر پڑتی ہے تو تھکاوٹ کا احساس زائل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ چینیٹی شی بانڈہ وہ آخری مقام ہے جہاں ٹری بیلٹ (درخت پٹی) ختم ہوجاتی ہے اور الپائن زون شروع ہوجاتا ہے۔

چینیٹی شی بانڈہ میں مال مویشی کے چرنے کا دلچسپ منظر—امجد علی سحابؔ
چینیٹی شی بانڈہ میں مال مویشی کے چرنے کا دلچسپ منظر—امجد علی سحابؔ

چینیٹی شی بانڈہ بانڈہ میں آئی ہوئی ایک ٹریکنگ ٹیم کے ممبر—امجد علی سحابؔ
چینیٹی شی بانڈہ بانڈہ میں آئی ہوئی ایک ٹریکنگ ٹیم کے ممبر—امجد علی سحابؔ

ایک برّہ، چینیٹی شی بانڈہ میں میٹھی نیند کے مزے لے رہا ہے—امجد علی سحابؔ
ایک برّہ، چینیٹی شی بانڈہ میں میٹھی نیند کے مزے لے رہا ہے—امجد علی سحابؔ

2 گھنٹے کی مسافت ختم ہوتی ہے تو شمال مشرق کی جانب فلک بوس پہاڑ نظر آتے ہیں جو سر تا پا برف پوش دکھائی دیتے ہیں۔ مذکورہ پہاڑوں کے چرنوں پڑی ازمس جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے تو بے اختیار منہ سے یہ شعر نکل پڑتا ہے کہ

میں داسی ہوں توری سئیاں

چرن پڑی کی تھام لے بئیاں

جھیل تک رسائی کا آخری گھنٹا کافی صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے، جس میں بڑے بڑے پتھروں کے درمیان راستہ تلاشنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے مگر جھیل پر پہنچتے ہی آدمی اپنی تمام تر تکالیف بھول سا جاتا ہے۔


امجد علی سحاب روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔