10سال بعد کراچی سے لاہور کا سفر

یوں تو روزانہ کی بنیاد پر کئی کلومیٹر کا سفر ہم سب ہی کرلیتے ہیں لیکن جب بات 10 سال بعد شہر سے باہر جانے کی ہو اور ٹرین سے سفر کیا جائے تو منزل پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ سفر کا ایک الگ ہی لطف آتا ہے۔

لاہور میں رشتے دار ہونے کے باعث شہر سے باہر سفر زیادہ تر کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی تک ہی محدود رہا ہے، اور پھر جب سفر طویل عرصے تک نہ ہوسکے اور ایک دہائی بعد شہر سے باہر سفر کرنے کا موقع ملے تو بھلا یہ کیفیت دلفریب کیوں نہ ہو؟

لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے، اور شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنے لور نی ویکھیا او جنمیا نی (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا)۔

ان سب باتوں کا کُلیہ یہ ہے کہ لاہور شہر واقعی دیکھنے اور رہنے کے لائق ہے۔ وہاں کے کھانے اپنے آپ میں لاجواب ہیں اور جب آپ کا تعلق کراچی سے ہو اور ایک مصروف ترین زندگی سے فرصت کے چند روز نکال کر گھومنے جایا جائے تو لاہور کی سیر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔

لاہور جانے کی بالاخر ٹھانی تو دفتر سے چھٹی ملتے ہی ٹکٹیں بُک کروائیں اور جب جانے کا وقت آیا تو ان دنوں پاک – بھارت کشیدگی کی وجہ سے صورتحال انتہائی نازک تھی۔ بھارتی دراندازی کے باعث اندرون و بیرونِ ملک فضائی حدود بند تھی جبکہ ٹرین کی آمد و رفت متاثر ہونے کی افواہیں بھی گردش کررہی تھیں۔

ہم نے سفر کے لیے بزنس ٹرین کا انتخاب کیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم کینٹ اسٹیشن کراچی کا دورہ نہ کرسکے اور پلیٹ فارم نمبر 7 سے راہ لی، جہاں پہنچتے ہی خوشگوار حیرت ہوئی کہ پلیٹ فارم پر کافی صفائی بھی تھی اور کھانے پینے کے دیگر کیبنز کے درمیان حکومت کی جانب سے قائم کی گئی بک شاپ بھی موجود تھی۔

بک شاپ میں ڈھیروں کتابیں موجود تھیں جنہیں صرف باہر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا کیونکہ جمعے کی نماز کا وقت ہونے کے باعث وہ بند تھی۔

آخر کار ساڑھے تین بجے کے قریب بزنس ایکسپریس آئی تو میری خوشی دیدنی تھی۔ کینٹ اسٹیشن کراچی کی حدود سے نکلتے ہی جہاں ایک خوشگوار احساس ہوا کہ آخرکار 10 سال بعد شہر سے باہر قدم نکال ہی لیا وہیں کھڑکی سے باہر جگہ جگہ کچرا دیکھ کر شدید کوفت بھی ہوئی کیونکہ جتنا کچرا ریلوے لائن کے ارد گرد کراچی سے گزرتے ہوئے دیکھا اتنا کسی اور جگہ نہیں تھا۔

لانڈھی، بن قاسم اور دھابیجی سے گزرنے کے بعد ٹرین نے باقاعدہ رفتار پکڑی اور اس وقت ٹرین کی آواز سے زیادہ کوئی آواز بھلی محسوس نہیں ہورہی تھی۔

ہماری ٹرین اپنے مقررہ وقت پر حیدرآباد پہنچی۔ ٹرین رکتے ہی حیدرآبادی چپل سمیت وہاں کی خاص اشیا بیچنے والے حضرات کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔

جب ہم نواب شاہ پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا اور سندھ سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں بارش ہورہی تھی۔

بارش اور اندھیرے کی وجہ سے نواب شاہ کا اسٹیشن دیکھ نہیں سکے کیونکہ وہاں گزشتہ 4 گھنٹے سے موسلا دھار بارش ہونے کے باعث بجلی کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔

اب بھوک لگنے لگی تھی، اس لیے سوچا کہ جو گھر سے کھانا لایا گیا ہے، اسے تناول فرما لیا جائے تو یہی بہتر ہے۔ جہاں ایک طرف بھوک کی وجہ سے اس کھانے کے ذائقے کو چار چاند لگ چکے تھے، وہیں غصہ بھی انتہا پر تھا کیونکہ اپنے ساتھ لایا ہوا رائتہ میرے بیگ پر گر گیا تھا اور میں اگلا آدھا گھنٹہ صرف اپنا بیگ ہی صاف کرتی رہی۔

اب انتظار تھا تو صرف روہڑی آنے کا کیونکہ کراچی سے لاہور کے سفر کے دوران وہاں کی چائے سب سے زیادہ ذائقہ دار ہوتی ہے، روہڑی پہنچے تو بارش کے باعث پلیٹ فارم جل تھل تھا اور مارچ ہونے کے باوجود خنکی اتنی تھی کہ ہم ٹھٹھرنے پر مجبور تھے۔

اس دوران ٹرین سے نیچے اتر کر ہم نے ہلکی ہلکی پھوار کے ساتھ چائے پی اور 20 منٹ بعد ٹرین ایک بار پھر منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

روہڑی آنے کے بعد آپ پنجاب کی حدود سے قریب ہوتے ہیں۔ یہاں سے آگے نکلنے کے بعد ٹرین کا کچھ سفر سوتے جاگتے اور باتیں کرتے گزرا اور رحیم یار خان آگیا۔

رحیم یار خان کے بعد بہاولپور پر ٹرین زیادہ وقت کے لیے رکتی ہے، جہاں کا اسٹیشن اب نئی طرز پر بنایا گیا ہے جو تمام اسٹیشنز کے مقابلے میں کافی خوبصورت ہے۔ بہاولپور کے بعد آخرکار ہم بھی نیند کی وادی میں کھوگئے اور خانیوال پہنچنے سے قبل آنکھ کھلی، جہاں اس وقت فجر کی اذان ہورہی تھی۔

خانیوال اسٹیشن سے گزریں اور حلوہ پوری نہ کھائیں، بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس اسٹیشن پر کراچی کی طرح حلوہ پوری کے ساتھ چنے نہیں ملتے، بلکہ وہ الگ سے خریدنے پڑتے ہیں۔

20 منٹ بعد جب ٹرین چلی تو لاہور سے زیادہ ساہیوال آنے کا انتظار تھا، آبائی شہر جو ٹھہرا۔ یوں تو ساہیوال جانے کا اتفاق بچپن میں صرف ایک دفعہ ہی ہوا ہے لیکن آبائی شہر ہونے کی وجہ سے اس شہر سے محبت شاید خون میں شامل ہے۔

آخر کار 7 بجے کے قریب ساہیوال آگیا۔ اسٹیشن پر کافی خاموشی تھی اور در و دیوار دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اسٹیشن پر ان دنوں مرمتی کام چل رہا ہے۔

شدید بارشوں کے باوجود ہماری ٹرین مقررہ وقت سے 15 منٹ پہلے ہی لاہور پہنچ گئی۔ اسٹیشن سے باہر نکلے تو ہمیں گھر لے جانے کے لیے رشتے دار پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔

لاہور اسٹیشن پہنچے تو اس وقت وہاں بھی تعمیراتی کام جاری تھا اور ساتھ ساتھ مینہ بھی برس رہا تھا، بارش کے ساتھ سفر کرنے کا یہ پہلا اتفاق تھا جو بہت زبردست رہا۔

اس یک طرفہ سفر کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ اکثر اسٹیشنز پر تعمیراتی کام چل رہا تھا او رائیونڈ اسٹیشن کو حال ہی میں نئی شکل دی گئی جو لاہور اسٹیشن سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔

علاوہ ازیں مختلف اسٹیشنز پر 2 منٹ کے دورانیے کے لیے رکنے والی ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا جس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے متعلقہ اسٹیشن پر کونسلر اور وزیرِ ریلوے کے نام لگے بینرز بھی نظر آئے۔

لاہور میں ہمارا ٹھکانہ شاہدرہ تھا۔ گھر پہنچنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ ناشتے کے لیے کہیں باہر جایا جائے۔ لہٰذا ہم کلچے اور چھولے کھانے چلے گئے۔ ذائقے میں تو یہ بہت لذیز تھے، مگر کراچی والے ہونے کی وجہ سے اتنا بھاری بھرکم ناشتہ کرنے کی عادت نہیں۔

شاہدرہ میں 2 دن قیام کیا اور ان 2 دنوں میں بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا۔

اگرچہ اس پوری تحریر میں کھانے کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے، لیکن لاہور کی بریانی کا ذکر کیے بغیر بات شاید مکمل نہ ہو۔ میزبانوں نے ہمیں کہا کہ کیا بریانی کھائیں گے؟ تو ہم بے اختیار ہنس پڑے کہ بھلا لاہور میں کب سے بریانی ملنا شروع ہوگئی، یہاں تو بس پلاؤ ہوتا ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہمیں غلط ثابت کرنے کے لیے بریانی منگوا لی گئی، اور اسے کھا کر میں حیران رہ گئی، کیونکہ وہ بالکل کراچی جیسی ہی بریانی تھی۔

یہ لاہور کا شاید سب سے منفرد پہلو تھا، جس کے بارے میں دیکھنا تو دُور کی بات، کبھی سنا بھی نہیں تھا۔

2 دن گزرنے کے بعد ہم بادامی باغ میں واقع نانی کے گھر پہنچے جہاں پہلا دن تو بس پنجرے میں قید فاختاؤں کو دیکھتے اور کبوتروں کو اڑتے دیکھتے گزر گیا۔

اگلا دن کافی مصروف تھا۔ دن بھر ملاقاتوں کے بعد شام میں ہم نے گریٹر اقبال پارک جانے کی تیاری کی اور آخر کار ہم 4 بجے لال قلعہ کے لیے نکلے جہاں تک کا سفر ہم نے چنگ چی رکشے میں کیا اور 10 منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔

زندگی میں پہلی مرتبہ مغلیہ دور کے ورثے یعنی شاہی قلعہ دیکھنے کا موقع ملا تھا لیکن اس کی بیرونی حالت دیکھ کر منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ تو کھنڈر معلوم ہورہا ہے۔ کاش کے اس آثارِ قدیمہ کا خیال کیا جاتا۔

گریٹر اقبال پارک میں شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور مینارِ پاکستان ایک ساتھ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کا مزار، ایک میوزیم اور 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی موجود ہے۔

کافی طویل راستہ پیدل چلنے کے بعد ہم شاہی قلعے کے اندر پہنچے تو وہاں سب سے پہلے جس عمارت پر نظر پڑی اس کی از سرِ نو تعمیر جاری تھی جس کے بعد ہم ایک طویل گھاٹی سے ہوتے ہوئے آخر کار قلعے میں پہنچ گئے، جہاں چند قدم کے فاصلے سے توپیں موجود تھیں جو اس زمانے میں دفاع کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔

تاہم ہم دیوانِ عام سے ہی واپس پلٹ آئے کیونکہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے علاوہ باقی تمام افراد تھک چکے تھے حالانکہ قلعہ دیکھنے کی خواہش باقی تھی اور پھر بادشاہی مسجد کا رخ کیا۔

بادشاہی مسجد بھی مغلیہ دور میں اورنگزیب عالمگیر نے بنوائی تھی جو مغلیہ دور کی شان ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور کی پہچان بھی ہے۔

مسجد میں شام کے وقت لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، لیکن رش کے باوجود بھی وہاں سکون کی فضا کا راج تھا۔ بادشاہی مسجد میں کچھ وقت گزارنے کے بعد اسی کے احاطے میں قائم مزارِ اقبال پر حاضری دی اور قومی شاعر علامہ اقبال کے لیے فاتحہ پڑی۔

اس کے بعد میری نظر بادشاہی مسجد کی دوسری جانب واقع سکندر حیات خان کی قبر پر پڑی جو متحدہ پنجاب کے گورنر اور ریزرو بنک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر رہے ہیں۔

بادشاہی مسجد کے باغ میں باز، چیل اور طوطے بھی موجود تھے جن سے میں نے دُور سے ہی سلام دعا کی۔ اس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ سامنے حضوری باغ ہے جو مغلیہ دور اور برطانوی راج میں تباہ حالی کے بعد دوبارہ تعمیر ہونے کے بعد آج بھی موجود ہے۔

اب ہماری اگلی منزل مینار پاکستان تھی۔ وہاں پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی اس پارک کو وسیع کیا گیا اور اس کے قریب ہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں لگائے گئے ڈانسنگ فاؤنٹینز کا نظارہ کیا اور گھر کی راہ لی۔

گریٹر اقبال پارک سے نکلے تو پنجاب حکومت کی جانب سے سیاحوں کے لیے چلائی گئی خصوصی بس 'لور لور اے' کھڑی نظر آئی جو شہر کے اہم مقامات کا دورہ 500 روپے میں کروا رہی تھی، مگر افسوس کہ ہمارے پاس وقت کم تھا، اس لیے اس پر سفر نہیں کرسکے۔

اس کے بعد اگلے روز ہم نے داتا دربار کا رخ کیا۔ داتا دربار پہنچے تو وہاں سیکیورٹی انتہائی سخت تھی اور پھول لینے کی جگہ بہت زیادہ دُور تھی تاہم ایک خاتون نے ہمیں اپنے پھول پکڑائے اور دعا کرنے کا کہہ کر چلی گئی۔

سخت سیکیورٹی سے گزر کر ہم مزار میں داخل ہوئے اور وضو کرنے کے بعد دربار پر حاضری دی۔ وہیں پر عصر کی نماز پڑھی اور شام گزار کر گھر واپس آگئے۔

دربار زیادہ دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ کئی سال قبل ہونے والے دھماکے کی وجہ سے کچھ جگہیں اب بھی قنات لگا کر بند کی ہوئیں تھیں۔

داتا دربار سے باہر نکلتے وقت جب جوتے واپس لینے لگے تو 4 جوڑی جوتوں کے 150 روپے دینے کا کہا گیا لیکن اس حوالے سے مسلسل اعلانات کیے جارہے تھے کہ اگر 10 روپے فی جوڑی سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں تو انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے۔

یہ اعلانات ہم نے بھی سنے تھے اور سامنے ہی تختی بھی لگی دکھائی دی لیکن پیسوں پر جیسے ہی بحث شروع ہوئی تو میری رشتے دار خاتون نے کہا 'ساڈی کڑی میڈیا وچ ہے، ہن ٹی وی تے آئے گا زیادہ پیسے لیندے او اور مجھے کہا فوٹو کھچ اینا نوں دسنے آں۔ (ہماری لڑکی میڈیا میں ہے، اب ٹی وی پر آئے گا پیسے زیادہ لیتے ہیں، مجھے کہا تصویر کھینچو انہیں بتاتے ہیں)۔ اس دھمکی کا اثر یہ ہوا کہ اضافی پیسے نہیں لیے گئے۔

لاہور میں ایک اور مشاہدہ بھی کیا اور وہ یہ کہ کراچی کے مقابلے میں وہاں صفائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہت زیادہ بہتر ہے۔ وہاں پہنچ کر ایسا واضح طور پر محسوس ہوا کہ 10 سالوں میں لاہور بہت زیادہ ترقی اور کراچی بہت زیادہ پیچھے جاچکا ہے۔

اگلے دن ہم نے کچھ اور علاقوں کا دورہ کیا اور محکمہ آبپاشی کی کالونی بھی گئے، جو کافی ہری بھری اور انتہائی خوبصورت ہے۔ اس علاقے میں محکمہ کے ملازمین کو ان کے رینک کے حساب سے گھر دیے گئے ہیں اور ہر گھر کے ساتھ کیاریاں بھی موجود ہیں جہاں رہائشی افراد نے سبزیاں اور درخت اگائے ہوئے ہیں۔

کالونی کا دورہ میرے 11 سالہ کزن نے کروایا اور وہاں ہم نے لہسن، پودینہ، دھنیا اور مولی کے ساتھ ساتھ پھلوں کے درخت بھی دیکھے۔ اس کے علاوہ وہاں مختلف رنگوں کے گلاب بھی موجود تھے۔

اس علاقے میں انجیر، انار، شہتوت اور آم کے درخت بھی موجود تھے، ہم نے ایک گھر سے کھٹیاں بھی توڑ کر کھائیں، یہ کینو کے جیسا چھوٹا سا پھل ہے جسے ذائقے میں کھٹا میں ہونے کی وجہ سے عرفِ عام میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

کیاریوں سے ہم نے مولی بھی توڑی اور سبزے کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ ہر گھر کے باہر پودے دیکھ کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ اگر ہم سب اپنے گھروں میں پودے لگانا شروع کردیں تو گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت اور موسمیاتی تغیر پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

لاہور میں پیٹھی والے لڈو بھی کھائے جن میں کوئی لڈو نہیں ہوتا بلکہ آلو کے کباب پر مختلف اقسام کی چٹنیاں ڈال کر کدو کش کی ہوئی مولی کے ساتھ کھائی جاتی ہے جو یہاں کی ایک اور خاص ڈش ہے۔

لاہور میں واہگہ بارڈر، چڑیا گھر اور دیگر مقامات پر بھی جانا تھا لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور مسجد وزیر خان لاعلمی کی وجہ سے نہیں دیکھ سکی کیونکہ رنگ محل میں شاپنگ کی پیشکش کی جارہی تھی اور شاپنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا نہ ہی یہ معلوم تھا کہ وہیں پر مسجد بھی موجود ہے۔ افسوس اس وقت ہوا جب ہمیں کراچی آنا تھا کیونکہ اس وقت بتایا گیا کہ اگر رنگ محل چلتی تو مسجد وزیر خان بھی دیکھتی وہاں اور بھی بہت اچھی جگہیں ہیں اور ہم جا نہیں سکے۔

لاہور سے رختِ سفر باندھنے کا وقت آیا تو دل انتہائی اداس تھا اور واپس جانے کا قطعی طور پر کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اپنا گھر اپنا ہوتا ہے تو کراچی جانا ہی تھا۔

واپس آتے وقت دوست احباب اور گھر والوں کے لیے لاہور کی مشہور خلیفہ کی نان ختائی بھی لی۔

ہماری واپسی قراقرم ایکسپریس سے ہوئی۔ پلیٹ فارم نمبر 2 پر جب ٹرین آئی تو بھگدڑ سی مچ گئی اور ٹرین میں سوار ہونے کے بعد یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ ہمارے ساتھ جن 2 خواتین کی سیٹ ہے ان کے ساتھ 6 بچے بھی موجود ہیں جو پہلی مرتبہ کراچی جارہے تھے۔ اب ہم پورا سفر بچوں کو ہی پکڑتے رہے کہ کہیں حادثہ ہی نہ ہوجائے۔

لاہور سے جب ٹرین چلی تو دل اداس تھا اس لیے واپسی کا سفر کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ دن کی روشنی میں پنجاب کی ہریالی کو دیکھ کر احساس ہوا کہ جب انسان خود خوش نہ ہو تو ہر سُو اداسی اور یاسیت چھائی ہوتی ہے۔

قراقرم ایکسپریس فیصل آباد سے ہوتے ہوئے خانیوال پہنچی اور ہم مقررہ وقت سے 4 گھنٹے تاخیر کے بعد ڈرگ روڈ جنکشن پر اتر گئے۔ سفر خاموشی سے کٹا اور دُھول مٹی اڑاتے ٹرین کے سفر میں انجانی سوچوں میں کھوئے سفر کا اختتام ہوگیا لیکن حسین یادیں دے گیا۔

10 سال بعد شہر سے باہر جانا ایک یادگار سفر رہا جس کے بعد کوشش ہے کہ سفر کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ معمول کی زندگی سے چند روز نکال کر اپنے لیے گزارنے سے ذہن تازہ اور خوشگوار ہوجاتا ہے۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کی اسٹاف ممبر ہیں، ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ AimanMahmood2 ہے۔