پیارے خان صاحب،

آپ کے آسروں پر میں نے کمپنی کی اچھی خاصی آمدن والی ملازمت چھوڑ دی، یہ الگ بات ہے کہ وہ خود بھی مجھے نکالنا چاہتے تھے۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا سوائے اس کے کہ میرے والد سابق صدر جنرل یحییٰ خان کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں اور میرے بھائی زبیر عمر نواز شریف کی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں۔

دنیائے سیاست میں مجھے صرف اور صرف دوران ملازمت ماہانہ حاصل ہونے والی محض 70 لاکھ کی تنخواہ میں سے کی گئی بچتوں اور میری کمپنی کی جانب سے اسٹاک آپشن کی صورت میں ملنے والے چند لاکھ روپوں پر ہی انحصار کرنا پڑا تھا۔

میں نے اتنا بڑا رسک اس لیے لیا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ صرف میں ہی وہ واحد شخص ہوں جو پاکستان کو بچاسکتا ہے۔ ایک غریب کے دکھ درد مجھ سے بہتر بھلا اور کون سمجھ سکتا ہے؟

میں جانتا تھا کہ ایک دن مجھے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلنے اور پاکستان کو مزید عظمتوں کی راہ پر گامزن کرنے کا موقع حاصل ہوگا۔ یہ موقع عنایت کرنے کے لیے عمران خان آپ کا بہت شکریہ۔

مزید پڑھیے: کیا حمزہ شریف کنارے سے لگ گئے؟

میں آپ کو دیکھتے ہی جان گیا تھا کہ آپ کیا ہستی ہیں۔ جب میں بنی گالہ میں واقع آپ کے غریب خانے پر آپ سے ملنے آیا تھا تب میں نے غریبوں کے لیے آپ کے درد کو دیکھا۔ مغربی چیزوں میں ہماری پسند ناپسند بھی کافی ملتی جلتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی ثقافت کو حقیر سمجھنے کی عادت بھی یکساں ہے۔

ہم اپنے اہل خانہ کو چھٹیوں میں انگلینڈ اور امریکہ کی سیر کرواتے ہیں اور پھر پاکستان لوٹ کر ووٹوں کی خاطر مغرب کو بُرا بھلا کہہ کر کیا خوب توازن کا مظاہرہ کیا۔

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) تو دشمن ہے لیکن مک ڈونلنڈ کے مک نگٹس بہت ہی مزے کے ہیں۔ کرنل سینڈرز جب چاہیں جس وقت چاہیں میرے پیٹ پر ڈرون حملہ کرسکتے ہیں۔

مجھے لگا کہ جیسے ہمیں خان کی صورت میں وہ شخص مل گیا ہے جو مجھے نتائج کی ذرا پرواہ کیے بغیر اپنے اقتصادی تخیلات کے ساتھ تجربے کرنے کی پوری اجازت دے گا۔ میں سم سٹی کھیل کھیل کر اور اقتصادی ماڈلز بنا بنا کر تھک چکا تھا۔ میں اپنی تھیوریز کو حقیقی دنیا میں آزمانا چاہتا تھا اور آپ نے میرے ان سپنوں کو حقیقت کا روپ دے دیا، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان تجربات سے ہزاروں اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پڑھیے: فواد چوہدری: جیسا دیس ویسا بھیس

لیکن قسم اٹھوا لیجیے میرے تمام ماڈلز کمپیوٹر پروگرامز پر بہترین نتائج دے رہے تھے، ہاں بس میں ان ماڈلز کے حساب کتاب میں عوام کو شامل کرنا بھول گیا تھا۔ چلیں کم از کم ہم نے کوشش تو کی نا؟ پھر محبت، جنگ اور معیشت میں تو سب کچھ جائز ہے۔

جو بھی ہو قصور آپ کا ہی ہے، آپ ہی نے ایک مارکیٹنگ گریجویٹ کو ملک کی مالیاتی پالیسیوں کے فیصلوں کا اختیار دیا تھا۔

ہائے کتنا لطف آتا تھا جب میں روز رات کو ٹی وی پر اپنے اعداد و شمار کے ساتھ اسحٰق ڈار اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ناکام پالیسیوں پر شدید تنقید کیا کرتا تھا۔ میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز پاکستانی عوام کو امید دینا اور یہ یقین دلانا تھا کہ میں انہیں کٹھن زندگی کی دلدلوں سے باہر نکالوں گا اور انہیں اقتصادی خوشحالی کی راہ پر گامزن کردوں گا۔ میں نے اپنی ساکھ مضبوط بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اگر ان کی امیدیں دھری کی دھری رہ گئی ہیں تو کیا واقعی یہ ایک فکر کی بات ہے؟

خاکہ: Leea Contractor
خاکہ: Leea Contractor

اب آپ نے میری جگہ پر کسی دوسرے شخص کو لا کر بٹھا دیا ہے اور اس قومی پہچان کے ساتھ مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا، کہ مجھے توانائی کی وزارت کا قلمدان سنبھالنے کی پیش کش کی گئی ہے، مجھے اپنے والد سے کتنی دولت میں وراثت میں ملی، کتنی دولت خود میں نے کمائی اس کے علاوہ مجھے اب اپنی سی وی پر 'سابق وزیر خزانہ' درج ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اور ہاں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مالیت کی سربراہی بھی میرے پاس ہے۔

اب جبکہ میں پہاڑوں میں گھرے دریائے سوات کے کنارے کھڑا قوم کی ہمدردیاں جیتنے کی خاطر تصویر کھنچوانے کے لیے پوز دے رہا ہوں، اس دوران میں عمران آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، میں آپ کو آپ کے پہلے نام سے تو پکار سکتا ہوں نا؟ کیونکہ جب ہم قوم سے تبدیلی کے وعدے کر رہے تھے اس دوران میں خود کافی تبدیل ہوگیا تھا، سب سے عظیم ترین تبدیلی دراصل مجھ میں ہی آئی۔

ذرا سوچیے نا عمران، جب ہم ڈی چوک پر کھڑے تھے اور لوگوں سے وعدہ کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کرلیں گے تب ہم کیا تھے اور آج ہم کیا ہیں؟ شاید ہمیں اس دن پارلیمنٹ کو نذر آتش کردینا چاہیے تھا اور آگے چل کر حکومت سنبھالنے کے بجائے زندگی کے کسی نئے باب کا آغاز کرلینا تھا۔ حزب اختلاف کا وقت بھی کیا مزیدار وقت تھا۔ اب تو سارا لطف بلاول ہی لوٹ رہا ہے اور ہم تو اب اسے صاحبہ بھی پکار نہیں سکتے اور حزب اختلاف پر صنفی امتیاز سے بھرپور جملے بھی نہیں کَس سکتے اور نہ ہی یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آیا وہ مرد کے بچے ہیں یا نہیں؟

پڑھیے: ’پاکستان کو بہترین ملک قرار دے دیا گیا‘

کمپنی چلانے اور پاکستان چلانے میں شاید فرق ہے۔ یہ کس نے جانا تھا، ہے نا؟ وزیر خزانہ بننے سے قبل اگر میں 6 سال پہلے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنتا تو میرے پاس ہوم ورک کے لیے وقت حاصل ہوجاتا یوں پھر مجھے سارے کے سارے تجربے ایک ساتھ نہیں کرنے پڑتے۔

اب آئی ایم ایف سے میرا کیا لینا دینا؟ کھانا خریدنے کی سکت سے بھی جانے والے عوام سے میرا کیا تعلق؟ اگر وہ سموسے اور پکوڑے نہیں کھاسکتے تو انہیں کیک پر ہی گزارا کرنے دیجیے۔

میں تو چلتا ہوں۔ ہائے جدائی بھی کتنی کڑوی اور میٹھی ہے۔ آپ میڈیا اور اپنے دل سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے لوٹ آنے کا چانس ہے اور ہم دونوں ہی جانتے ہیں کہ میری واپسی طے ہے لیکن اس وقت تک نہیں جب تک کہ ہم معیشت کے بیڑے غرق کا الزام عبدالحفیظ پر دھرنے کی حالت میں نہیں آجاتے۔ میں ان سفید فام کلونیل نجات دہندوں کی طرح لوٹ سکتا ہوں جن کی ہم تعظیم کرتے ہیں۔ بس مجھے کرنا اتنا ہوگا کہ چند ٹی وی شوز میں بیٹھ کر اقتصادی نظام پر زبردست تنقید کرنی ہوگی پھر لوگ ایک بار پھر میری محبت میں گرفتار ہو جائیں گے اور آپ کو بھی مجھ سے ایک بار پھر محبت ہوجائے گی۔

ہمارے دوبارہ ملنے تک، میں باضابطہ طور پر استعفی پیش کر رہا ہوں، جس کا کوئی جواز نہیں کیونکہ آپ تو پہلے ہی مجھے عہدے سے ہٹا چکے ہیں، لیکن چونکہ مجھے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچنے نہیں دینا اسی لیے میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ میں نے استعفی دیا ٹھیک ویسے ہی جیسے میں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں نے کمپنی سے استعفی دیا تھا۔

شکریہ،

آپ کا اپنا اسد عمر


انگلش میں پڑھیں۔ یہ مضمون ہیرالڈ کی طنزیہ سیریز 'نیوز بائٹ' کا حصہ ہے اور ابتدائی طور پر جون 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں