لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ہمیں تو یہی بتایا گیا کہ گوشت زمین کو کھائے جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ گوشت خود سے تو ایسا کچھ نہیں کر رہا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ کم ہوتے وسائل اور بے قابو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے گوشت کا قدرتی پیداواری نظام غیر محفوظ ہوچکا ہے۔

اس بات سے آپ بالکل انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ کرہ ارض کی مجموعی خشک زمین کے تقریباً 30 فیصد حصے کو ان مویشی اور مرغیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں ہم کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پاؤنڈ بیف کے حصول کے لیے ایک ہزار 799 گیلن پانی درکار ہوتا ہے یعنی پانی کی بڑی مقدار میں کھپت۔

دوسری طرف مغربی ممالک میں کارپوریٹ لائیو اسٹاک فارمنگ کا تصور کچھ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا، جس کی بڑی حد تک وجہ اینٹی بائیوٹک کا حد سے زیادہ استعمال اور اس کے باعث ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے طریقہ فارمنگ کے مقابلے میں مغربی طرزِ فارمنگ میں کم کھپت کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے کیونکہ ترقی یافتہ دنیا میں چارہ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے، یوں وہاں لائیو اسٹاک کے لیے ترقی پذیر دنیا کے مقابلے میں چارے کی کھپت کم ہوتی ہے۔

لائیو اسٹاک کے حوالے سے کچھ دیومالائی باتیں بھی جوڑ دی گئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ لائیو اسٹاک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ یہ دعوٰی 2006ء کی ایف اے او رپورٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس کے مطابق دنیا میں 18 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج لائیو اسٹاک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بعدازاں رپورٹ کے لکھاری نے اس بات کی درستگی کردی تھی لیکن اس عدد کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے جو اس خام تصور کو سہارا دیتا ہے۔

جو بھی ہو، گوشت کے متبادل کی تلاش میں تیزی آ رہی ہے۔ اگر بات صرف پروٹین کے حصول کی ہوتی تو پھر مسئلہ زیادہ گمبھیر نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے ہمیں تو بس کیڑوں مکوڑوں کو اپنی غذائی عادتوں میں شامل کرلینا تھا، یوں کم ترین وسائل اور ماحولیاتی اثرات کے ساتھ گوشت جتنی ہی غذائیت کا حصول ممکن ہوسکتا تھا۔

لیکن چونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ ابھی کیڑوں کو خوراک میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے لہٰذا باہر سے ٹھوس اجسام رکھنے والے ان چھوٹے دوستوں کو تنگ نہیں کیا جارہا اور ہمیں تلاش ایک ایسے متبادل کی ہے جو گوشت کی طرح نظر آتا ہو اور (امید ہے کہ) ذائقے میں بھی گوشت جیسا ہو۔

چلیے اب ’امپوسیبل برگر‘ اور اس کے نقالوں کی بات کرتے ہیں۔ ان برگرز کو پودے سے حاصل کردہ پروٹین سے تیار کیا جاتا ہے۔ ان برگرز کو بیچنے والی کمپنیوں نے جس انداز میں ان برگرز کے ذریعے منافع کمایا ہے اور ان کی قدر و قیمت بڑھی ہے اسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہوں نے (مغربی) دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے، اور تو اور بڑی بڑی فاسٹ فوڈ جوائنٹس بھی اسی رستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں مک ڈونلڈز پی ایل ٹی (پلانٹ، لیٹس، ٹماٹو) برگر متعارف کر رہا ہے وہیں برگر کنگ اپنے امپوسیبل ووپر کے ساتھ اسی نقش قدم پر چلتا نظر آتا ہے۔

کنٹکی فرائیڈ چکن (کے ایف سی) بھی بیونڈ فرائیڈ چکن متعارف کروا کر خود کو اس فہرست میں شامل کرچکی ہے، کیونکہ جب اس نے بیونڈ فرائیڈ چکن کو ایٹلانٹا میں آزمائشی طور پر مارکیٹ میں پیش کیا تو صرف 5 گھنٹوں میں لوگوں نے سارا اسٹاک خرید لیا تھا۔

تو جناب ایسے برگرز کی طلب اب بتدریج بڑھتی جارہی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان برگرز میں شامل نقلی گوشت کا ذائقہ مخصوص بدمزہ اور بے لذت بخش ویجی (سبزیوں کے) برگرز جیسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ان میں لذت اور بناوٹ بڑی حد تک اصلی گوشت جیسی ہی ہے۔

مثلاً امپوسیبل برگر میں ’فیٹ‘ کے ذائقہ کے لیے ناریل کا تیل جبکہ اسے چبانے لائق بنانے کے لیے گندم کے پروٹین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ آلو کے پروٹین برگر کو گوشت کی طرح پکانے میں مدد دیتے ہیں، اس کے علاوہ ہیم (heme) نامی مالیکیول (یہ مالیکیول جانوروں کے پٹھے اور سویابین کے پودوں دونوں میں ہی پایا جاتا ہے) کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو برگر کو اصلی گوشت جیسا مخصوص گلابی یا سرخ رنگ دیتا ہے۔

مگر کیا یہ آپ کے لیے اور ماحولیات کے لیے اچھا ہے؟

ایک بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ اس رجحان کو بڑھاوا ملنے کے سبب گوشت کی فیکٹری فارمنگ کی وجہ سے ماحولیات پر مرتب ہونے والے اثرات میں کمی آئے گی اور سرخ گوشت کے استعمال میں زیادتی کے سبب لوگوں کی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات (کینسر اور دیگر مسائل) کے اندیشوں اور خدشات سے کسی حد تک نجات ممکن ہوسکے گی۔ تاہم ان برگرز کے حوالے سے ایک عام منفی رائے یہ ملتی ہے کہ یہ برگرز بہت ہی زیادہ پراسیسڈ ہوتے ہیں اور یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ پراسیسڈ شدہ کھانے ہماری صحت کے لیے اچھے نہیں ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ شاید یہ تصور مغرب میں نیا ہو، مگر مشرق بالخصوص چین میں نقلی گوشت صدیوں سے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔

10ویں صدی میں سانگ شہنشاہیت کے دور میں راہبین ’فنگھن کائے‘ نامی پکوان کھایا کرتے تھے۔ اس لفظ کا مطلب ہے ’گوشت کے پکوان کی نقل‘۔

چین میں بدھ مت کے پھیلاؤ کے ساتھ گوشت کی نقل کرنے کے صدیوں پرانے فن میں نکھار آتا چلا گیا جس نے سبزیوں کے ایسے پکوان متعارف کروائے جن کا ذائقہ ہوبہو بطخ اور مرغی کے گوشت حتیٰ کہ شارک مچھلی کے پروں کے ذائقے جیسا ہوتا تھا۔ یہی نہیں اگر آپ کراچی میں واقع کسی ہندو مندر جائیں تو وہاں آپ کو ایسا توفو کھانے کو مل سکتا ہے جس کا ذائقہ آپ کسی بھی طور پر قیمے سے کم نہیں پائیں گے۔ میرا یقین کیجیے، میں خود کھا چکا ہوں۔

لیکن وقت کبھی رکتا نہیں، نئے زمانے کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے اور جلد ہی ہم گوشت گائے سے حاصل کرنے یا پھر سبزیوں میں اس کا متبادل ڈھونڈنے کے بجائے اسے لیب میں پیدا ہوتا دیکھیں گے۔ جدید سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تیار کیے جانے والا گوشت 2013ء کے اگست میں پہلی بار اس وقت دیکھنے اور سننے کو ملا جب ماسٹریکٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارک پوسٹ نے دنیا میں پہلی بار لیب کے اندر تیار کیے جانے والے گوشت کو پریس کانفرنس کے دوران پکایا اور کھایا۔

اب تو خیر سے اس پراڈکٹ کو مارکیٹ میں لانے کی دوڑ کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ کاروبار کے میدان میں قدم رکھنے والی ایک ڈچ کمپنی ’میٹ ایبل‘ لیب میں سور کے گوشت کی تیاری کے لیے کئی لاکھ ڈالر خرچ کرچکی ہے جبکہ اسرائیلی کمپنی ’فیوچر میٹ ٹیکنالوجیز‘ جلد ہی اپنا پہلا پلانٹ قائم کرنے والی ہے۔

اگر آپ کے خیال میں مذکورہ باتیں کافی دلچسپ ہیں تو ذرا امریکی کمپنی ’ایئر پروٹین’ کے بارے میں بھی سن لیجیے جو 60 کی دہائی میں ناسا کی جانب سے کیے گئے تحقیقی کام کی بنیاد پر ’ہوا‘ سے، جی ہاں آپ بالکل ٹھیک سمجھے، ہوا سے گوشت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔


یہ مضمون 9 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں