کیلاشی ثقافت کے رنگوں میں پِنہاں فِکریں

کیلاشی ثقافت کے رنگوں میں پنہاں فِکریں

عظمت اکبر

شاید یہ میری وطن سے محبت کا ہی جذبہ ہے جو دل میں اس کا ایک ایک ذرہ دیکھنے اور چھونے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ یہی خواہش مجھے ملک کے دُور دراز علاقوں کی طرف کھینچے چلی جاتی ہے۔

میرے دیس کے متنوع رنگ، ملنساری اور مہمان نوازی سے کون واقف نہیں؟ میں جس کونے میں گیا وہاں لوگوں کو ایک دوسرے سے منفرد ضرور پایا مگر ہم وطنوں کو ہر حال میں اور محدود وسائل کے باوجود انسانیت کے ہر تقاضے کو پورا کرتے دیکھا۔

وادئ چترال پاکستان کے خوبصورت مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں کی خوبصورتی اور کیلاشی ثقافت اسے پاکستان کے دیگر علاقوں سے کافی زیادہ منفرد بناتی ہے۔ اس وادی میں سیاحوں کے لیے نہ صرف دلفریب مناظر سے بھرپور مقامات ہیں بلکہ ہر 50 کلومیٹر پر بدلتی ثقافت کے رنگ بھی بکھرے ہیں، یہی خاصیت اسے ملک کے دیگر مقامات سے ممتاز اور خوبصورت بناتی ہے۔

لواری ٹاپ سے شندور ٹاپ تک اور کیلاش (کافرستان) سے لے کر واخان کی وادی تک پھیلا ’تر چمیر‘ کی بُلند چوٹی کے دامن میں واقع ضلع چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے جو پاکستان کا ایک اہم سرحدی علاقہ بھی ہے۔ اس کے شمال، جنوب اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ درّہ لواری کے راستے یہ ضلع دِیر سے جڑا ہوا ہے جبکہ وادیٔ مستوج کے راستے آپ یہاں سے گلگت تک پہنچا جاسکتا ہے۔

چترال—تصویر عظمت اکبر
چترال—تصویر عظمت اکبر

بونی، مستوج، گرم چشمہ، چترال شہر اور کیلاش کی وادی جیسے مقامات ہمیشہ سے سیاحوں کی توجہ مرکز رہے ہیں۔

گزشتہ برس عید کے موقع پر امریکا سے آئے ایک خاندان کے ساتھ وادئ چترال، خصوصاً کیلاش قبیلے کی 3 بڑی وادیوں بمبورت، بریر اور رمبور کو پوری طرح کھنگالنے کا موقع ملا۔

وادئ کیلاش ہمیشہ سے ملکی و غیر سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے—چوہدری عمر
وادئ کیلاش ہمیشہ سے ملکی و غیر سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے—چوہدری عمر

چترال کی زمین پر موجود وادئ کیلاش ایک دل نشین وادی ہے۔ یہاں کی خوبصورتی، ثقافت اور تہواروں کے رنگ پاکستان کے دیگر علاقوں سے خاصے الگ ہیں۔ وادی کے باسی اپنی قدیم روایات کو تاقیامت برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں۔

سیاحوں کی نظریں اس علاقے کی خوبصورتی اور لوگوں کا حُسن دیکھ کر تو واپس لوٹ جاتی ہیں، مگر وہ مقامی لوگوں کی فکروں، درد و جذبات سے بے نیاز رہتے ہیں۔ ہمارے 5 روزہ سفر میں جہاں ہم نے وادئ کیلاش کی خوبصورتی کو سمیٹا وہیں ہمیں وہاں کے باسیوں کی فکریں اور جذبات کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع میسر آیا۔

وادئ کیلاش کے ثقافتی رنگ—تصویر عظمت اکبر
وادئ کیلاش کے ثقافتی رنگ—تصویر عظمت اکبر

پہلے دن ہمارا سفر پشاور ایئرپورٹ سے نمک منڈی اور پھر اَپر دیر تک محدود رہا۔ اَپر دیر میں دریائے پنجگوڑہ کے کنارے پر موجود ایک خوبصورت ہوٹل میں شب بسری کے بعد اگلے دن صبح سویرے اَپر دیر اور چترال کو ملانے والے لواری کے پہاڑی سلسلے میں بنائے گئے خوبصورت ٹنل کے ذریعے وادئ چترال میں داخل ہوئے۔

یہاں سے تقریباً ایک گھنٹے کا سفر طے کرکے ہم چترال روڈ پر واقع ایک بڑے ٹاؤن دروش پہنچے جہاں 2 عدد فور بائی فور جیپوں میں سوار ہوکر کیلاش کی سب سے بڑی وادی بمبورت کی طرف روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں چترال کے ایک اور خوبصورت ٹاؤن آئیون آیا، ہمارا سفر جاری رہا اور ہم کیلاش کی کچی سڑک پر دوڑ رہے تھے۔

چترال میں واقع ’ایون‘ نامی گاؤں
چترال میں واقع ’ایون‘ نامی گاؤں

چترال شہر سے وادئ بمبورت کا فاصلہ 40 کلومیٹر بنتا ہے۔ تقریباً 2 گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم بمبورت کی خوبصورت وادی میں داخل ہوگئے۔ یہاں پر کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے 1800 افراد آباد ہیں۔ بمبورت میں شفاف پانی کے بہتے دریا کے اطراف میں دور تک پھیلے مکئی اور گندم کے سرسبز کھیتوں اور ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور سیب کے پھلدار درختوں سے سجا نظارہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

فضا میں ناشپاتی اور سیبوں کی خوشبو نے پوری وادی کو مہکایا ہوا تھا۔ جگہ جگہ پر نظر آتی اپنی ثقافتی لباس میں ملبوس کیلاش کی حسین دوشیزاؤں کی وجہ سے بمبورت کے نظاروں میں مزید رنگ بھر جاتے ہیں۔

اس قصبے کے لب پر واقع سکندرِ اعظم کے نام سے مشہور ’الیگزینڈر ہوٹل‘ میں چیک اِن کرنے کے بعد ہوٹل کے منیجر یاسر کے ساتھ بمبورت اور کیلاش قبیلے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ یاسر کے مطابق کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار 200 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس قبیلے کے لوگ کیلاش کی تینوں وادیوں میں مقیم ہیں، لیکن ان کی اکثریت بمبورت میں رہتی ہے۔ کیلاش کا مطلب ہے ’کالے کپڑے پہننے والے‘، اس نام کی وجہ مقامی لباس کو دیکھنے پر معلوم ہوجاتی ہے۔ یہاں کی خواتین سیاہ لمبے فراک نما کُرتے پہنتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق  کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار 200 نفوس پر مشتمل ہے—عظمت اکبر
ایک اندازے کے مطابق کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار 200 نفوس پر مشتمل ہے—عظمت اکبر

جس پر ہاتھ سے بڑے خوبصورت رنگارنگ ڈیزائین کاڑھے جاتے ہیں۔ سر کو ڈھانپنے والی ٹوپی بھی اس لباس کا ایک حصہ ہے۔ یہ پیٹھ کی طرف سے آکر سر کے اوپری حصے پر گولائی میں پھیل جاتی ہے۔ لباس کے اس ٹوپی نما حصے پر درجنوں کی تعداد میں سیپیاں، گھونگے، سکے، بٹن اور رنگین پَر و دیگر سجاوٹ کی چیزوں کو نہایت خوبصورتی سے ٹانکا جاتا ہے۔

ایک کیلاشی خاتون—تصویر چوہدری عمر
ایک کیلاشی خاتون—تصویر چوہدری عمر

یاسر کے ساتھ بہت سی باتوں کرنے بعد ہم کچھ دیر اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔ تقریبا ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد ہم بمبورت کی خوبصورتی سمیٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔ شام ڈھلنے میں تھوڑی ہی دیر تھی سو اب ہمیں کیلاش میوزیم، اسکول اور قبرستان میں سے کسی ایک مقام کا انتخاب کرنا تھا۔ یاسر سے مشاورت کے بعد ہم نے قبرستان کا رخ کیا۔

کیلاشی قبرستان—تصویر اکبر
کیلاشی قبرستان—تصویر اکبر

ہم تقریباً 20 منٹ میں قبرستان پہنچ گئے تھے۔ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بمبورت کا یہ میرا پانچواں وزٹ تھا لیکن 2015ء کے بعد مجھے یہاں پر آنے کا موقع نہیں ملا تھا، جولائی 2016ء کے سیلاب نے یہاں تباہی مچائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے پورے بمبورت کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس سیلاب نے جہاں 40 سے زیادہ افراد کی جانیں لی تھیں وہیں مقامی آبادی کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ جس کے اثرات آج دریا کے دونوں طرف آبادی کی تباہی کی صورت میں نظر آتی ہے۔

جولائی 2016 کے سیلاب کی مچائی ہوئی تباہ کاریوں کے آثار—عظمت اکبر
جولائی 2016 کے سیلاب کی مچائی ہوئی تباہ کاریوں کے آثار—عظمت اکبر

ہم بمبورت قصبے کے درمیان گزرتے دریا پر بنے ہوئے لکڑی کے پُل کو عبور کرکے اس قدیم قبرستان میں داخل ہوگئے۔ قبرستان میں ایک طرف ڈبوں میں ہڈیاں پڑی ہوئی نظر آرہی تھیں جبکہ دوسری طرف کچھ ایسی بھی قبریں نظر آئیں جن کے اوپر چارپائی اُلٹی پڑی ہوئی تھیں۔

یہ لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو دفن کرنے کے بجائے لکڑی کے ڈبے میں ان کی ذاتی اشیاء کے ساتھ اس جگہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ لاش وہیں گلتی سڑتی، بدبو پیدا کرتی اور پھر اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا۔ اس طرح پورے علاقے میں بدبو پھیلا کرتی تھی جبکہ مختلف بیماریاں بھی پھوٹ پڑتیں۔ گزرے وقتوں میں غیر مقامی نوجوان مردوں کے ساتھ رکھے گئے سامان کو چوری کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے مردوں کو دفنانا شروع کردیا۔

یاسر کے مطابق کیلاش قبیلہ اب اپنے مردے دفن کرتا ہے—تصویر عظمت اکبر
یاسر کے مطابق کیلاش قبیلہ اب اپنے مردے دفن کرتا ہے—تصویر عظمت اکبر

لیکن آخری رسومات کے قدیم روایتی طریقہ کار کے آثار آج بھی یہاں موجود ہیں۔ مردوں کی قبروں پر سیاہ جبکہ معززین کے قبروں پر سرخ جھنڈا لگایا جاتا ہے جبکہ میت کو جس چارپائی میں قبرستان لایا جاتا ہے اُسے قبر پر اُلٹا رکھ دیا جاتا ہے۔

پرانے وقتوں کے تابوت—تصویر عظمت اکبر
پرانے وقتوں کے تابوت—تصویر عظمت اکبر

قبرستان میں مقامی قبروں میں ایک قبر ایک ہسپانوی انگریز ’جورڈی میگنر‘ کی بھی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ 1988ء سے 1994ء تک چترال میں رہے، بعدازاں کچھ عرصہ افغانستان میں گزارا اور پھر 1995ء سے 2002ء تک بمبورت میں افغان سرحد کے قریب شیخان قبیلے کے آخری گاؤں میں مقیم رہے۔

جورڈی میگنر کی آخری آرام گاہ—تصویر عظمت اکبر
جورڈی میگنر کی آخری آرام گاہ—تصویر عظمت اکبر

انہوں نے اپنے گھر میں ایک عجائب گھر قائم کیا ہوا تھا اور گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد پالی ہوئی تھی۔ جورڈی میگنر نے اس علاقے کی ترقی میں اہم کردار اد کیا تھا، شاید جس کی وجہ سے اس وادی سے محبت رہی ہو، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے بمبورت میں ہی دفن کیا جائے۔ 2002ء میں وہ اپنے گھر پر مردہ حالت میں پائے گئے تھے، مقامی آبادی کو شک ہے کہ وہ قدرتی موت نہیں مرے بلکہ طالبان نے انہیں قتل کیا تھا۔

قبرستان میں یاسر کی تفصیلی بریفنگ کے بعد ہم واپس اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے ہی تھے کہ اچانک میری نظر ایک عمارت پر پڑی جس کے گیٹ پر لگے ایک بورڈ پر لکھا تھا کہ ’خبردار! بشالی کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے!‘

بشالی، ایک ممنوعہ علاقہ—تصویر عظمت اکبر
بشالی، ایک ممنوعہ علاقہ—تصویر عظمت اکبر

میں نے یاسر سے پوچھا کہ اس جگہ داخلہ کیوں ممنوع ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ بشالی ہے، یعنی خواتین کے لیے مخصوص جگہ اور اس میں عارضی قیام کرنے والی خواتین کو ’بشالین‘ پکارا جاتا ہے۔ دراصل کیلاش میں خواتین اپنے مخصوص ایام (حیض و نفاس) کے دوران اپنا گھر چھوڑ کر اس جگہ آجاتی ہیں، کیونکہ انہیں اس حالت میں ناپاک تصور کیا جاتا ہے۔

بشالی کو ’پرگاتہ‘ یعنی ناپاک جگہ بھی پکارا جاتا ہے جبکہ باقی گاؤں ’اونجسٹہ‘ یعنی پاک کہلاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے مطابق بشالی کی دیوار کو لوگ چھوتے تک نہیں ہیں۔

بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عورت گھر جانے سے پہلے اپنے پہلے 10 دن بشالی میں گزارتی ہے۔ لیکن مکمل پاکی حاصل کرنے تک وہ گھر کا واش روم استعمال نہیں کرسکتی۔ پہلے پہل تو درد کے ساتھ ہی عورت کو گاؤں سے باہر نکل کر بشالی پہنچنا ہوتا تھا لیکن اب وہ ڈسپینسری یا شہر بھی چلی جاتی ہیں۔

اسی طرح جب لڑکی بالغ ہوجاتی ہے تو پھر اسے گھر میں بال دھونے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ عورتیں گھر میں نہا توسکتی ہیں لیکن سر نہیں دھوسکتیں۔ بشالی کے ساتھ نیچے ایک ندی بھی بہتی ہے۔ وہاں موجود ایک جگہ کو 'گا' کہتے ہیں، جہاں عورتیں اپنے کپڑے اور بالوں کو پانی سے صاف کرتی ہیں۔

وادئ بمبورت—عظمت اکبر
وادئ بمبورت—عظمت اکبر

خواتین کے لیے کھانا گھر کے بچے لاتے ہیں اور کھانا کھانے کے لیے بشالی کے اندر موجود برتن ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک یونانی فلاحی ادارے نے بشالی کے تمام عمارتوں کی ازسر نو تعمیر کا انتظام کیا اور اس میں اب تمام سہولیات موجود ہیں۔

کیلاشی روایات کے مطابق اگر کسی خاتون کی بشالی میں موت واقع ہوجائے تو اس کی میت دیگر افراد کی طرح عبادت کے مقام پر نہیں لائی جاسکتی، یہاں تک کہ دوبارہ گھر کی طرف یا گاؤں میں بھی نہیں لے جایا جاسکتا، بلکہ اُسے بشالی کے قریب ہی نیچے وادی کے کسی مقام پر 3 دن تک رکھنے کے بعد دفن کردیا جاتا ہے۔ مقامی آباد ی میں سے اگر کوئی بشالی کے حدود کی خلاف ورزی کرے یا اس کی دیوار چھو لے یا کوئی بچہ اپنی ماں سے گاوں کی طرف چلا جائے تو پھر اس مقام پر بکرے کی قربانی کردی جاتی ہے، جس کے بعد ہی اس جگہ کو پھر سے پاک تصور کیا جاتا ہے۔

بشالی کی عمارت اور اس سے جڑی حیرت انگیز روایات کی سوچوں کے ساتھ ہم بمبورت کے مرکز میں واقع اپنی قیام گاہ تک پہنچ گئے۔ آج رات کو یاسر نے ہمارے مہمانوں کی فرمائش پر مقامی موسیقی اور روایتی رقص کے پروگرام کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ یہ محفل رات دیرتک جمی رہی۔

اگلے دن ناشتے کے بعد ہم یاسر کے ساتھ بمبورت کے عجائب گھر اور ایک مقامی اسکول پہنچے۔

عجائب گھر اور اسکول کی عمارت—عظمت اکبر
عجائب گھر اور اسکول کی عمارت—عظمت اکبر

بمبورت کی دلنشین وادی میں عجائیب گھر اور اسکول ’گری ولنٹیرز‘ نامی فلاحی تنظیم کے تعاون سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مقامی کونسلر یہاں کی ثقافت کو محفوظ کرنے اور مقامی آبادی کے ساتھ مل کر اس عمارت میں قائم کمیونٹی اسکول کے اخراجات پورے کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

عمران کبیر—تصویر عظمت اکبر
عمران کبیر—تصویر عظمت اکبر

وادی میں موجود عجائب گھر میں کیلاشی ثقافت کی صدیوں پرانے نوادرات اور دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ کیلاشی ثقافت کے ہر پہلو کو اُجاگر کرنے کے لیے یہاں پر نہ صرف تصاویر لگائی گئی ہیں بلکہ جرگے کی مقامی ریت، شادی و دیگر رسومات سے متعلق معلومات کی فراہمی کا اچھا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔

عجائب گھر—تصویر عظمت اکبر
عجائب گھر—تصویر عظمت اکبر

عجائب گھر کے بعد ہماری اگلی منزل کمیونٹی اسکول تھا۔ اسکول میں نرسری سے لے کر 8ویں جماعت تک مقامی زبان ’میرک‘ میں تعلیم دی جاتی ہے جو کہ یہاں کی ثقافت کو زندہ رکھنے کی ایک سعی ہے۔

اسکول میں نرسری تا 8ویں جماعت تک مقامی زبان میرک میں تعلیم فراہم کی جاتی ہے—تصویر عظمت اکبر
اسکول میں نرسری تا 8ویں جماعت تک مقامی زبان میرک میں تعلیم فراہم کی جاتی ہے—تصویر عظمت اکبر

مقامی کونسلر کے مطابق کیلاشی ثقافت میں خواتین کو منفرد مقام حاصل ہے۔ گھر کے تمام فیصلے خواتین ہی کرتی ہیں۔ گھر کے کام کاج اور مویشیوں کی دیکھ بھال سے کاشتکاری تک، ہر قسم کا حساب کتاب، سب خواتین کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کمتر بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی ثقافت خواتین پر کام کاج اور ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ پہلے تو خواتین کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی تھی لیکن اب بچیوں کی تعلیم پر خاصی توجہ دی جارہی ہے۔

اسکول میں زیر تعلیم کیلاشی بچے—تصویر عظمت اکبر
اسکول میں زیر تعلیم کیلاشی بچے—تصویر عظمت اکبر

وہ کہتے ہیں کہ کیلاش کے بارے میں یہ تاثر غلط اور من گھڑت ہے کہ یہاں پر خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ہمارے ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ہی ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ہے، ﺟﯿﺴﮯ کسی کی ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ہے ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ کسی کا مرنا ﺑﮭﯽ شادمانی کا موقع ہے۔ ہمارے مذہب کے مطابق شادی اور تدفین کے روایات کی تکمیل پر 15 سے 20 لاکھ کا خرچہ ہوجاتا ہے۔

کیلاش قبیلے کی مذہبی روایات کے مطابق ﺷﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ کے مو قع پر نہ صرف بڑی تعداد میں جانوروں کو قربان کرکے پورے قبیلے کی دعوت کی جاتی ہے بلکہ عزیز و اقارب کو بھی تحفے تحائف دینا لازمی ہوتے ہیں۔ شادی کے لیے لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے کا پسند آنا لازمی ہے، یہاں لڑکا لڑکی کو اپنے گھر لے جاتا ہے جس کے بعد ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ مذہبی روایات کے مطابق ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ معززین کو یہ خبر دیتے ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ہاں ﺁﮐﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ کرتے ہیں ﮐﮧ آیا وہ اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ آئی ہے یا پھر زبردستی اس کو یہاں لایا گیا ہے۔

لڑکی جب بتاتی ہے کہ وہ اپنی رضا خوشی کے ساتھ لڑکے کے ساتھ آئی تو رشتہ ہوجاتا ہے، جس کے بعد ان مہمانوں کے لیے ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺎ ﺍہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دعوت میں ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺧﺎﺹ مہمان ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﮯ ہیں۔ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﻥ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﺁﺗﺎ ہے ﺟﺴﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﻭﻕ ﺑﻄﻮﺭ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺘﮯ ہیں، یوں ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺗﺒﺎﺩلے اور دعوت ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮐﺎﻓﯽ دنوں تک جاری رہتا ہے۔

یہاں اگر شادی شدہ عورت کو کوئی دوسرا مرد پسند آجائے تو وہ اپنے پہلے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے اور اس پر پہلے شوہر کو اعتراض بھی نہیں ہوتا۔

کیلاشی روایات کے مطابق پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے ایک پروقار ﺩﻋﻮﺕ کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس کے اخراجات لڑکے والوں کو ہی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ دعوت کے اختتام پر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں کو نقدی صورت میں تحائف بھی دینا لازم ہوتے ہیں۔ اس دعوت میں کئی ﺑﮑﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻞ ﺫﺑﺢ ہوتے ہیں، کیلاشی روایات کے مطابق ﺍﮔﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻼ بچہ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺟﻨﺲ ﮐﺎ ہوﺍ ﺗﻮ اسی طرح کی دعوت کا دوبارہ اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت جاری رہتا ہے جب تک مخالف جنس کا بچہ پیدا نہیں ہوجاتا ہے۔

مقامی کونسلر اپنے قبیلے کو سکندر اعظم کی یہاں پر رہ جانے والی اولادوں میں شمار کرتے ہیں۔

یونانی فلاحی تنظیم نے یہاں ایک ڈسپنسری بھی قائم کر رکھی تھی جبکہ کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے ضرورت مند افراد اور سکول کے بچوں کو تنظیم کی طرف سے وظائف بھی دیے جاتے تھے، لیکن اس فلاحی تنظیم کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کے بعد یہاں تمام پروجیکٹس بند ہوگئے جس کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ ڈسپنسری عمارت موجود تو ہے لیکن نہ ادویات ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر۔

ان عمارات کو دیکھنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل بمبورت کے خوبصورت گاؤں کی طرف بڑھ گئے۔ چونکہ ہوٹل منیجر یاسر ہمارے ساتھ تھے اس لیے ہمیں مقامی آبادی کے گھروں کے اندر داخل ہونے کی اجازت آسانی سے مل گئی۔

کیلاشی افراد کے گھر—تصویر عظمت اکبر
کیلاشی افراد کے گھر—تصویر عظمت اکبر

ہر گھر کے اندر سردی کے موسمی خشک میوہ جات، آٹا اور مقامی طور پر تیار کردہ شراب کا اسٹاک محفوظ رکھنے کے لیے ایک چھوٹا سا لکڑی کا اسٹور موجود تھا۔ شراب بنانے کے لیے بڑے بڑے برتن اور خواتین کے لباس کے لیے درکار کشیدہ کاری کا پورا سامان بھی ہر گھر کی زینت تھا۔ گھروں کے بعد ہم نے کمیونٹی سینٹر کا رخ کیا۔

کمیونٹی ہال—تصویر عظمت اکبر
کمیونٹی ہال—تصویر عظمت اکبر

کیلاش قبیلے کی تینوں وادیوں میں کمیونٹی سینٹرز بنائے گئے ہیں۔ اس کمیونٹی ہال کے اندر مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ شادی اور پیدائش کی رسومات کی طرح فوتگی سے جڑی روایات بھی حیران کن اور بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔

کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص جب فوت ہوجاتا ہے تو قبیلے کی تمام وادیوں سے ہزاروں کی تعداد میں مرد وزن اکھٹا ہوتے ہیں، میت کو پہلے دن کمیونٹی ہال کے اندر رکھا جاتا ہے، آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے 70 سے 80 بکرے اور 8 سے 10 بیل ذبح کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ شراب کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔

یہاں موت سوگ کے بجائے خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ ﺟﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﺏ، ﮐﺒﺎﺏ، ﺭﻗﺺ ﺍﻭﺭ ہوائی ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ہوﺗﯽ ہے۔ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﭨﻮﭘﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﻧﻮﭦ رکھے جاتے ہیں اور ﺳﮕﺮﯾﭧ ﺭﮐﻬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ہے، ساتھ ہی ساتھ میت کے اردگرد رقص بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاہیے۔

کیلاشی خواتین روایتی رقص کر رہی ہیں—وقاص امجد
کیلاشی خواتین روایتی رقص کر رہی ہیں—وقاص امجد

اب ہم گاؤں میں موجود ایک بڑے میدان میں کھڑے تھے۔ یاسر کے مطابق یہاں مذہبی رسومات سے لے کر سالانہ 3 مشہور تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں شامل پہلا تہوار چلم جوشی 13 مئی سے 17 مئی تک، دوسرا ’اوچاو‘ نامی تہوار 21 سے 23 اگست جبکہ تیسرا ’چاو مس‘ نامی تہوار 9 دسمبر سے 23 دسمبر تک منایا جاتا ہے۔ ان تہواروں میں بھی بڑی تعداد میں بکروں اور بیلوں کی قربانی دی جاتی ہے۔

کیلاش قبیلہ سال میں 3 بڑے تہوار مناتا ہے—تصویر عظمت اکبر
کیلاش قبیلہ سال میں 3 بڑے تہوار مناتا ہے—تصویر عظمت اکبر

ایک طرف میرے ساتھ مہمانوں میں شامل خواتین کیلاشی کپڑے پہن کر تصویریں نکالنے میں مصروف ہوگئی تھیں، تو دوسری طرف یاسر نے تمام مہمانوں کو کپڑے کا بنا ہوا ایک مفلر تحفے میں دیا اور کہا کہ یہ مفلر یہاں پر خاص لوگوں کو پہنائے جاتے ہیں۔

تحفے میں ملنے والے مفلر—عظمت اکبر
تحفے میں ملنے والے مفلر—عظمت اکبر

یاسر کے گھر سے نکل کر ہم بمبورت وادی کے خوبصورت مناظر کو اپنے کمیروں میں محفوظ کرنے کے بعد ہوٹل پہنچ گئے۔ ہوٹل میں دن کا کھانا کھانے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل وادی رمبور کی طرف روانہ ہوئے۔ وادی رمبور بیمبوریت سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

وادی رمبور بیمبوریت سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے—عظمت اکبر
وادی رمبور بیمبوریت سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے—عظمت اکبر

تقریبا ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم رمبور کی خوبصورت وادی میں داخل ہوگئے۔ وادی رمبور میں کیلاشی آبادی 800 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں بمبورت کی نسبت زیادہ ہریالی تھی اور لوگ بھی انتہائی ملنسار ملے۔ پوری وادی پھل دار درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ خواتین گھروں کے باہر کپڑوں پر کشیدہ کاری اور خوبصورت ٹوپیاں کی تیاری میں مصروف تھیں جبکہ کچھ خواتین کھیتوں میں اپنے اپنے گھروں کے مردوں کا ہاتھ بٹاتے نظر آئیں۔

کیلاش قبیلے کی ایک خاتون کشیدہ کاری میں مصروف ہے—عظمت اکبر
کیلاش قبیلے کی ایک خاتون کشیدہ کاری میں مصروف ہے—عظمت اکبر

یہاں ہم ایک بزرگ خاتون کی دعوت پر ان کے گھر چلے آئے۔ گھر کے تمام افراد نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور چائے پراٹھوں کے ساتھ ہماری تواضع کی گئی جبکہ بزرگ خاتوں نے ہمارے سامنے شراب کے ایک دو گلاس بھی رکھ دیے جسے مہمانوں نے پینے سے انکار کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ وہاں ہم نے گھر کے خواتین کے ہاتھوں کی بنی ہوئی اشیاء، کپڑے اور ٹوپیاں بھی خریدیں۔

بزرگ خاتون کے گھر میں چائے پراٹھوں کے ساتھ ہماری تواضح کی گئی—تصویر عظمت اکبر
بزرگ خاتون کے گھر میں چائے پراٹھوں کے ساتھ ہماری تواضح کی گئی—تصویر عظمت اکبر

بزرگ خاتوں نے ہمارے سامنے شراب کے ایک دو گلاس بھی رکھ دیے—تصویر عظمت اکبر
بزرگ خاتوں نے ہمارے سامنے شراب کے ایک دو گلاس بھی رکھ دیے—تصویر عظمت اکبر

وادی رمبور کے کمیونٹی ہال اور چند دیگر خوبصورت مقامات کی سیر کے بعد ہم نے بمبورت کی راہ لی اور ہوٹل پہنچنے کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

حسب معمول میں طلوع آفتاب کے مناظر کو دیکھنے کے لیے دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ کھیتوں میں گندم کے فصل میں پڑی شبنم اور صبح صبح دریا کے پانی نے سماں باندھا ہوا تھا۔

کچھ گھڑیاں دریا کے کنارے پر گزارنے کے بعد میں ہوٹل کی طرف بڑھ گیا۔ راستے میں اسکول جاتے ہوئے بمبورت کے خوبصورت بچے اپنے مقامی لباس میں جگہ جگہ رُک کر سلام کر رہے تھے۔

ناشتے کی میز پر یاسر نے تہواروں سے متعلق گفتگو کے دوران بتایا کہ تہوار چلم جوشی کو پاکستان کے ایک سب سے رنگارنگ تہوار کی حیثیت میں خاص شہرت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح وادئ کیلاش کا رخ کرتے، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ یہ تہوار ہی وادی کیلاش کی روز مرہ زندگی اور وہاں کے انوکھے رہن سہن کو دنیا بھر میں شہرت بخشنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ کیلاش قبیلے کی تینوں وادیوں میں حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

چلم جوشی پاکستان کے ایک سب سے رنگارنگ اور مشہور تہوار کی حیثیت رکھتا ہے—تصویر عظمت اکبر
چلم جوشی پاکستان کے ایک سب سے رنگارنگ اور مشہور تہوار کی حیثیت رکھتا ہے—تصویر عظمت اکبر

کیلاش کو چترال سے ملانے والی تینوں سڑکیں دشوار گزار اور کچی ہیں جس کے باعث سیاحوں کو یہاں تک آنے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔

ان کے مطابق اس وقت کیلاش قبیلہ اپنی ثقافت کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہماری مذہبی رسومات پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنا ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے تہواروں اور رسومات میں بڑی تعداد میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے، یوں سمجھیے کہ ایک رسم پر کم سے کم 7 ﻻﮐھ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ 35 ﻻﮐھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔

ان رسومات کو پورا کرنے کے لیے ایک کیلاشی خاندان پورا سال محنت کرتا ہے اور جانوروں کی دیکھ بھال سے لیکر خشک میوہ جات کو جمع کرنے تک ایک کٹھن مرحلے سے گزرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے آگے دو ہی صورتیں بچتی ہیں یا تو اخراجات برداشت کیے جائیں یا پھر اپنی منفرد ثقافت کو تاریخ کے اوراق میں گم ہونے دیں۔ دوسری صورت کے لیے یہاں پر کوئی ایک شخص بھی راضی نہیں۔

ناشتے کے بعد اب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا۔ آج اگلی منزل کیلاش قبیلے کی دوسری بڑی وادی بریر تھی۔ ہمارا سفر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا، دلکش مناظر سے بھرپور اس وادی کا حسن بمبورت سے قدرے مختلف تھا۔

وادئ بریر—تصویر عظمت اکبر
وادئ بریر—تصویر عظمت اکبر

یہاں ایک راستہ افغانستان کے صوبے نورستان کی طرف اور دوسرا پہاڑی راستہ بمبورت کی طرف نکلتا ہے۔ یہاں پر کیلاش قبیلہ کے تقریباً 1400 لوگ آباد ہیں۔ یہ وادی بموریت اور رمبور سے زیادہ پسماندہ اور الگ تھلگ ہے لیکن لوگ دیگر وادیوں کے باسیوں کی طرح ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔

اس وادی کی طرف جانے والی سڑک کچی تو تھی لیکن بمبورت کی سڑک کی نسبت کافی بہتر تھی۔ وادی بریر کا کیلاشی قبرستان، کمیونٹی ہال اور مقامی لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کے بعد ہم چترال کے شاہی خاندان سے ملاقات کے لیے وادی نگر میں تعمیر کردہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریبا 2 گھنٹے کے سفر کے بعد ہم چترال کے والی سر شجاع المک کی تعمیر کردہ نگر کے خوبصورت قلعے میں داخل ہوئے۔ یہاں پر میرے قریبی دوست اور میزبان چترال کے والی (سر شجاع الملک) کے نواسے شہزادہ غازی الدین نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔

نگر فورٹ—تصویر عظمت اکبر
نگر فورٹ—تصویر عظمت اکبر

قلعے میں ہمارے قیام کا خاص بندوبست کیا گیا تھا، کمروں میں سامان رکھنے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد ہم قعلے کے خوبصورت لان میں کھانے کی میز پر غازی الدین سے محفو گفتگو ہوئے، اس دوران انہوں نے چترال اور اس قلعے کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔

لواری ٹاپ سے اترنے کے ساتھ آنے والے میرخانی چیک پوسٹ پر سڑک سے صرف 2 کلومیٹر دور دریائے چترال کے کنارے پر تعمیر کیے جانا والا یہ نگر فورٹ اوراس سے ملحقہ باغ اُس وقت کے فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس قلعے کی سطح سمندر سے بلندی 1209 میٹر بنتی ہے۔ قلعے کے اندر جہاں گزرے وقتوں کی یادگار اشیاء محفوظ کی گئی ہیں، وہیں سیاحوں کی رہائش کے لیے 6 کمرے بھی مختص بھی کیے گئے ہیں جبکہ باغ میں کیمپنگ بھی کی جاسکتی ہیں۔

قلعے میں موجود کچھ پرانے وقتوں کی تصاویر—تصویر عظمت اکبر
قلعے میں موجود کچھ پرانے وقتوں کی تصاویر—تصویر عظمت اکبر

سیاحو ں کے لیے بون فائر، ساؤنڈ سسٹم، گھوڑسواری اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ قلعے کے دونوں اطراف میں دریائے چترال کا کافی دلکش منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کھانا کھانے اور غازی الدین کی معلومات سے بھرپور نشست کے بعد دن بھر کی تھکن اُتارنے ہم ایک دفعہ پھر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔

چترال کی تاریخی شاہی مسجد—عظمت اکبر
چترال کی تاریخی شاہی مسجد—عظمت اکبر

اگلے دن صبح 11 بجے ہمیں چترال ایئرپورٹ پہنچنا تھا اس لیے ناشتے اور میزبان سے اجازت لیے بغیر ہم چترال شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔