قلعہ سیہون: وہ تخت و تاج نہ جانے کیا ہوئے!

سیہون: وہ تخت و تاج نہ جانے کیا ہوئے!

ابوبکر شیخ

کبھی آپ نے ’پنہانی‘ سے متعلق سوچا ہے؟

اس پوشیدگی میں ایسا کیا پوشیدہ ہے؟ اس میں ایسا کیا سحر بھرا ہے کہ انسان دیوانہ ہوا جاتا ہے؟ اس اسرار میں کون سی ڈور ہے جو ہر انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے؟ ہمارے وجود میں فطرت نے ایسا کیا بھر دیا ہے کہ ہم راز معلوم کرنے کے لیے ہر پل جہد میں رہتے ہیں اور پھر جب یہ پوشیدگی، دنوں، مہینوں اور برسوں سے نکل کر صدیوں کی گود میں جا چُھپے تو پھر اس کے ساتھ پُراسراریت کا سحر اپنی کمال حد تک پہنچ جاتا ہے۔

حقیقت جتنی قدیم ہوتی جائے گی پُراسراریت کا سحر اتنا زیادہ بڑھتا جائے گا اور یہ جتنا بڑھتا جائے گا انسان کے خون میں اسے دیکھنے، اسے پرکھنے اور اس سے متعلق جاننے کی دیوانگی میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ اگر آپ تھوڑا باریک بینی سے جائزہ لیں، تو وہ سارے مقامات جہاں لوگ دُور دُور سے آتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں، وہاں مرکزی نکتہ پِنہائی کا ہی ہے۔ جس سے پھر پُراسراریت پھوٹ نکلتی ہے اور پھر اس کو کھوجنے کے لیے آپ نکل پڑتے ہیں۔

’وہ اُدھر پہاڑی دیکھتے ہیں آپ؟‘ مصطفیٰ میرانی صاحب نے جنوب مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔

شام کا وقت تھا۔ دھند تھی مگر پھر بھی مجھے 2 پہاڑیاں نظر آئیں۔ ایک پر کسی بزرگ کا مزار تھا اور دوسری پر ویرانیوں کے بیچ ایک کوٹھی سی بنی نظر آئی۔

میں نے جب یقین دلایا کہ جی بالکل میں دیکھ سکتا ہوں، تب میرانی صاحب نے مجھے بتایا کہ ’تحفتہ الکرام‘ کے مطابق 'یک تھنبی کے نام سے مشہور جنوب والی اس پہاڑی پر مخدوم جلال جہانیاں، شیخ عثمان مروندی، شیخ فرید اور شیخ بہاؤالدین چِلّے (40 دن کی گوشہ نشینی اور وظیفہ خوانی) میں بیٹھے تھے۔ جب ابوالقاسم نمکین یہاں کے جاگیردار تھے تو انہوں نے بکھر میں واقع ’صفہ صفا‘ کے طرز پر یہاں ’صفہ وفا‘ کے نام سے اس پہاڑی پر ایک میدان بنوایا تھا جہاں چاندنی راتوں میں اہلِ علم کی محفلیں سجتی تھیں اور وہاں کے میٹھے اور خوشبودار خربوزوں سے ان کی تواضع کی جاتی تھی‘۔

میرانی صاحب نے بات ختم کی اور ٹھنڈی آہ بھری۔ کچھ لمحوں بعد وہ پھر گویا ہوئے کہ 'یہ وہ زمانے تھے جب یہاں دھان، گنّے، چنوں، جیرہ، سرسوں، لہسن، پیاز، جوار، مونگ، تماک اور پٹ سن کی شاندار فصلیں ہوتی تھیں، جبکہ تقریباً ہر قسم کی سبزیاں بھی اُگا کرتی تھیں اور تربوز اور خربوزے کی رنگت اور شیرینی کی کیا بات تھی۔ یہاں تک کہ مغل بادشاہوں کو یہاں کے شیریں خربوزے بہت پسند تھے اس لیے خربوزوں کو بھیجنے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا‘۔

میرانی صاحب کے الفاظ سے اپنے علاقے سے جو محبت تھی، جو عشق تھا اس کی خوشبو اور شیرینی ان کے الفاظ سے جھڑ بیری کی شہد کی طرح ٹپکتی تھی۔ میرانی صاحب نے جملہ ختم کیا مگر ان کی نظریں شاید ان چاندنی راتوں کو ڈھونڈتی تھیں جن کو گزرے 4 صدیاں بیت گئی ہیں۔چاندنیاں تو یقیناً اب بھی آتی ہوں گی، مگر ابوالقاسم نمکین اور گزرے وقتوں کو کہاں سے لاتے۔ یہ ساری محبتیں تو بس عشق لاحاصل کی طرح ہی ہیں۔

ہم دونوں سیہون کے اس قلعے پر کھڑے تھے جو سندھ میں سب سے زیادہ پُراسرار اور قدیم قلعہ مانا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے جنوب میں سیہون کا شہر ایسے بچھا تھا جیسے کسی فنکار نے ایک پینٹنگ بنا رکھی ہو، جس میں سارے رنگ تھے مگر ان رنگوں کے اندر کہیں دُور ایک خوف کسی سپولے کی طرح پھن لہراتا تھا۔

اس دن 15 مارچ کا سورچ طلوع ہوا تھا۔ رات کو شہباز قلندر اور دوسری درگاہوں کو عام زائرین کے لیے بند کردیا گیا تھا، یوں وہ شہر جو کبھی نہیں سوتا اس کی گلیوں میں خاموشی نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ آج ہم جب شاہی بازار سے گزرے تھے تو لوگ بہت کم تھے۔ مجھے پتا تھا، پھر بھی میں نے ایک دکان والے سے بازار کی اس ویرانی کی وجہ پوچھی۔ جواب میں وہی خوف جھلکا تھا۔ ظاہر ہے کہ ’کورونا وائرس‘ کے خوف کی دھند نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔

قلندر شہباز کی حاضری کے لیے ملک بھر سے زائرین آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
قلندر شہباز کی حاضری کے لیے ملک بھر سے زائرین آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

سیہون قلعہ
سیہون قلعہ

سیہون کا بازار
سیہون کا بازار

میرے سامنے مغرب میں منچھر جھیل تھی اور اس سے آگے ’نینگ‘ اور ’کائی‘ کی قدیم وادیاں تھیں جن میں قدرتی چشمے ہزاروں ایکڑ پر محیط زمین آباد کرتے ہیں اور سنگلاخ چٹانوں میں ان نخلستاتوں کو جنم دیا ہے کہ ہریالی کو دیکھ کر آنکھوں کو یقین نہیں آتا۔

ہم سیہون کے جس قدیم قلعے پر کھڑے تھے، اس کی پنہائیوں میں ڈھائی ہزار برس قدیم راز دفن ہیں۔ مگر ان دنوں کو جاننے کے لیے ہمیں وہ جگہ چُننی پڑے گی، جہاں سے ہمیں گزرے اور آج کے ماہ و سال اچھی طرح نظر آئیں۔

سیہون کے رازوں کو سمجھنے کے لیے ہم 2 تاریخی مقامات چُنتے ہیں۔ ایک مقام جس کو ہم ‘زیرو’ کا نام دیتے ہیں۔ اس زیرو پوائنٹ سے اگر ہم دائیں چلیں تو قبل مسیح زمانے اور یہاں سے اگر بائیں چلیں تو ہم عیسوی زمانے میں سفر کرسکتے ہیں۔ یہاں سے ہم دائیں طرف کے سفر کی ابتدا کرتے ہیں، یعنی زیادہ نہیں فقط 500 قبل مسیح کا سفر کریں گے۔ جی ہاں یہ وہی زمانہ ہے، جب سکندرِ اعظم کے یہاں آنے میں ابھی 175 برس باقی ہیں۔

سیہون قلعے کا ایک پرانا نقشہ
سیہون قلعے کا ایک پرانا نقشہ

آگے بڑھنے سے پہلے ہم اگر ’سیہون‘ کی وجہ تسمیہ پر تھوڑی گفتگو کرلیں تو مناسب رہے گا، کیونکہ مختلف ادوار میں اس کا نام تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جس کسی کا بھی زمانہ آیا اس نے اپنی زبان میں اس مقام کا بنیادی نام پکارا اور اپنے تحریری انداز میں لکھا۔ پھر پڑھنے والوں نے اپنی زبان کے بولنے کے انداز میں پکارا اور لکھنے کے انداز میں لکھا، تو اس لحاظ سے جو اس مقام کے نام رہے ان میں سِوستان، سَجستان، سَدُوسان، سَندیمانا، سَیہوَن اور دیگر نام شامل رہے۔ مگر مقامی حوالے سے اس کا نام ’شِیو‘ ’واہن‘ یعنی ’شِیو کی بستی‘ ہے، جو اب ہمارے پاس ’سیوھن‘ یا سیہون کے نام سے موجود ہے۔

اب اگر اس نام کی قدامت کی بات کریں تو ہمیں سندھو گھاٹی کا سب سے قدیم ترین دیوتا ’شِیو‘ ہی ملے گا۔ یہ دراوڑوں کے دیوتا تھے، جب 1700 قبل مسیح میں آریوں نے آکر سندھو گھاٹی پر قبضہ کیا تو یہ واحد دراوڑوں کے دیوتا تھے جن کو ان سفید چمڑی والے آریوں نے قبول کیا بلکہ اس کو اسی مقام پر ہی رہنے دیا۔ آپ اگر ویدوں کا مطالعہ کریں گے تو اس میں ’شِیو‘ کا مرکزی طاقتور کردار تو آپ کو ضرور ملے گا، مگر نام ’ردر‘ لیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ’پیدائش‘ کا دیوتا مانا گیا ہے اور اُس وقت ان کو ’پشوپتی‘ (جانوروں اور پرندوں کا مالک) کے اعزاز کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا۔ سندھو گھاٹی میں سے ملی بیل کی علامت بھی پیدائش کی علامت ہے۔ ہڑپہ (1200- 1900ق م) سے بھی ایک مہر ملی ہے، جس میں ردر (شِیو) کو پرند و چرند کا پیدا کرنے والا دکھایا گیا ہے۔

اب ’شِیو‘ نام کی قدامت جاننے کے لیے ہمیں ہندو مذہب میں ’تثلیث‘ والی کتھا کو پڑھنا پڑے گا یعنی ’بِرہما‘، ’وِشنو‘ اور ’شِیو‘۔ ہم جب ’مہا بھارت‘ اور ’رامائن‘ پڑھتے ہیں تو ان میں ہمیں ’شِیو‘ کا نام ملتا ہے۔ مہا بھارت کی جنگ میں کوروؤں کا ساتھی سندھ کا حاکم جندرتھ تھا، یوں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 900 ق م تک، آریا، سندھ، قندھار، گجرات، کاٹھیاواڑ تک پھیل چکے تھے۔ جہاں جہاں انہوں نے بستیاں بسائیں، خاص کر، دریا کے کناروں پر جہاں بعد میں بدھ مت نے اپنی جگہ بنائی، وہاں ’شِیو‘ کی پوجا کے مندر اور مقام بنے۔ چنانچہ ہم یہ اب کہہ سکتے ہیں کہ اگر زیادہ نہیں بھی تو 500 ق م تک کی قدامت رکھنے والا ایک مقام ہے جس کو ابھی تک ’سیہون‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

آپ اگر سیہون سے جنوب میں ’لکی شاہ صدر‘ کے مقام پر پہاڑوں میں تیزابی چشمے کے پاس پہنچیں گے تو آپ کو ’شِیو‘ کا قدیم مندر مل جائے گا بلکہ دریائے سندھ ہو یا قدیم ہاکڑو کا بہاؤ، ان کے کناروں پر آپ کو ’شِیو‘ کے مندر مل جائیں گے جہاں سفید رنگ کے شِیو، گلے میں کھوپڑیوں کی مالا پہنے اور سانپ ڈالے، ہاتھ میں ترشول اور ڈمرو لیے بڑے سکون سے بیٹھے ملیں گے اور ان مندروں میں موجود سیاہ رنگ کا ’لنگ‘ شِیو کی تصویر کو یقیناً مکمل کرتا ہے۔

شہر سیہون کا پرانا روپ
شہر سیہون کا پرانا روپ

اس کے بعد زمانہ آتا ہے سکندرِ اعظم کا یعنی 325 ق م۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق سکندر نے ’اروڑ‘ (موسیکانوس) کے بعد ’سندیمانا‘ کو فتح کیا۔ اس وقت سندیمانا (سیہون) کے حاکم Sambus (سامبس) تھے۔ انہوں نے جب سکندر کے آنے کا سنا تو وہ قلعے کو چھوڑ کر چلا گیا مگر قلعے کی انتظامیہ نے سکندر کے لیے دروازے کھول دیے اور تحفے تحائف پیش کیے۔

سکندر ایک زبردست اور شاندار فاتح ہوسکتا تھا مگر وہ اچھی قسمت والا یقیناً نہیں تھا۔ آپ دیکھ لیں، جنم سے چھوٹی عمر میں دنیا چھوڑنے تک، وہ فتوحات کرتا جاتا اور پیچھے بغاوتیں ہوجاتیں۔ یہاں سندھو گھاٹی میں بھی سکندرِ اعظم کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے 305 ق م میں ہمیں سندھ پر چندر گپت موریا (مگدھ بادشاہت) کے اثرات نظر آتے ہیں۔ 274 ق م میں ہمیں ’اشوک‘ حکومت کرتے نظر آتے ہیں جو چندر گپت کے پوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب بدھ مت نے پوری طاقت سے سندھو گھاٹی میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ 200 قبل مسیح میں یہاں ’گریکو بیکٹرین‘ حکومت کرتے نظر آتے ہیں، پھر 184 ق م میں موریا سلطنت کا زوال آتا ہے اور 184 سے 70 قبل مسیح تک ہمیں باختری یونانیوں کا زمانہ ملتا ہے۔ پھر ہمیں ’ستھین‘ کا زمانہ ملتا ہے۔ جس میں سے ستھی راجا ’ایزس‘ 15 ق۔م تک سندھ اور کاٹھیاواڑ پر حکومت کرتا نظر آتا ہے۔ زمانہ قبل مسیح اور عیسوی کی پُل بنتا ہے ’ایزس دوئم‘ جو 10 قبل مسیح سے 19 عیسوی تک ہمیں سندھ، کاٹھیاواڑ، خیبر پختونخوا تک حکومت کرتا نظر آتا ہے۔

فرانس کی مشہور ماہر آثارِ قدیمہ Monik Kervrn نے 1996ء سے 2002ء تک سیہون کے اس قلعے کی کھدائی کی، وہ بھی مذکورہ معلومات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکندرِ اعظم کا اگر یہاں قلعہ ہوگا بھی تو اس قلعے کے آثاروں کے اندر کہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس قلعے کی اونچائی 54 میٹر اور پھیلاؤ 17 ہیکٹر پر مشتمل ہے۔

اب ہم قبل مسیح زمانے کو الوداع کہتے ہیں۔ آنے والا ایک طویل سفر ہے جو اندازاً 1635 برس کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ 78ء سے 283ء تک ہم کو ’کُشان سلطنت‘ کی حکومت نظر آتی ہے۔ 499ء میں سندھ پر ہمیں ’راء خاندان‘ اور بدھ مت کا شاندار زمانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر 644ء میں ’برہمن خاندان‘ کی حکومت نظر آتی ہے اور اسی طرح 695 سے 712ء تک ہمیں راجا داہر کی حکومت نظر آتی ہے۔ محترم ایم ایچ پنہور صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’راجا داہر کا جنوبی سندھ کے حصوں پر کوئی زیادہ اختیار نہیں تھا، کیونکہ ان حصوں پر ان کا قبضہ عرب فتح سے بس کچھ برس پہلے ہی ہوا تھا، یہی سبب تھا جو جنوبی سندھ کے 2 مضبوط قلعوں نیرون کوٹ اور سِوِستان (سیہون) کے دروازے عربوں کے لیے بغیر کسی جنگ اور مزاحمت کے کھول دیے گئے تھے‘۔

قلعہ سیہون
قلعہ سیہون

قلعہ سیہون
قلعہ سیہون

ہمارے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 2008ء میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی Sindh Through History and Representation، جس میں محترم Annabelle Collinet کا ایک ریسرچ پیپر (Chronology of Sewhan Sharif Through Ceramic (The Islamic Period شائع ہوا جس کے مطابق یہاں (سیہون) میں آٹھ تہیں ملی ہیں، جن میں پہلی 3 تہیں اسلامی زمانے سے پہلے کی ہیں، بقیہ 5 تہیں اسلامی دور کی ہیں۔ میں مختصراً ان 5 تہوں کا ذکر کرتا ہوں کہ جس سے اس شہر کی قدامت کو سائنسی بنیاد مل سکے۔

  • پہلی تہہ عرب دور کی ہے (8ء سے 10ء)
  • دوسری تہہ ہباری سلطنت کے خاتمے سے لے کر غزنوی و غوری دور تک کی ہے (11ء سے 13ء)
  • تیسری تہہ دہلی سلطنت اور سمہ دور کی ہے (13ء سے 15ء)
  • چوتھی تہہ ارغون اور ترخان دور کی ہے (16ء)
  • پانچویں تہہ مغل دور کی بتائی گئی ہے (17ء سے 18ء)

ان زمانوں میں، جو اس سیہون شہر کی کیفیت رہی، یہاں کے گردونواح کی جو حالتیں رہیں، اگر ان کا مختصراً ہی سہی ذکر نہ کیا گیا تو سیہون کے اس قدیم قلعے، شہر کی بازاروں اور گلیوں، دریا کے بہاؤ اور ان گھاٹیوں سے یقیناً ناانصافی ہوگی۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ 1333ء میں یہاں آئے تھے۔ وہ سیہون کو ریگستان میں بَسے ایک بڑے اور زبردست شہر کا اعزاز دیتے ہیں مگر ساتھ ہی سیہون کی گرمی کا تذکرہ بڑی ہی بے دلی سے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم جب یہاں پہنچے تو گرمی انتہائی نہایت سخت پڑتی تھی۔ میرے ساتھی جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایک کپڑا گیلا کرکے جسم پر لپیٹتے تھے اور دوسرا کپڑا پانی میں بھگو کر ساتھ رکھتے جیسے ہی پہلے والا کپڑا خشک ہوجاتا تو دوسرا گیلا کپڑا لپیٹ دیتے‘۔

یہاں ان کو کیکر کے درخت بہت نظر آئے اور نہروں کے کناروں پر بے تحاشا خربوزے دیکھنے اور کھانے کو ملے۔ یہاں جن 2 خوراکوں کی بہتات تھی ان میں مچھلی اور بھینس کا دودھ شامل تھا۔ اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ منچھر جھیل اور دریا کی وجہ سے مچھلی کی فراوانی تھی اور دوسری طرف گھاس والے اناج کی زمینیں آباد تھیں جس کی وجہ سے بھینسیں زیادہ تھیں۔ بھینس اس جگہ پر ہی زندہ رہ سکتی ہے جہاں پانی زیادہ ہو اور چرنے کے لیے ڈھیر سارا گھاس ہو۔ یہاں ان دونوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس شہر میں وہ 140 برس کے شیخ محمد بغدادی سے بھی ملے جو شیخ عثمان مروندی کے زاویہ میں رہتے تھے۔

قلعہ سیہون
قلعہ سیہون

قلعہ سیہون
قلعہ سیہون

ابنِ بطوطہ جس مدرسے کی چھت پر سوتے تھے وہاں سے شہر کی فصیل پر لٹکتی ہوئی نعشیں انہیں سوتے جاگتے نظر آتی تھیں، جس کی وجہ سے انہوں نے وہ مدرسہ چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ مدرسہ اور شہر کی فصیل تو شاید ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں اور شاید وہ بازاریں بھی نہ ملیں جن کے وسط میں بغاوت کرنے والے لوگوں کی کھوپڑیاں جمع کرکے ڈھیر لگا دیا گیا تھا۔ یہ بغاوت ابنِ بطوطہ کے وقت سے کچھ پہلے ہوکر گزری تھی۔ پنہور صاحب کے مطابق ’سیہون میں دہلی سرکار کے عملداروں ’جام اُنڑ‘ اور ’قیصر رومی‘ نے مل کر بغاوت کی تھی اور ’ملک رتن‘ نامی خزانچی کو ترقی دے کر ’گورنر‘ مقرر کیا گیا۔

یہ دہلی سرکار کا فیصلہ ان دونوں کو گراں گزرا اور بہانے سے ’ملک رتن‘ کو قتل کردیا اور خزانہ سے 12 لاکھ دینار لوٹ لیے۔ ’جام اُنڑ‘ کو ’ملک فیروز‘ کا لقب دے کر بالائی سندھ کا حاکم بنا دیا گیا۔ یہ خبر جب ملتان پہنچی تو ’سرتیز‘ لشکر کے ساتھ سیہون کی طرف روانہ ہوا۔ یہ بات سُن کر ’جام اُنڑ‘ ٹھٹہ کی طرف چل دیا۔ سرتیز نے 45 دن تک سیہون کا محاصرہ جاری رکھا۔ آخر قیصر رومی نے امان مانگی۔ جب قیصر اور ان کا لشکر امان کے وعدے پر باہر آیا تو سرتیز نے دغا کرتے ہوئے کسی کی جائیداد لوٹ لی، کسی کی گردن ماری جاتی تو کچھ کے تلوار سے 2 ٹکڑے کردیے جاتے۔ کئی کی کھال کھیچ کر اس میں بُھوسہ بھروا کر شہر کے فصیلوں پر لٹکایا جاتا اور لاشیں اتنی زیادہ تھیں کہ قلعہ کی دیواریں دیکھنے میں نہیں آتی تھیں‘۔

اس کے بعد ہم اگر ارغون، ترخان اور مغل دور کا ذکر کریں تو اس شاہی قلعے پر حملے، بازاروں میں لوٹ مار، مقامی لوگوں کی آپس میں اور یہاں پر دہلی حکومت کے جاگیردار یا منتظم سے جنگوں کی سیکڑوں کہانیاں ہمیں ملیں گی۔ مگر میں آپ کو اپنے ایک دوست سے ملانا چاہتا ہوں۔ ان کا نام ’یوسف میرک‘ ہے، وہ ایک زبردست مصنف تھے۔ انہوں نے ’سیہون‘ پر ’تاریخ مظہر شاہجہانی‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ حسام الدین راشدی صاحب اس کتاب سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’یہ پہلی کتاب ہے جو مغلیہ دور کی پہلی نصف صدی کے حالات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے‘۔

تحریر کی ابتدا میں میر ابوالقاسم ’نمکین‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اپنی جگہ پر اہلِ علم ہونے کے ساتھ دہلی سرکار کے ایک اچھے ملازم تھے۔ میر ابوالقاسم کو 1607ء (دورِ جہانگیری) میں ’باجوڑ‘ کا تھانیدار مقرر کیا گیا اور 8 ماہ کے بعد انہیں سیہون کی جاگیرداری ملی۔ انہوں نے پہلے اپنے بھائی یوسف میرک کو سپاہیوں کے جتھے کے ساتھ سیہون کا انتظام سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا۔ 1608ء میں، ملے حکم کے تحت ابوالقاسم قندھار گئے اور ایک برس کے بعد واپسی راستے میں انتقال ہوگیا۔ نورالدین جہانگیر کو جب ’نمکین‘ کے انتقال کی خبر ملی تو انہوں نے سیہون ’شمشیر اُزبک‘ کے حوالے کیا۔ یوسف میرک ان دنوں سیہون میں ہی رہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1607ء سے لے کر 1629ء تک وہ سیہون میں ٹھہرے تھے۔ شمشیر ازبک کی عملداری کا زیادہ انحصار میرک کے مشوروں پر ہی تھا، اور ہر مسئلے پر پہلے میرک سے صلاح و مشورہ کیا جاتا پھر عمل ہوتا۔

قلعہ سیہون کے آثار
قلعہ سیہون کے آثار

شاہجہاں جیسے ہی 1628ء میں تخت نشیں ہوئے تو انہوں نے اعتمادالدولہ میر غیاث کے پوتے، مرزا احمد بیگ خان کو سیہون کا جاگیردار مقرر کیا۔ وہ نہایت سست مزاج، نااہل اور نکمے شخص تھے، زیادہ وقت زنا خانے میں گزرتا تھا جبکہ حکومت کی باگ ڈور اپنے بھائی ’مرزا یوسف‘ کے حوالے کر رکھی تھی۔

یوسف میرک لکھتے ہیں کہ ’مرزا یوسف کو ملکیت اکٹھا کرنے کا خبط تھا، پیسے والا مرد ہو یا عورت، ان کو ذلیل کرنے میں انہیں کوئی شرم و حیا نہیں ہوتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ اچھے اونٹ بھی اس کی کمزوری تھے۔ انہوں نے حکم جاری کردیا تھا کہ جہاں بھی کوئی خوبصورت اور قیمتی اونٹ نظر آجائے اسے پکڑ کر قلعے کے ’شُترخانہ‘ میں داخل کردیا جائے۔

انہوں نے ٹیکس وصولی کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لیے راہداری لازم کی اور راہداری کے لیے مقرر رقم دینی پڑتی تھی۔ کوئی بھی کشتی چاہے وہ خالی ہی کیوں نہ ہو، جیسے ہی سیہون کی حدود میں داخل ہوتی تو اس کے مالک سے ٹیکس لیا جاتا۔ باہر سے آئے بیوپاریوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ اونے پونے داموں میں لایا ہوا مال سیہون کے بازاروں میں بیچ دیں۔ مرزا یوسف نے یہاں پر بس نہیں کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ گئے اور بنگال سے نامور جواریوں کو سیہون لایا گیا اور شہر کے چوراہوں پر جوے کے اڈے قائم کیے گئے تاکہ جتنا ہوسکے لوگوں کی جیبیں خالی ہوں۔ چوری اور جوئے کی یہ ساری آمدنی، شام کو حلال کی کمائی سمجھ کر خزانے میں جمع ہوتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیہون 10 ’پرگنوں‘ (تحصیلوں) پر مشتمل تھا۔

نورجہاں کے بھائی کا بیٹا اور اعتمادالدولہ میر غیاث کا پوتہ، یعنی مغل شاہ حاکم ’مرزا احمد بیگ خان‘ کی زنا خانے میں دلچسپیاں جب اپنی آخری لکیریں پار کرنے لگیں اور اس کے بھائی مرزا یوسف کے دولت اکٹھا کرنے کی تمناؤں نے آخری حد پار کردی تو نتیجہ یہ نکلا کہ گاؤں ویران ہوگئے۔ زمینیں بنجر، لوگ حیرانی و پریشانی کے عالم میں بکھر، نصرپور، چاچکان، چاکر ہالا اور ننگر ٹھٹہ جیسے علاقوں میں جاکر بس گئے۔

ہمیں مغلوں کے آخری گورنر کے طور پر ’ارشاد خان‘ کا نام ملتا ہے جو نادر شاہ سے پہلے 1702ء میں مقرر ہوئے تھے، جس کے بعد زوال کی شام ہمیشہ کے لیے اس قلعے کے آنگن میں اتر آئی اور سب سے اہم بات یہ کہ مغل دور میں اس اہم و قدیم قلعے پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ جو بھی گورنر یا جاگیردار مقرر ہوکر آتا وہ یا تو اپنے کام سے کام رکھتا یا مرزا یوسف کے دھندوں جیسی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتا۔ مغلوں کے بعد جو کلہوڑا حکمران آئے تو انہوں نے ’خداآباد‘ کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور اسی طرح سیہون کی معاشی و سیاسی اہمیت بھی دھیرے دھیرے اپنے آخری ایام کو جاکر پہنچی۔

تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس کے بعد سیہون کا تذکر ہمیں کہیں نہیں ملتا، اجی بالکل ملتا ہے۔ 1832ء میں ہینری پاٹنجر، کیپٹن لیوپوڈون، این۔جی۔مجمدار اور دوسرے وزیٹرس کے علاوہ ہمیں الیگزینڈر برنس کی تحریر میں بھی سیہون کے حوالے موجود ہیں۔ 1837ء میں وہ اپنی کتاب Voyage on the Indus لکھتے ہیں کہ ’یہ انتہائی عجیب عمارت جو دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے وہ سیہون کا قلعہ ہے جو 60 فٹ بلند ہے، اس کی چاردیواری میں ٹوٹی ہوئی عمارتوں کا ڈھیر ہے۔ دروازہ جو شہر کی طرف ہے وہ محراب دار ہے‘۔ اکثر دیکھنے والوں کی جو تحریریں اور خیالات ہیں وہ تقریباً ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔

الیگزینڈر برنس 1837ء میں اپنی کتاب Voyage on the Indus میں لکھتے ہیں کہ ’یہ انتہائی عجیب عمارت جو دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے وہ سیہون کا قلعہ ہے
الیگزینڈر برنس 1837ء میں اپنی کتاب Voyage on the Indus میں لکھتے ہیں کہ ’یہ انتہائی عجیب عمارت جو دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے وہ سیہون کا قلعہ ہے

محترم اشتیاق انصاری، سیہون کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’فضائی تصاویر سے قلعے کے مشرق میں دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ کے نشان ملتے ہیں، اور اس بہاؤ کے نشانات قلعے کی دیواروں تک دکھائی دیتے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی زمانے میں دریا کا پانی قلعے کی دیواروں سے لگ کر بہتا ہوگا۔ قلعے کے جنوب میں بھی دریا کے قدیم بہاؤ کے آثار ملتے ہیں، جن کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنوب کی طرف دریائے سندھ نے اپنی ذرخیز مٹی کو بچھادیا ہے۔ اس سے جو زرخیز زمین بنی ہے، جہاں پر اب بھی شاندار فصلیں اُگتی ہیں وہ جاکر لکی کے پہاڑی سلسلے سے ملتی ہے۔ مغرب اور شمال میں بھی سندھو دریا کے بہاؤ کے راستے ملتے ہیں۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پانی کی یہاں سے بڑی محبت رہی ہے اور یہی اہم سبب ہے کہ انسان کا یہاں صدیوں سے وجود ملتا ہے۔ ’بلین فورڈ‘ کو تحقیق کے دوران اندازاً 3100 ق م میں سیہون کے قریب قدیم انسانی پنجر (پتھر کے نئے دور) ملے تھے‘۔

موجودہ وقت میں یہ قلعہ ایک ٹِیلے کی شکل میں موجود ہے۔ میں تو اس قلعے سے بڑا ہی متاثر ہوا ہوں۔ وسیع اور بلند۔ انصاری صاحب کے مطابق اس کی بلندی 60 فٹ ہے جبکہ لمبائی 1200 اور چوڑائی 600 فٹ ہے اور یہ 16 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ سندھ میں اس جیسے قلعے کے آثار اور کہیں نہیں ملتے۔

میرانی صاحب اور میں قلعے پر بیٹھے تھے۔ سورج ڈوب گیا تھا، اس لیے ہمارے سامنے شہر کی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ لال شہباز قلندر کی درگاہ تو بند تھی مگر روشنیاں پھر بھی جلتی تھیں۔ روشنیوں کے باوجود یہ دُکھ سے بھری ایک شام تھی کہ اب جب زمانے بدلے ہیں، شعور جوان ہوا ہے، تعلیم کی اہمیت کو ہم سمجھنے لگے ہیں،کمپیوٹر کا زمانہ ہے، انٹرنیٹ کی وسعتیں روز بروز بڑھنے لگی ہیں، پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ سیہون جہاں زمین کی کوئی کمی نہیں ہے، پھر بھی سامنے ہزاروں برس قدیم قلعہ کی اوپری سطح پر ’گیسٹ ہاؤس‘ اور ہیلی پیڈ بنا ہوا ہے، کہ یہاں فقط صاحب لوگ ہی اُتر سکتے ہیں۔

بے چاری عوام کی نہ صدیوں پہلے اس قلعے تک رسائی تھی اور نہ آج ہے کہ زمانے بدلیں تو کیا ہوا، ذہنیت کہاں بدلتی ہے۔ ہم جب قلعے سے نیچے اتر رہے تھے تو یونہی مجھے خیال آیا کہ باہر سے لوگ یہاں آتے ہوں گے وہ شاید یہی سوچتے ہوں گے کہ یہاں کے لوگ کیسے ہیں۔ اپنے گزرے زمانوں کی تاریخی عمارتوں پر گیسٹ ہاؤسز بناکر بڑے طمطراق سے رہتے ہیں۔ ہم نے نہ تاریخ سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی سیکھنے کی کوئی اُمید بھی ہے!


حوالہ جات:

۔ ’دھرتی ماتا‘۔ اشتیاق انصاری۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی

۔ ’سندھ جا کوٹ ائیں قلعا‘۔ اشتیاق انصاری۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی

۔ ’پیرائتی سندھ کتھا‘ ۔ ایم ایچ پنہور۔ عمر سومرو اکیڈمی، کراچی

۔’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’تاریخ مظہر شاہجہانی‘ ۔ یوسف میرک۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ ’منچھر، گورکھ گاج دنیا‘۔ بدرابڑو۔ سندھی لینگویج اتھارٹی، حیدرآباد

۔Sindh Through History and Representation . Editor: Michel Boivin, Oxford, 2008


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔