وہ بے حد پریشان تھی دراصل جس کوٹھی پر وہ گزشتہ 2 سالوں سے کام کررہی ہے، چند روز سے وہاں شادی کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ صغراں بی بی کا راولپنڈی کے علاقے پیر ودھائی کی ایک تنگ و تاریک گلی میں چھوٹا سا کرائے پر لیا مکان تھا جہاں سے وہ صبح سویرے آئی ایٹ اسلام آباد جاتی ہے۔

گھر کی صفائی ستھرائی اس کی ذمہ داری تھی، اس کے بدلے اسے جو تنخواہ ملتی، اس سے وہ اپنا اور اپنے ایک بیٹے عامر اور بیٹی ندا کا پیٹ پالتی ہے۔ یہاں چند ایک باتیں اس کے سابقہ شوہر اعجاز کے بارے میں بھی لکھ دی جائیں تو آپ کو صغراں عرف صغری کا کردار سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

اعجاز پیر ودھائی اڈے پر سبزی منڈی میں مزدور تھا، وہیں نشے کا عادی ہوگیا اور جس طبقے سے وہ تعلق رکھتا تھا وہاں بچے پیدا تو کر لیے جاتے ہیں لیکن ان کی تربیت کی ذمہ داری صرف معاشرے کے ذمہ ہوتی ہے سو معاشرہ جیسا چاہتا ہے ان کی پرورش کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: کھڑکی سے جھانکتی زندگی

وہ صغراں کو بچپن ہی سے جانتا تھا۔ ایک شام وہ مزدوری کرکے گھر لوٹا تو باپ نے کہا۔

‘میں نے تمہاری شادی کے لیے ایک لڑکی تلاش کرلی ہے اور اگلے مہینے تمہاری شادی ہے‘، وہ اس وقت بھی نشے میں تھا، لہٰذا اچھا کہہ کرسو گیا اور اگلے مہینے چپ چاپ اس کی شادی ہوگئی۔

اس کے باپ کا خیال تھا کہ شادی ہی اس کے سارے مسائل کا حل ہے اور وہ شادی کے بعد بالکل سُدھر جائے گا، لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ وہ صبح گھر سے مزدوری کے لیے نکلتا اور شام کو نشہ کرکے واپس لوٹتا۔ صغراں اسے روز سمجھاتی کہ اسے نشہ ترک کر دینا چاہیے اور اسی سمجھانے سمجھانے میں ان کے ہاں 2 بچے ہوگئے۔ ندا اور عامر۔

اعجاز کے باپ کے فوت ہوجانے کے بعد وہ جب اعجاز کو سمجھاتی تو وہ اس پر ہاتھ بھی اٹھاتا تھا۔ ایک رات بہت غصے میں اس نے صغراں کو طلاق دے کر بچوں سمیت گھر سے نکال دیا۔ وہ رات گئے تک دروازے پر بیٹھی کہتی رہی کہ ‘اعجاز ہُن تے میرا کوئی نئیں ریا۔ ماں پیو وی نئیں رئے، میں کتھے جاواں؟‘ (اعجاز اب تو میرا کوئی نہیں رہا، ماں باپ بھی نہیں۔ اب میں کہاں جاؤں)

لیکن اعجاز اس وقت سو چکا تھا اور وہ یہ سب سننے سمجھنے سے قاصر تھا کہ صغراں کا اب کوئی نہیں رہا۔

صبح تک وہ دروازے کی چوکھٹ سے لگی روتی رہی اور بچے اس کی گود میں ہی سو گئے تھے۔ گلی سے گزرتے محلے داروں نے اس سے سوال بھی کیے تھے کہ وہ کیوں یہاں بیٹھی ہے، کچھ نے اپنے گھر آجانے کا بھی کہا لیکن اس نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ نشہ زیادہ کرلیا ہے، ابھی دروازہ کھول دے گا۔ اس نے کسی کو بھی یہ نہیں بتایا کہ اب وہ ایک طلاق یافتہ عورت ہے۔

وہ بچوں کی صورتیں دیکھتی تو جینے کی ایک امنگ اس کے اندر دوڑتی، اگریہ دونوں اس کی گود میں نہ ہوتے تو وہ یہاں سے سیدھا نالہ لئی کے پل پر جاتی اور نیچے چھلانگ لگا دیتی لیکن بچوں نے اس کی زندگی کی ڈوری کو تھام رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اگلی صبح اس نے 2 گلیاں چھوڑ کر ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر ڈھونڈ لیا اور اسی روز سے وہ گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے لگ گئی۔

وہ پچھلے 2 سال سے انوار احمد نامی ایک بیوروکریٹ کے ہاں ملازمت کررہی ہے اور چند روز سے بہت پریشان ہے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: زرد شام

جب اعجاز نے اسے گھر سے نکالا تو اس وقت ندا کی عمر 4 سال اور عامر 2 سال کا تھا۔ کئی سالوں سے امیر اور پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں کام کرتے اور انہیں انگریزی میں گفتگو کرتے دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئی اور اس نے یہ راز جان لیا کہ انسان کی ترقی تعلیم میں ہے۔ اسی لیے اس نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرایا اور وہ انہیں بڑا انسان بنتا دیکھنا چاہتی ہے۔

وہ یہ خواب بھی دیکھتی تھی کہ عامر جوان ہوچکا ہے اور ایک بڑی سی گاڑی سے اتر رہا ہے۔ اس نے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا رکھا ہے اور ہاتھوں میں ایک بریف کیس ہے جو شاید نوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ خواب ہی میں وہ اپنی بیٹی کی بارات دیکھتی جس میں ندا ایک بڑی چار گھوڑوں والی بگھی میں سوار ہوتی اور آگے بینڈ باجے والے شادیانے بجارہے ہوتے۔

جس رات وہ نیند میں یہ خواب دیکھتی تو بہت خوش ہوتی اور ساتھ کی چارپائیوں پر سوئے اپنے بچوں کو دیکھتی جو اب بڑے ہوگئے تھے۔ ندا میٹرک میں جب کہ عامر آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔

صغراں کو صرف یہ معلوم ہے کہ ندا دسویں جماعت میں پڑھتی ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ کئی روز سے محلے کا ایک اوباش لڑکا وسیم اس کا گھر سے اسکول تک اور اسکول سے گھر تک پیچھا کرتا ہے اور کئی بار ایک کاغذ اس کے آگے پھینک چکا ہے جو اس نے نہیں اُٹھایا۔

وہ یہ بات کسی کو بتا نہیں سکتی اور نہ کسی سے یہ پوچھ سکتی ہے کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ وسیم اسے دیکھ کر مسکراتا ہے اور دل پر ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ ایک روز جب گلی میں کوئی نہیں تھا، وہ اس کے سامنے آگیا اور کہا کہ ’میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں، دیکھو میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا، مجھ سے دوستی کرلو’۔

وہ پریشان ہوگئی، دوڑ کر گھر میں داخل ہوگئی اور دروازہ بند کرلیا۔ وہ ڈر گئی تھی، پھر اس سے اگلے کئی روز تک وسیم راستے میں نظر نہ آیا۔ اسے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ کچھ پریشان ہوگئی کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو۔

محبت کے ترسے ہوئے لوگوں کو محبت کے چند لفظ ہی غلام کرلیتے ہیں، جیسے صحرا میں کسی پیاسے کو پانی کے چند قطرے۔ وہ جب ایک ہفتے بعد اس کے راستے میں آیا تو معلوم نہیں کیوں وہ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔ وسیم بھی مسکرایا اور اس کے پیچھے چلتے چلتے جب گلی میں آیا تو پاس آکر کہا۔

‘شکریہ میری دوستی قبول کرنے کے لیے’

‘آپ کہاں تھے اتنے دنوں بعد آئے؟’

‘تم نے مِس کیا مجھے‘

وہ مسکرا دی اور گھر میں داخل ہوگئی۔ اب وہ روز خوابوں میں وسیم کو دیکھتی ہے۔ وسیم جو اس کے خوابوں کا شہزادہ ہے لیکن حقیقت میں کسی کی دکان پر موبائل ریپئیرنگ کا کام کرتا ہے۔ وسیم کی ماں ایک سخت مزاج خاتون ہے جو اپنے بڑے بیٹے کی بیوی سے سارا دن جھگڑتی رہتی ہے اور اسے کم جہیز لانے پر طعنے دیتی ہے، حالانکہ اس کی بہو کوئی غیر نہیں بلکہ اس کے شوہر کی بھتیجی ہے۔ اس لیے اب وہ چاہتی ہے کہ وسیم کی بیوی کوئی ایسی لڑکی ہو جس کے لائے جہیز سے گھر بھر جائے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: آخری گہرا سانس

صغراں انوار احمد کے ہاں کام کرتے ہوئے پریشان ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ اس کا بیٹا عامر اسکول جاتے ہوئے ویڈیو گیم کی دکان پر رُک جاتا ہے اور سارا دن وہیں گزارتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام اسکول سے خارج کردیا گیا ہے۔

وہیں ویڈیو گیم کی دکان پر ہی اس کی دوستی جانی سے ہوئی جو کوئی کام نہیں کرتا لیکن اس کی جیب پیسوں سے بھری رہتی ہے۔ عامر چاہتا ہے کہ وہ جانی بن جائے اور ہر وقت اس کی جیب نوٹوں سے بھری رہے ورنہ تو وہ سارا دن ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے دوسروں کو دیکھتا ہی رہے گا۔

اس کی جیب میں گیم کھیلنے کے پیسے نہ ہوتے، وہ بس اس صورت گیم کھیلتا تھا جب کسی گیم کھیلتے بچے کو اس کے گھر سے کوئی بلانے آجاتا تو وہ اپنی باری عامر کو دے دیتا۔ اس کے جی میں آتا کہ سارے لڑکوں کو گھر والے بلالیں اور وہ سب کی باریاں خود ہی کھیلے۔

جب اس کی ملاقات جانی سے ہوئی تو وہ بہت حیران ہوا کہ اس کے پاس اتنے روپے کہاں سے آئے کہ وہ جتنی چاہے گیم کھیلتا ہے اور پھر اپنی موٹرسائیکل تیزی سے دوڑاتا ہوا گلی سے نکل جاتا ہے۔

ایک روز اس نے جانی سے پوچھا تھا کہ ‘جانی بھائی آپ کیا کام کرتے ہیں کہ آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں؟’

‘اپنا کام تو جان ہتھیلی پر رکھ کر کرنا پڑتا ہے اور ساتھ اس کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ‘جانی بھائی نے قیمص تھوڑی سے اونچی کی اور شلوار میں اڑسا پستول دکھایا‘۔

عامر تھوڑا سا ڈر گیا لیکن پھر ہمت کرکے کہا ‘کیا میں بھی آپ کے ساتھ یہ کام کرسکتا ہوں؟’

‘کر تو سکتے ہو لیکن اس کے لیے کسی کو بتانا نہیں، پولیس کا خطرہ ہوتا ہے، آج شام تیار رہنا، تمہاری ٹریننگ ہوجائے گی‘۔

اس کے اندر ایک ڈر تو تھا لیکن پھر بہت سی رقم حاصل کرکے ویڈیو گیمز کھیلنے کا شوق اس ڈر پر غالب آگیا اور وہ شام کا بے چینی سے انتظار کرنے لگ گیا۔

صغراں بی بی بیوروکریٹ انواراحمد کی اکلوتی بیٹی رمشا کی شادی کی تیاریاں دیکھ دیکھ کر پریشان رہتی ہے۔ ابھی کل ہی بیگم صاحبہ اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھیں کہ شادی کا لہنگا بس چار، پانچ لاکھ تک کا ہی لینا اس سے زیادہ کا خریدنے کی ضرورت نہیں، کون سا بعد میں کہیں پہننا ہوتا ہے۔ ایک ہی دفعہ کے لباس پر پانچ لاکھ سے زیادہ خرچ کرنا درست نہیں۔

اسی طرح کوٹھی کے ایک کمرے میں رمشا میڈم کا جہیز جمع ہورہا ہے جو اب اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ صغراں بی بی کے خوابوں میں بھی اتنے سامان کی گنجائش نہیں تھی، لیکن کمرے کو ہر روز کچھ نہ کچھ مزید خرید کر بھرا جارہا ہے۔

اسے گھر کے مالی نے بتایا تھا کہ صاحب جی نے ولیمے کے لیے جو شادی ہال بک کرایا ہے وہاں کھانے کا خرچ دس لاکھ آئے گا۔ اور آج تو حد ہوگئی کہ گھر میں نئی گاڑی لائی گئی جو رمشا میڈم کے شوہر کو شادی کے تحفے کے طور پر دی جانی تھی۔

صغراں بی بی یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہے، یہ سب خرچے تو اس کے خوابوں سے بھی زیادہ ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے خوابوں میں بنائی گئی دنیا بھی کچھ لوگوں کی حقیقی دنیا سے چھوٹی ہوتی ہے، ایسے میں خواب گر انسان سوائے پریشان ہونے کے کچھ نہیں کرسکتا سو وہ پریشان تھی۔

وسیم موبائل ٹھیک کرنے کا کام کرتا ہے لیکن وہ ہر روز ندا سے کہتا ہے کہ وہ اس سے شادی کرلے تو وہ ندا کو شہزادی بنا کر رکھے گا اور وہ اب اس کی ہر بات پر اعتبار کرنے لگی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا تو اسے موبائل کیوں گفٹ کرتا جسے وہ ہمیشہ سائلنٹ کرکے اپنے بیگ میں چھپا کر رکھتی ہے۔

پڑھائی نہ کرنے کی وجہ سے وہ میٹرک میں فیل ہوگئی ہے۔ اس کے فیل ہونے کا صغراں کو بہت دکھ ہوا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے خوابوں میں آتی بگھی واپس مُڑ گئی ہو اور بارات کے آگے موجود سازندوں نے دکھی ساز چھیڑ دیے ہوں۔ ندا نے اسے بتایا تھا کہ اس بار بورڈ کے امتحانات بہت مشکل تھے، سبھی لڑکیاں فیل ہوگئی ہیں، لیکن ساتھ یہ یقین بھی دلایا کہ وہ اگلی بار ضرور پاس ہوجائے گی۔

مزید پڑھیے: ’شہری یہ بھول گئے کہ کورونا ان کے گھروں میں داخل ہوچکا‘

عامر جب پہلی بار جانی بھائی کے ساتھ گیا تو تھوڑا پریشان تھا لیکن اب وہ اس کام میں کافی طاق ہوگیا ہے۔ صرف چند ہی منٹوں میں آپ کو اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے اور بعض اوقات تو بڑے اچھے اچھے موبائل ہاتھ آتے ہیں جن کی سمیں وہ فوراً باہر نکال کر پھینک دیتے تھے۔

کرنا بھی کچھ نہیں ہوتا تھا بس کسی ویران سی گلی میں گزرتے آدمی کو روک کر پستول تان کر والٹ اور موبائل چھین لینا ہوتا تھا۔

اب وہ بھی جتنی چاہتا ویڈیو گیمز کھیل سکتا تھا لیکن وہ ویڈیو گیمز سے اکتا گیا تھا۔ وہ کچھ اور کرنا چاہتا تھا۔ یہ کیا کہ آدمی ایک گاڑی بھی نہ خرید سکے۔ اس نے جانی بھائی کو کہا بھی تھا کہ کسی کی گاڑی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں لیکن انہوں نے کہا تھا کہ ‘شہزادے تُو بہت جلدی میں ہے، اتنی جلدی اتنے بڑے ہاتھ نہیں مارتے۔ گاڑی کا بھی وقت آئے گا۔’

وہ جانی بھائی کی بات سے متفق نہیں تھا، اس نے سوچا وہ کسی روز اکیلا یہ مہم سَر کرے گا۔

جس روز رمشا میڈم کی رخصتی ہوئی اس رات صغراں بی بی دیر سے گھر لوٹی، لیکن وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوگئی کہ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ تبھی اسے اپنی چارپائی کے سرہانے ایک صفحہ نظر آیا جسے وہ پڑھ نہیں سکتی تھی۔ ابھی وہ صفحے کو حیرت سے تَک رہی تھی کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، وہ دوڑ کر دروازے پر آئی، سامنے پڑوسیوں کا لڑکا منیر کھڑا تھا۔

‘ماسی جی عامر نوں پولَس پھڑکے لے گئی اے۔‘ (ماسی عامر کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے)

‘پولَس؟ میرے عامر نے کی کیتاسی کہ پولس پھڑکے لے گئی اے؟’، اس نے منیر سے پوچھا۔

‘جی لوک کہہ رے نیں چوریاں کرداسی’، (لوگ کہہ رہے ہیں کہ چوریاں کرتا تھا)

‘جھوٹ بولدے نے لوکی، او وچاراتے روز سکول جاندا سی، اے کی لکھا ہے؟’ یہ کہہ کر اس نے ہاتھوں میں پکڑا صفحہ منیر کو تھما دیا، جس نے صفحہ پڑھا اور کہا۔

‘اے تہاڈی کڑی نے لکھا اے، کیندی ہے میں گھر چھڈ کے چلی آں تے آپنڑی مرضی نال ویاہ کراں گی’۔ (یہ آپ کی بیٹی نے لکھا ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر جارہی ہے اور اپنی مرضی سے شادی کرے گی)

صغراں بی بی یہ سن کر وہیں گھر کے دروازے پر ہی ڈھے گئی، اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ابھی ابھی اسے اعجاز نے گھر سے نکالا ہے لیکن اس بار اسے نالہ لئی کے پل پر جانے سے روکنے والی صورتیں گود میں نہیں تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں