پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے مرحلے کے 10 میچ مکمل ہوچکے ہیں اور لگتا ہے کہ اس سیزن میں جیتنے کا ایک فارمولا سا بن گیا ہے کہ ٹاس جیتیں، پہلے باؤلنگ کریں، پھر چاہے جتنا بھی بڑا ہدف ہو بالآخر حاصل ہوہی جائے گا۔

ہفتے کے روز بھی نیشنل اسٹیڈیم میں یہی کہانی دہرائی گئی۔ پہلے کراچی کنگز نے ملتان سلطانز کے بھاری بھرکم 196 رنز کے ہدف کو کچلا اور پھر رات کو نسبتاً ’لو اسکورنگ‘ مقابلے میں پشاور زلمی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو شکست دے کر پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔

یہ سلسلہ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور کراچی کنگز کے مابین پہلے مقابلے سے ہی ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کیا جارہا ہے اور ہر ٹیم نے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا ہے۔

چلیں، ابتدائی چند میچوں میں تو 150 رنز تک کے معمولی ہدف ملے جن کا تعاقب ٹی20 میں عموماً باآسانی ہو جاتا ہے لیکن پشاور کی جانب سے ملتان کے خلاف 194 رنز، کوئٹہ کے خلاف 199 رنز اور اب کراچی کی طرف سے ملتان ہی کے خلاف 196 رنز کا ہدف آخری اوور تک پہنچے بغیر حاصل کر لینا تشویش ناک بات ہے۔

کراچی کے خلاف اس اہم مقابلے میں تو ہمیں کسی حد تک سلطانز کا قصور بھی نظر آیا۔ کرس لین کے طوفانی 14 گیندوں پر 32 رنز اور اس کے بعد کپتان محمد رضوان کی 43 رنز کی ایک اور عمدہ اننگز انہیں 11 اوور میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 122 رنز تک لے آئی تھی۔ یعنی اگلے 9 اوور میں اگر ان کا رن ریٹ کم بھی ہو جاتا اور وہ 90 رنز بھی بنا لیتے تو یہ 212 رنز بنتے لیکن اس کے بعد ہر گزرتے اوور کے ساتھ ملتان کی اننگز دھیمی پڑتی گئی، یہاں تک کہ 20 اوور مکمل ہونے پر وہ 200 رنز کی نفسیاتی حد بھی عبور نہیں کر پائے۔

کہاں ایک طرف 11 اوور میں 122 رنز اور کہاں آخری 9 اوور میں صرف 73 رنز۔ اس اننگز بلکہ میچ کا 'ٹرننگ پوائنٹ' بھی 12 واں اوور تھا جو نوجوان ارشد اقبال نے کروایا۔ انہوں نے اوور کی دوسری گیند پر محمد رضوان کو لانگ آن پر کیچ کروایا اور اوور میں صرف 2 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی۔

یہی نہیں بلکہ اپنے اگلے اوور میں انہوں نے دوسرے سیٹ بیٹسمین جیمس وِنس کو بھی آؤٹ کیا۔ رہی سہی کسر ڈین کرسچن کی ایک کمال گیند پر رائلی روسو کے کلین بولڈ نے پوری کر دی۔ یعنی 4 اوورز میں ملتان نے اسکور میں صرف 26 رنز کا اضافہ کیا اور 3 بہترین بیٹسمین گنوائے۔

اتنا شان دار آغاز ملنے کے بعد ملتان کی اننگز کی حالت کیا ہو گئی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آخری 5 اوور میں ملتانی بلے باز صرف 2 چوکے لگا سکے اور چھکے کی تو کسی کو توفیق ہی نہیں ملی۔

میچ میں اتنے شان دار انداز میں واپسی کے باوجود کراچی کے لیے جیت کا راستہ آسان نہیں تھا۔ بہرحال، 196 رنز کا ہدف بہت بڑا ہوتا ہے جس کے لیے بیٹنگ لائن کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ لیکن بابر اعظم نے معاملہ آسان بنا دیا۔ گزشتہ میچ میں اسلام آباد کے ہاتھوں کراچی کی شکست پر چند حلقے بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے جنہوں نے 54 گیندوں پر 62 رنز بنائے تھے، جو نسبتاً ایک سست اننگز تھی۔ لیکن ان تمام ناقدین کو بابر نے اس میچ میں خاموش کروا دیا۔

بابر نے 60 گیندوں پر 13 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 90 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، وہ بھی ناٹ آؤٹ۔ انہوں نے پہلے 5 اوور ہی میں شرجیل خان کے ساتھ مل کر میچ کو کراچی کے حق میں کر دیا تھا کہ جنہوں نے 56 رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ کی اور اس کے بعد نوجوان انگلش بیٹسمین جو کلارک کے ساتھ مل کر 97 رنز کی شراکت داری کی۔ کلارک نے 26 گیندوں پر 54 رنز بنائے۔ بابر اعظم نے 19ویں اوور میں سہیل خان کو مسلسل 3 گیندوں پر ایک چھکا اور دو چوکے لگا کر میچ کا خاتمہ کر دیا اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔

پھر یہیں پر اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کا میچ ہوا کہ جس میں کافی مختلف مقابلہ دیکھنے کو ملا اور باؤلرز کافی حاوی دکھائی دیے۔ خاص طور پر وہاب ریاض جو گزشتہ 2 میچوں میں اپنے حصے کے اوور میں ’نصف سنچریاں‘ بنا چکے ہیں اور کافی تنقید کی زد میں تھے، اسلام آبادیوں کے خلاف عروج پر نظر آئے۔ ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ واقعی انہیں اعتماد دے چکا تھا۔ انہوں نے اپنے حصے کے 4 اوور میں صرف 17 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جن میں پہلے ہی اوور میں پال اسٹرلنگ اور پھر میچ کے فیصلہ کن اوور میں افتخار احمد اور آصف علی جیسے خطرناک بلے بازوں کی وکٹیں بھی شامل تھیں۔

اسلام آباد کی طرف سے واحد نمایاں کارکردگی ایلکس ہیلز کی تھی جو 27 گیندوں پر 41 رنز بنانے کے بعد ثاقب محمود کو چھکا لگانے کی کوشش میں آؤٹ ہو گئے۔ ان کے علاوہ کوئی بیٹسمین ایسی کارکردگی نہیں دکھا پایا کہ جس کو قابلِ ذکر کہہ سکیں۔ پوری ٹیم 18ویں اوور کی پہلی گیند پر 118 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

یہ سیزن کے افتتاحی مقابلے میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے 121 رنز کے بعد پہلا موقع تھا کہ کوئی ٹیم آل آؤٹ ہوئی ہے اور ساتھ ہی اس سیزن کا اب تک کا سب سے کم ٹوٹل بھی یہی رہا۔

پشاور جو گزشتہ 2 میچوں میں لگ بھگ 200 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کر چکا تھا، اس کے لیے 119 رنز کا ہدف بہت آسان لگتا تھا۔ پہلے 2 اوورز میں دونوں اوپنرز کے آؤٹ ہونے سے کچھ پریشانی ضرور لاحق ہوئی۔ لیکن ٹام کوہلر-کیڈمور کی 46 رنز کی ایک اور عمدہ اننگز کام دکھا گئی اور حیدر علی نے بھی اپنا جادو دکھایا۔ یہاں تک کہ زلمی نے 18ویں اوور میں ہدف کو جالیا۔

6 وکٹوں سے حاصل کی گئی اس کامیابی کے ساتھ پشاور اب پوائنٹس ٹیبل پر سب سے اوپر ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد 3، 3 میچ کھیل چکے ہیں اور 2، 2 کامیابیوں کے ساتھ برابر پوائنٹس رکھتے ہیں۔ ملتان اور کوئٹہ کے لیے معاملہ ذرا مشکل ہوگیا ہے۔ ملتان کی 4 میچوں میں صرف ایک جیت ہے جبکہ کوئٹہ تو 3 مقابلے گزر جانے کے بعد بھی جیت کے ذائقے سے محروم ہے۔

بہرحال، پہلے مرحلے کا ایک تہائی حصہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ 30 میں سے 10 مقابلے ہو چکے ہیں اور یقین جانیں تو ہم تنگ آ گئے ہیں۔ ایک ہی انداز کے مقابلوں سے سیزن میں ایک یکسانیت سی آگئی ہے، جو اچھی بات نہیں ہے۔

ٹاس کو اتنا زیادہ فیصلہ کن نہیں ہونا چاہیے کہ میچ کا فیصلہ ہی قسمت پر ہونے لگے۔ بلاشبہ کچھ میچوں میں ٹیموں نے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جان توڑ محنت کی ہے اور شکست کے جبڑوں سے فتح کو چھینا ہے، لیکن بہرحال کاغذ پر تو نتیجہ یہی لکھا گیا نا کہ ہدف کا تعاقب کرنے والے جیت گئے؟ تو ابھی تک تو ایک ہی قسم کی داستان چل رہی ہے۔

پھر باؤلرز کو اتنی بُری طرح پٹتے دیکھ کر ہمارے اندر کے 'اصلی تے وڈے' پاکستانی کرکٹ فین کو بہت ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ آپ کسی بھی پاکستانی سے پوچھیں کہ کرکٹ کا سب سے خوبصورت منظر کیا ہوتا ہے؟ تو وہ کسی بیٹسمین کے کوَر ڈرائیو یا 'کاؤ کارنر' میں چھکے کا ذکر نہیں کرے گا، بلکہ یہی کہے گا کہ بولڈ ہوتے ہوئے وکٹیں اڑنے کا منظر۔

ہمارے لیے کرکٹ باؤلنگ کا کھیل ہے اور باؤلرز کو چھکے پہ چھکا کھاتے دیکھ کر ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ میں مددگار وکٹیں اور حالات نہ سہی، لیکن کم از کم گیند اور بلّے کا برابر کا مقابلہ تو نظر آئے۔ ایسا پہلے کسی سیزن میں نہیں ہوا کہ اتنی زیادہ بیٹنگ فرینڈلی وکٹیں نظر آئی ہوں۔

اب تک کراچی میں کھیلے جانے والے مرحلے کے لیے تیار کی گئی تمام پچز استعمال ہو چکی ہیں اور سب پر نتیجہ کچھ مختلف نظر نہیں آیا۔ اس لیے اب 'برابر کی ٹکر' کی امیدیں لاہور والے مرحلے سے ہی ہیں جو 10 مارچ سے شروع ہوگا، تب تک لگتا ہے ہمیں یہی سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں