لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے پاکستان میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طویل جنگ جو خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہی ہے پاکستان کے لیے کئی چیلنجز کا باعث بنے گی۔

اسی خدشے کا اظہار وزیرِاعظم عمران خان نے بھی امریکی ٹی وی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا حالات ایسے ہی رہے تو یہ ’ملک کے لیے بہت بُری صورتحال ہوگی‘۔

پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال کا افغانستان سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں جاری کشیدگی ملک کو دوبارہ ان خطرات سے دوچار کردے گی جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے بھاری جانی نقصان اٹھایا اور شدید معاشی اور سماجی اثرات برداشت کیے۔

4 دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستان نے افغانستان میں جاری لڑائی اور غیر ملکی فوجی مداخلت کی قیمت اٹھائی ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستان کی سلامتی، استحکام اور معاشی ترقی پر ہوا۔ یہ اثرات سب کو معلوم ہیں اور انہیں یہاں دہرانا ضروری نہیں ہے۔ مغربی سرحد پر مزید کشیدگی کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کو بیک وقت ان اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا جو اس کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔

یہ صورتحال ماضی میں لوٹنے جیسی ہوگی کہ جس میں اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اور سرحدی علاقوں تک پہنچ جاتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

پاکستان نے اس خطرے کو کم کرنے کے لیے سرحد کے بڑے حصے پر باڑ لگادی ہے، ساتھ ہی سرحد عبور کرنے کے غیر قانونی راستوں کو بھی بند کردیا گیا ہے جبکہ سرحدی چوکیوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ فرنٹیئر کور کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کو بہتر کیا گیا ہے، تکنیکی نگرانی میں بہتری لائی گئی ہے اور باقاعدہ افواج کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات ضروری تو ہیں لیکن طویل سرحد اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے سرحد پر غیر قانونی آمد و رفت کو مکمل طور پر روکنا شاید ممکن نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیے: افغانستان کے پُرامن مستقبل کا انحصار کس پر ہے؟

سرحد پار کشیدہ صورتحال دہشتگرد گروہوں کو بھی وہاں سے کام کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرہ تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے جس کے ساڑھے 6 ہزار جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے سرحد پار حملے کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی میں اتحاد کے بعد ان کی صلاحیت مزید بڑھ جائے گی۔ پابندیوں پر نظر رکھنے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ’مختلف دھڑوں کے آپس میں مل جانے سے ٹی ٹی پی مزید مضبوط ہوچکی ہے‘۔

افغان طالبان کے ساتھ ٹی ٹی پی کا تعلق برقرار ہے اور اس امر سے پاکستان کے سیکیورٹی حکام بھی آگاہ ہیں۔ ٹی ٹی پی کے رہنما نور ولی محسود نے سی این این کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’ان کا گروہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا اور ان کا مقصد سرحدی علاقوں کا کنٹرول حاصل کرکے انہیں آزاد کرنا ہے‘۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث حالیہ مہینوں میں پاکستانی اہلکاروں کو ہونے والے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مئی کے مہینے سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے 167 واقعات رونما ہوئے ہیں اور یہ مستقبل کی صورتحال کا پتا دیتے ہیں۔

افغانستان میں موجود گروہ پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں خاص طور پر اگر وہ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شکست خوردہ گروہوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’القاعدہ کی قیادت کا ایک بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے پاس موجود ہے‘ اور داعش خراسان بھی ’نہ صرف متحرک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے‘۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ اگر پڑوس میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دہشتگردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی غیر ملکی حساس اداروں کے زیرِ اثر گروہوں کی جانب سے دہشتگردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یوں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سخت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی پاکستان کی کامیابیاں ضائع ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔

وزیرِاعظم عمران خان نے پی بی ایس کو دیے گئے انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا مطلب ’پاکستان میں دہشتگردی‘ ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں موجود شدت پسند بھی طالبان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے امریکی انخلا اور خانہ جنگی کا ممکنہ خطرہ

افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نتیجہ پاکستان میں نئے مہاجرین کی آمد کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے ہی موجود ہیں اور حکام کا اندازہ ہے خانہ جنگی کی صورت میں مزید 5 سے 7 لاکھ مہاجرین پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں۔

سرحد پر مؤثر کنٹرول کے اقدامات کے علاوہ حکومت سرحدی علاقوں میں کیمپوں کے قیام کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ مہاجرین کو ملک کے اندرونی علاقوں میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ یہاں ایرانی ’ماڈل‘ اختیار کیا جاسکتا ہے یا نہیں اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے خاص طور پر جب سرحد کے دونوں جانب موجود قبائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

افغان مہاجرین کے لیے ’ایکسٹرنلی ڈسپلیسڈ افغانز‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے ان کے حوالے سے ملنے والی عالمی امداد بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ان کے مہاجر ہونے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک سے ملنے والی امداد بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

پھر ایک ایسے معاشی نقصان کا خطرہ بھی موجود ہے جس کا پاکستان ماضی میں سامنا کرچکا ہے۔ ملک کی معیشت جس نازک حالت میں ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی پاکستان میں ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقعوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یوں پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا اور معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے ضروری تجارت اور سرمایہ کاری میں بھی کمی آئے گی۔ ماضی قریب یہ بتاتا ہے 9 ستمبر کے بعد جب ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ ملک کے گلی کوچوں تک آگئی تو اس کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔

مزید پڑھیے: افغانستان ابھی ہمارا دردِ سر، دردِ دل ہی رہے گا

اس کے علاوہ یہ خانہ جنگی ماضی کی طرح پراکسی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے، فرق اتنا ہوگا کہ یہ جنگ ماضی کی نسبت زیادہ مہلک ہوگی اور زیادہ ممالک کو متاثر کرے گی، خاص کر ان ممالک کو جو پہلے ہی اپنے دفاع کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک جب اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش کریں گے تو صورتحال 1990ء کی دہائی میں روسی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی زیادہ گھمبیر ہوجائے گی۔ افغانستان میں غیر ملکی جنگجوؤں اور بین الاقوامی گروہوں کی موجودگی کی وجہ سے ماضی کی نسبت آج زیادہ ممالک کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہوں گے۔ ان گروہوں میں ایسٹ ترکستان اسلامک موؤمنٹ، داعش، ازبکستان اسلامک موؤمنٹ، ٹی ٹی پی اور ظاہر ہے کہ القاعدہ شامل ہے۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ شام میں موجود جنگجو بھی اس خطے میں آسکتے ہیں۔ ایک پراکسی جنگ اس خطے میں جغرافیائی اور سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ ایک خطرناک صورتحال معلوم ہوتی ہے لیکن یہ اندازہ افغانستان کے حوالے سے بدترین صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔ یہ صورتحال اس طرح کے نتیجے کو روکنے کے لیے فوری طور پر بین الاقوامی سفارتی کوششوں کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ اب بھی ان کوششوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بہرحال افغانوں کو درپیش طویل مشکلات کے خاتمے کے لیے مشکل سمجھوتے کرنے کا بوجھ افغان فریقین پر ہی ہے۔


یہ مضمون 02 اگست 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں