ہر سال دنیا بھر میں سیکڑوں کشتیاں سمندری لہروں کی نذر ہوجاتی ہیں، مگر ہم ان کشتیوں کی کہانیاں یاد نہیں رکھتے، صرف ٹائی ٹینک جیسے بحری جہاز کی کہانی یاد رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ خود سمندری لہروں جتنے بلند قامت اور پرقوت ہوتے ہیں۔ ان کا ڈوب جانا واقعی ایک ناقابلِ فراموش واقعہ بن جاتا ہے۔

سپر اسٹار عامر خان کی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کی باکس آفس پر ناکامی کا قصہ بھی ٹائی ٹینک ہی کی کہانی کے مانند ہے اور اسی کے مانند یہ حادثہ بھی متعدد چھوٹی بڑی غلطیوں کا نتیجہ ہے، جس کے باعث عامر خان کی برسوں کی محنت اور کروڑوں کا بجٹ خاک ہوا۔ ابھی ناظرین ٹھگ آف ہندوستان کی تاریخی ناکامی ہی نہیں بُھلا پائے تھے کہ عامر کے دامن پر ایک اور بڑی ناکامی کا داغ لگ گیا۔

جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے، لگ بھگ 200 کروڑ کے بجٹ سے، 4 برس میں مکمل ہونے والی یہ فلم اپنے بدقسمت اختتام کی جانب بڑھ رہی ہوگی۔ ایسا اختتام، جس کی پیشگوئی پہلے ہی کردی گئی تھی۔

اس بدبختی کا سایہ پہلے پہل اس وقت دکھائی دیا، جب عامر خان نے اپنی فلم کو پین انڈیا مونسٹر تصور کی جانے والی پرشانت نیل کی ’کے جی ایف ٹو‘ کے ساتھ 14 اپریل کو ریلیز کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ ایک بڑا باکس آفس ٹکراؤ تھا۔ واقعہ خبروں کی زینت بنا۔ عامر خان بھی اپنے بیانات میں اس کلیش کا ذکر کرتے نظر آئے۔ کہیں وہ کے جی ایف ٹیم کا شکریہ ادا کرتے، کہیں اس تاریخ کو چننے کا سبب بیان کرتے، مگر جوں جوں اپریل قریب آتا گیا یہ واضح ہوگیا کہ کے جی ایف کے سامنے فلم ریلیز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ سو فلم کی ریلیز ڈیٹ بھارتی یوم آزادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے گیارہ اگست پر منتقل کردی گئی۔

بظاہر یہ دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ ایک طرف عامر خان کی فلم کو طویل ویک اینڈ مل گیا، وہیں یہ کلیش سے بھی بچ گئی، مگر پھر اچانک منظر میں اکشے کمار اور آنند ایل رائے کی انٹری ہوئی جنہوں نے رکشا بندھن کے تہوار پر اپنی فلم، 'رکشا بندھن' ریلیز کرنے اعلان کردیا۔ یوں عامر خان، اپنے ہی جال میں پھنس گئے اور ایک ایسے باکس آفس کلیش کا شکار ہوگئے جس کا ملتوی ہونا اب ممکن نہیں تھا۔

مگر عامر خان کی بدبختی یہیں تمام نہیں ہوئی۔ فلم کے ٹریلر کو، جس سے کئی امیدیں ہیں، منفی ردِعمل ملا۔ ناظرین کو یوں محسوس ہوا کہ عامر 'پی کے' اور 'تھری ایڈیٹس' کے کردار کو دہرا رہے ہیں۔ چند فلمی مبصرین نے ان کی جوان نظر آنے کی کوششوں کو بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ چند حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ ٹام ہینکس کی ’فاریسٹ گمپ‘ جیسی کلاسک کا ری میک بنانا بذاتِ خود ایک سنگین غلطی ہے۔

بعد ازاں یہ اعتراض ایک سنجیدہ مسئلے کے طور پر ابھرا اور فلم کے لیے سم قاتل ثابت ہوا۔ فارسٹ گمپ میں حقیقی واقعات کو مرکزی کردار کی کہانی سے مربوط کیا گیا تھا، اس عمل کے دوران تاریخی، ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا گیا، جیسے ٹام ہینکس کا فوج میں بھرتی ہونا اور محاذ پر جانا۔ ان واقعات کو جوں کا توں یا چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ہندی ورژن میں نہیں ڈھالا جاسکتا تھا۔ ناقدین کے مطابق اس کہانی کو انڈین روپ دینے کے جو مطالبات تھے، انہیں فنکارانہ طور پر پورا نہیں کیا گیا۔

بائیکاٹ: اسباب اور اثرات

عام طور پر فلم ناقدین ناظرین کو فلم کی جانب متوجہ یا پھر متنفر کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ سنیما جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ البتہ لال سنگھ چڈھا یہاں بھی بدقسمت رہی۔ ناقدین، جن کی اکثریت نے منفی تبصرے دیے، ناظرین کو متنفر نہیں کرسکے، کیونکہ وہ پہلے ہی اس فلم کا بائیکاٹ کرچکے تھے۔

اس بائیکاٹ کی وجوہات دلائل کے بجائے تعصب کی بنیاد پر کھڑی تھیں۔ جن باتوں کو موضوع بنایا گیا، وہ پرانے واقعات تھے، جیسے عامر خان کا ایک بیان اور فلم پی کے۔ اس پورے پروپیگنڈے کے پیچھے 3 عوامل تھے مسلم دشمنی، سیکولر بیانیے کا رد اور بولی وڈ کا بائیکاٹ۔

مودی دورِ حکومت میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانا ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر ماضی میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس افسوسناک چلن نے سماج کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بولی وڈ کو بھی متاثر کیا جو ماضی میں اپنے سیکولر امیج پر فخر کیا کرتا تھا اور جس پر دلیپ صاحب سے مسٹر پرفیکشنسٹ تک، خانز کا راج تھا۔

مودی سرکار آنے کے بعد پہلے پہل تو قوم پرستی کو فروغ دیا گیا، ہندو انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے اداکار اور فلم سازوں کو حکومت کی گڈ بک میں جگہ دی جانے لگی، اکشے اور اجے کو خانز کے خلاف سپورٹ کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کی تازہ شکل لال سنگھ چڈھا کی بائیکاٹ مہم تھی۔

کانگریس کے قریب سمجھے جانے والے خانز کو بولی وڈ میں سیکولرازم کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ اس سیکولرازم کو رد کرتے ہوئے سنیما میں مذہبیت کو فروغ دینے کے لیے خانز اور ایسے فن سازوں پر ضرب لگانا ضروری تھا، جو مذہب اور قوم پرستی کو موضوع بنانے سے اجتناب کرتے ہوں اور دیگر ممالک کے فنکاروں کو مواقع دینے کے لیے معروف ہوں۔

اے دل ہے مشکل میں فواد خان اور رئیس میں ماہرہ خان کی موجودگی کی وجہ سے جو شور اٹھا، وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ ان واقعات کے بعد کم از کم اداکاروں کی حد تک بھارتی فلم ساز پاکستانی ٹیلنٹ کو کاسٹ کرنے سے کترانے لگے۔

لال سنگھ چڈھا کو ’بائیکاٹ بولی وڈ‘ مہم سے بھی خاصا فرق پڑا۔ یہ مہم دراصل ساؤتھ انڈین سنیما کے حیران کن عروج کا نتیجہ ہے۔ تیلگو ڈائریکٹر راجا مولی نے اپنی بلاک بسٹر فلم باہو بلی کے ذریعے جب ہندی سرکٹ میں حیران کن کامیابی سمیٹی تو ساؤتھ کے فلم سازوں کو یہ نکتہ سمجھ میں آگیا کہ ہندی ناظرین میں میگا بجٹ، ایکشن اور مسالہ فلموں کے لیے شدید بھوک موجود ہے اور یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں ریکارڈ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں کے جی ایف، آر آر آر اور پشپا جیسی فلموں نے اسی بھوک کو اپنے بزنس میں ڈھالا، اور ہندی فلم ساز اور فنکار ہاتھ ملتے رہ گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندی سرکٹ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں کی فہرست میں ٹاپ پر ہندی کے بجائے ڈب فلمیں نظر آتی ہیں۔

ساؤتھ انڈین فلموں کی فوقیت سے شروع ہونے والے ٹرینڈز میں جب مسلم دشمن اور اینٹی سیکولرازم سوچ کا تڑکا لگا تو اس نے بھی ایک بائیکاٹ مہم کی شکل اختیار کرلی۔ اس عنصر نے نہ صرف عامر خان کی فلم کو شدید متاثر کیا، بلکہ مودی جی کے قریب تصور کیے جانے والے اکشے کمار کی فلم رکشا بندھن بھی اسی ٹرینڈ کے لپیٹ میں آگئی اور متوقع کمال نہیں دکھا سکی۔

تو مذکورہ عوامل کی وجہ سے عامر خان کی بڑے چاؤ سے بنائی جانے والی یہ فلم، جسے ادویت چندن جیسے باصلاحیت ہدایت کار نے پورے خلوص سے بنایا ہوگا، بے معنی ہوگئی۔ یہ فلم ساڑھے تین ہزار سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی مگر بائیکاٹ کی وجہ سے پہلے دن صرف 25 سے 30 فیصد سیٹیں ہی بھر سکیں اور شوز کینسل کرنے پڑے۔ یعنی ناقدین کے رد کرنے سے پہلے ہی ناظرین اسے رد کرچکے تھے۔ انہوں نے فلم دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اور یوں یہ ٹائی ٹینک بھی ڈوب گیا۔

جیسے اوپر ذکر کیا کہ اس کی بڑی وجہ تو انتہا پسندوں کی بائیکاٹ مہم تھی، جس کا شکار غیر جانبدار فلم بین بھی ہوگئے، مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس فلم کی ہائپ توقع سے کم تھی، ٹریلر بھی کمزور تھا، باکس آفس ٹکڑاؤ بھی آڑے آیا اور سب سے بڑھ کر فاریسٹ گمپ سے موازنہ بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا۔

خیال رہے کہ پی کے اور دنگل کی ریلیز کے موقع پر بھی بائیکاٹ مہم زوروں پر تھی، مگر دونوں فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا لیکن لال سنگھ چڈھا میں شاید وہ ہنر اور قابلیت نہیں تھی جو اسے کامیاب بنا پاتی۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس فلم کی ناکامی سے عامر خان کا کیریئر ختم ہوگیا مگر یہ ضرور ہے کہ عامر خان کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے جس سے ابھرنا آسان نہیں ہوگا۔

ساتھ ہی باقی دونوں خانز کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سال کے آخر میں سلمان خان کی فلم 'کبھی عید کبھی دیوالی' ریلیز ہونے والی ہے اور اگلے برس جنوری میں شاہ رخ کی 'پٹھان' بڑے پردے کی زینت بنے گی۔ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ دونوں فلموں کو اسی قسم کی مشکلات اور بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ کیا خانز کا دور ختم ہوگیا ہے؟ اور اس کا جواب ہمیں 2023ء کے آخر تک مل جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Ali Aug 16, 2022 05:14am
فلم نہایت ہی کمزور تھی۔ عامر خان کی پنجابی بہت ہی بری اور ایکٹنگ میں پی کے کی پوری جھلک تھی۔ کہانی کی رفتار اور واقعات سے بھی بہت فرق پڑا۔
منظر Aug 17, 2022 05:25pm
بہت اچھا تجزیہ