ماہر علی
ماہر علی

کل صبح بیدار ہوتے ہی مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ حماس نے جنگ بندی کی تجویز کو منظور کرلیا ہے لیکن یہ زیادہ وقت قائم نہ رہ سکی۔ ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ اسرائیل نے رفح پر حملہ بھی کردیا جس کی وہ طویل عرصے سے دھمکیاں دے رہا تھا اور یہ اس اعلان کے اگلے روز ہوا جب اس نے ایک لاکھ ’شہریوں‘ کو رفح سے انخلا پر مجبور کیا جہاں 15 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے ملنے والی دفاعی ہتھیاروں کے ذریعے رفح پر بمباری کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ یہ بمباری اس مفروضے کے تحت کی جارہی ہے کہ پیدل، گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے علاقہ چھوڑ کر جانے والے دسیوں ہزاروں میں حماس کے جنگجو شامل نہیں ہوں گے۔

صہیونی حکومت کے تقریباً تمام بین الاقوامی اتحادیوں نے اسرائیل کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ رفح پر حملے سے باز رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کو اسلحہ بھی فراہم کرتے رہے۔ عالمی تاریخ میں منافقت کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں لیکن ہمیں شاذو نادر ہی ایسی کوئی مثال ملے جو 2024ء کی طرح شدید ہوں۔ ماضی میں واشنگٹن کی جانب سے سنگین انتباہات کم از کم عارضی طور پر صحیح لیکن اسرائیلی جارحیت کو کم کرنے میں کچھ حد تک کارگر ثابت ہوئے۔ تاہم بنیامن نیتن یاہو تو ایک مختلف زمرے میں آتے ہیں۔ دونوں فریقین کے درمیان دشمنی کو توقف دینے کی کوئی بھی کوشش، ان کی ناکامی کا پروانہ ثابت ہوگی پھر ایسے میں جنگ بندی کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔

اسرائیلی شہروں میں اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف ہونے والے مظاہرے کا مقصد جنگ بندی ہر گز نہیں حالانکہ ان میں سے کچھ مظاہرین جنگ بندی کے حق میں ہیں۔ غزہ کے بجائے ان کے مطالبات یرغمالیوں کی واپسی پر زیادہ مرکوز ہیں جس کے لیے اسرائیلی حکومت کو عارضی طور پر حماس کے ساتھ اپنی دشمنی کو ایک جانب کرنا ہوگا۔ مگر بنیامن نیتن یاہو امن کی چھوٹی سی کوشش پر بھی آمادہ نہیں۔ کرپشن الزامات کا سامنا کرنے کے علاوہ ان کی حکومت نے غزہ کے قریب واقع یہودی کمیونٹی کبوتزم پر حماس کے ممکنہ حملے کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جہاں بڑی تعداد میں یہودی آباد ہیں جن میں سے کچھ تو یہودی قومیت کے بیانیے سے متفق بھی نہیں۔

بنیامن نیتن یاہو اور ان کے شرپسند اتحادی، مصالحت کے خواہشمند یہودی یا اسرائیلیوں کو اسی زمرے میں شامل کرتے ہیں جن میں ان کے لیے فلسطینی ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا، برطانیہ یا آسٹریلیا میں مظاہروں میں شریک یہودی طلبہ دیگر قومیت سے زیادہ ان کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں کیونکہ دیگر قومیت کے لوگوں کو تو وہ آسانی سے یہود مخالف قرار دے سکتے ہیں۔

نسل کشی کے خلاف مظاہروں کا دائرہ امریکا سے یورپ حتیٰ کہ آسٹریلیا تک وسعت اختیار کررہا ہے جہاں سیاست دان یہ کہتے ہوئے ان مظاہروں کی مخالفت کرتے ہیں کہ ان سے یہودی طلبہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس طرح کا خوف ہرگز نہیں ہوگا جو غزہ کے مرد، خواتین اور بچے محسوس کرتے ہیں جہاں 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے فلسطینی شہدا کی تعداد تقریباً 35 ہزار ہوچکی ہے۔

رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے ووٹنگ متوقع ہے جس میں فلسطین کو مستقل رکنیت دینے کے حوالے سے فیصلہ لیا جائے گا۔ لیکن فلسطین کے حق میں زیادہ ووٹوں کے باوجود سلامتی کونسل کے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئے گی جہاں امریکا کی ویٹو طاقت کا زور چلتا ہے۔ ہم متعدد مواقع پر دیکھ بھی چکے ہیں کہ کیسے اس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں میں صہیونیت کا ساتھ دیا۔

تقریباً 50 سال قبل نومبر 1974ء میں یاسر عرفات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زیتون کی شاخ لیے اور ہولسٹر (پستول کا غلاف) پہنے آئے، انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، جہاں انہوں نے مصالحت اور آزادی کی جدوجہد، دونوں کی پیش کش کی۔ اس موقع پر ان کا یہ بیان کافی مقبول ہوا، ’آج میں یہاں زیتون کی شاخ (امن کا پیغام) اور آزادی کے مجاہد کی بندوق ساتھ لایا ہوں، میرے ہاتھ سے زیتون کی شاخ کو گرنے مت دینا‘۔ اپنے اس یادگار خطاب میں انہوں نے ’ہمارے لوگوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے طور پر بیان کرنے پر صہیونیوں اور قابض‘ قوتوں کو ’وحشیانہ‘ اور ’بے باک‘ قرار دے کر تنقید کی۔

اوسلو معاہدے کے بعد یاسر عرفات کی صدارت میں فلسطینی حکومت کے صہیونی قابض قوت کے قریب آنے سے قبل، یاسر عرفات نے اقوام متحدہ میں کہا کہ ’اب جب یہ واضح ہوچکا کہ سیاسی راہ اختیار کرکے فلسطینیوں کو اپنی زمین کا ایک انچ بھی واپس نہیں ملے گا تو ہمارے لوگوں کے پاس مسلح جدوجہد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘۔

اس وقت انہوں نے دو ریاستی حل کا ذکر نہیں کیا جوکہ موجودہ حالات میں بہت سے ان لوگوں کا پسندیدہ آپشن ہے جنہوں نے دہائیوں تک اس طرح کے ممکنہ حالات کےخدشے کو کم کرنے کی کوشش کی۔ یاسر عرفات نے ’ایک جمہوری ریاست جہاں عیسائی، یہودی اور مسلمان انصاف، مساوات اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں‘ کے لیے ایک طویل مدتی امید کا اظہار کیا تھا۔

یہ یاسر عرفات مرحوم کا خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ ایک ریاست اور نہ ہی دو ریاستی حل پر غور کیا جارہا ہے حتیٰ کہ اگر نیتن یاہو کی جگہ کوئی کم قابلِ نفرت شخص بھی اقتدار سنبھالتا ہے تب بھی قضیہ فلسطین کا حل تلاش کرنے میں درپیش مسائل کم نہیں ہوں گے۔

فلسطینیوں کی نسل کشی کی تاریخ 1947 سے 1948ء تک جاتی ہے جبکہ اس کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ وہ زیتون کی شاخ (امن کا پیغام) جو یاسر عرفات اقوام متحدہ میں لائے تھے ابھی گری نہیں ہے۔ بس اسے مؤثر طریقے سے ان کے ہاتھ سے چھین لیا گیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک زیتون کے بہت سے درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے بالخصوص اوسلو معاہدے کے بعد، جب امریکی حکومتوں کی پشت پناہی کے ساتھ غیرقانونی آبادکاری کا رجحان پیدا ہوا۔

بنیامن نیتن یاہو کی جگہ کسی دوسرے کا برسراقتدار آنے کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ آئندہ 50 برسوں بعد کی نسل معاملے کو مؤثر انداز میں حل کرنے میں اپنے آباؤ اجداد کی ناکامی کا خمیازہ بھگتے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں