Get the latest news and updates from DawnNews
مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کو فلسطینی صدر کی دعوت پر اتوار کو مغربی کنارے کا دورہ کرنا تھا جسے اسرائیل نے روک دیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عرب وزرائے خارجہ کا کل (اتوار) کو رام اللہ کا دورہ شیڈول تھا تاہم اسرائیل نے مصر، اردن، سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کو روک دیا۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صہیونی ریاست فلسطینی انتظامی دارالحکومت رام اللہ میں ہونے والے مجوزہ اجلاس کی اجازت نہیں دے گا۔
خیال رہے کہ یہ اجلاس ایک بین الاقوامی کانفرنس سے قبل منعقد ہونا تھا، جس کی مشترکہ میزبانی فرانس اور سعودی عرب کریں گے۔
یہ کانفرنس 17 سے 20 جون تک نیویارک میں منعقد ہونے والی ہے، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔
اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ عرب وزرائے خارجہ فلسیطینی ریاست کے قیام پر بات چیت کے خواہشمند ہے تاہم فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیں گے۔
اردن کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اعلیٰ عرب حکام کے وفد (اردن، مصر، سعودی عرب اور بحرین) کے وزرائے خارجہ نے رام اللہ کا دورہ ملتوی کر دیا ہے کیونکہ ’اسرائیل نے اس میں رکاوٹ ڈالی‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ رکاوٹ ’ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی ذمہ داریوں کی واضح خلاف ورزی‘ ہے۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی جنگ بندی کی تجویز پر اپنا جواب جمع کرادیا جس میں غزہ میں مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس نے ہفتے کے روز کہا کہ اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز پر ثالثوں کو جواب دے دیا ہے۔
حماس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دیے گئے جواب میں جنگ بندی کا مطالبہ شامل ہے۔
حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت وہ 10 زندہ یرغمالیوں کو رہا کریں گے اور 10 لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کریں گے جس کے بعد صہیونی ریاست متعدد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جب کہ یہ فلسطینی گروپ کی جانب سے یہ بات اسٹیو وٹکوف کی تجویز سے مطابقت رکھتی ہے۔
حماس کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہنا تھا کہ یہ تجویز مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا اور ہمارے عوام وخاندانوں کے لیے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مقصد رکھتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی صدر کو یہ جواب ’طویل مشاورت کے بعد‘ دیا گیا ہے۔
بیان میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ حماس نے اس تجویز میں کوئی تبدیلی مانگی ہے، تاہم بات چیت سے واقف ایک فلسطینی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ حماس نے کچھ ترامیم کی خواہش ظاہر کی ہے، تاہم اس کا جواب مثبت تھا۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس نے فوری طور پر اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اسرائیلی میڈیا نے رواں ہفتے کے آغاز میں اطلاع دی تھی کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں قید یرغمالیوں کے خاندانوں کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے ایلچی کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر لیا ہے، البتہ وزیر اعظم کے دفتر نے اس وقت کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث مارچ میں ختم ہونے والی جنگ بندی کی دوبارہ بحالی کی کوششوں کو روک دیا تھا۔
اسرائیل بضد ہے کہ حماس مکمل طور پر ہتھیار ڈالے، ایک عسکری و حکومتی قوت کے طور پر تحلیل ہو جائے، اور غزہ میں موجود باقی 58 یرغمالیوں کو واپس کرے۔
تاہم، حماس نے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے، تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو غزہ سے اپنی فوجیں نکالنی ہوں گی اور جنگ ختم کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے صہیونی ریاست نے فلسطینی شہریوں پر نہ ختم ہونے والے مظالم کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کے نتیجے میں اب تک 54 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ ’کرہ ارض پر سب سے زیادہ بھوکا مقام‘ ہے، فلسطینی علاقے کی پوری آبادی اب قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے تقریباً 20 ماہ مکمل ہونے کے بعد مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، اسرائیل نے مارچ میں غزہ میں دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی تھیں جس سے 6 ہفتے کی جنگ بندی ختم ہو گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے (اوچا) کے ترجمان جینز لارکے نے کہا کہ ’غزہ زمین پر بھوک سے سب سے زیادہ متاثرہ جگہ ہے، یہ دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے، 100 فیصد آبادی قحط کے خطرے میں ہے، انہوں نے اسرائیلی حکام کے دعوے کو بھی مسترد کیا۔
حال ہی میں اسرائیل نے 2 مارچ کو عائد کی گئی مکمل امدادی ناکہ بندی کو جزوی طور پر نرم کیا ہے، ناکہ بندی کے باعث خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔
جنیوا میں اسرائیل کے سفیر ڈینیئل میرون نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں حقائق کو چن کر پیش کرتی ہیں تاکہ اسرائیل کو بدنام کیا جا سکے۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اپنی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش میں عالمی ایجنسیاں اسرائیل اور اس کے شراکت داروں کی طرف سے شہریوں تک امداد کی فراہمی کی بھرپور کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اقوام متحدہ حماس کو خوراک فراہم کرتا ہے، ہم یقینی بناتے ہیں کہ امداد ضرورت مندوں تک پہنچے۔
جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران جینز لارکے نے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد پہنچانے میں اقوام متحدہ کو درپیش مشکلات کی تفصیل بیان کی۔
جینز لارکے کے مطابق اسرائیل نے امدادی ناکہ بندی کے جزوی خاتمے کے بعد 900 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے، تاہم اب تک صرف 600 ٹرک غزہ کی سرحد پر اتارے گئے ہیں اور ان میں سے بھی کم تعداد میں امداد تقسیم ہو سکی، جس کی وجہ متعدد سیکیورٹی خدشات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی امداد کے ٹرک غزہ میں داخل ہوتے ہیں، انہیں اکثر مایوس لوگوں کی بھیڑ گھیر لیتی ہے، میں ان لوگوں کو ایک لمحے کے لیے بھی الزام نہیں دیتا، کیونکہ وہ وہی امداد لے رہے ہیں جو دراصل انہی کی ہے، لیکن یہ امداد اس طریقے سے تقسیم نہیں ہو رہی جیسے ہم چاہتے ہیں۔
غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (ایک نیا ادارہ جو اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے مئی کے آغاز میں قائم ہوا) اس ہفتے غزہ کے مختلف مقامات پر امداد تقسیم کر رہا ہے۔
جب اس فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو جینز لارکے نے کہا کہ یہ نظام مؤثر نہیں ہے، یہ لوگوں کی ضروریات پوری نہیں کرتا، یہ صرف افراتفری پیدا کرتا ہے۔
اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق منگل کو ہزاروں فلسطینی ایک امریکی امدادی مرکز پر جمع ہو گئے، جب اسرائیل نے اقوام متحدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امداد کی تقسیم کا نیا نظام متعارف کرایا تھا۔
جینز لارکے نے کہا کہ جب لوگوں کو خود امداد لینے کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ امداد لے کر جاتے وقت لٹیروں کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔
دوسری جانب، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ جنگ زدہ غزہ کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور اسرائیل کو ’مکمل چھوٹ‘ دینا مغرب کی عالمی ساکھ کو ختم کر دے گا۔
انہوں نے سنگاپور میں اعلیٰ سطح کے دفاعی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم غزہ کو چھوڑ دیتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھیں کہ اسرائیل کو مکمل چھوٹ حاصل ہے، چاہے ہم دہشت گرد حملوں کی مذمت بھی کریں، تب بھی ہم اپنی ساکھ کھو دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے ہم دہرا معیار مسترد کرتے ہیں۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے منظور کردہ جنگ بندی کی امریکی تجویز اس کے مطالبات پر پوری نہیں اترتیں اور گروپ اب بھی اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق معاملے سے باخبر ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تجویز کے ابتدائی مرحلے میں 60 دن کی جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔
حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اس منصوبے کی شرائط اسرائیلی مؤقف کی عکاسی کرتی ہیں اور ان میں جنگ کے خاتمے، اسرائیلی افواج کی واپسی یا امداد کی فراہمی جیسے حماس کے مطالبات کی کوئی ضمانت شامل نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حماس اب بھی اس تجویز کا مطالعہ کر رہی ہے۔
علاوہ ازیں ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے کہا کہ نئے مسودے کا مطلب قتل و قحط کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور یہ بالخصوص جنگ بندی سمیت ہمارے عوام کے کسی بھی مطالبے کو پورا نہیں کرتا۔
گروپ کے قریبی ایک ذریعے نے بتایا کہ گزشتہ مسودے کے مقابلے میں نیا مسودہ ایک پسپائی سمجھا جا رہا ہے، جس میں مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے حوالے سے امریکی عزم شامل تھا۔
مذاکرات سے واقف دو ذرائع کے مطابق نئی تجویز میں 60 دن کی جنگ بندی شامل ہے، جسے ممکنہ طور پر 70 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے، اور اس کے پہلے ہفتے کے دوران فلسطینی قیدیوں کے بدلے 10 زندہ یرغمالیوں اور 9 لاشوں کی رہائی شامل ہے۔
خیال رہے کہ امریکی انتظامیہ نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی امریکی تجویز منظور کرتے ہوئے اس پر دستخط کردیے ہیں۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے امریکا کی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر دستخط کردیےہیں، جس کے بعد نئی تجویز فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس گروپ کو بھیجی گئی۔
انہوں نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اسرائیل کی منظوری کے بعد ہی یہ تجویز حماس کو پیش کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے ایک بریفنگ میں کہا کہ ’میں اس بات کی بھی تصدیق کر سکتی ہوں کہ یہ بات چیت جاری ہے، اور ہمیں امید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہو گی تاکہ ہم تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لا سکیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے تجویز قبول کر لی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ میری معلومات کے مطابق نہیں۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر دستخط کر دیےہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے جمعرات کو کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے امریکا کی تازہ ترین ( نئی ) جنگ بندی کی تجویز پر دستخط کردیےہیں، جس کے بعد نئی تجویز فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس گروپ کو بھیجی گئی۔
انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اسرائیل کی منظوری کے بعد ہی یہ تجویز حماس کو پیش کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے ایک بریفنگ میں کہا کہ میں اس بات کی بھی تصدیق کر سکتی ہوں کہ یہ بات چیت جاری ہے، اور ہمیں امید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہو گی تاکہ ہم تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لا سکیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے تجویز قبول کر لی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ میری معلومات کے مطابق نہیں۔
خیال رہے کہ قبل ازیں امریکا کی جانب سے چند روز قبل پیش کی گئی غزہ میں جنگ بندی کی تجویز حماس نے منظور کرلی تھی تاہم اسرائیلی حکام نے اس تجویز کو واشنگٹن کی قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی اسرائیلی حکومت اسے قبول نہیں کر سکتی۔
غزہ میں امریکا کے تعاون سے چلنے والے نئے امدادی نظام کے آغاز کے بعد، ہزاروں فلسطینی بدنظمی اور تشدد کے خوف کے باوجود خوراک حاصل کرنے کے لیے تقسیم کے مراکز پر پہنچ رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے زیرسرپرستی چلنے والے اور اسرائیلی حمایت یافتہ گروپ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے زیر انتظام دو مراکز منگل سے کام کر رہے ہیں، لیکن ان مراکز کے آغاز پر اس وقت پر تشدد مناظر دیکھنے میں آئے جب ہزاروں فلسطینی باڑ کی طرف دوڑ پڑے اور سیکیورٹی فراہم کرنے والے نجی ٹھیکیداروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ جی ایچ ایف اب چار مراکز سے امداد تقسیم کررہی ہے، ان میں سے تین جنوبی علاقے رفح میں اور ایک وسطی غزہ کے نیتزارم علاقے میں ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی گروپوں نے اس نئے نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور اسے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کے داخلے پر 11 ہفتوں کی پابندی کے بعد پیدا ہونے والے انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے ناکافی اور ناقص ردعمل قرار دیا ہے۔
کئی فلسطینیوں نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ فلسطینیوں میں نئے امدادی نظام کے بارے میں وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات اور عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے دور رہنے کی تنبیہات کے باوجود رفح کے قریب ایک امدادی مرکز پر گئے تھے، جہاں پہلے ہی ہزاروں افراد موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں شناخت، چھان بین اور سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا،اور امداد کی تقسیم شروع ہوتے ہی لوگوں نے ہلہ بول دیا اور جس کے جو ہاتھ لگا وہ اس نے لے لیا۔
جی ایچ پی کا کہنا تھا کہ اسے ’ پریشان حال آبادی’ کی جانب سے ایسے ردعمل کی توقع کی تھی، تاہم شمالی غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے، جو جنوب میں امدادی مراکز سے کٹے ہوئے ہیں، یہ امداد اب بھی ان کی پہنچ سے باہر ہے۔
دوسری جانب ہزاروں افراد کے امداد کی تقسیم کے مراکز پر جانے کے باوجود، اسرائیلی جیٹ طیاروں نے غزہ کے علاقوں پر بمباری جاری رکھی، فلسطینی طبی کارکنوں نے بتایا کہ جمعرات کو کم از کم 45 افراد شہید ہوئے، جن میں وسطی غزہ کی پٹی کے بوریج کیمپ میں کئی گھروں پر حملے میں شہید ہونے والے 23 افراد شامل تھے۔
اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے، بہت سے یورپی ممالک جو عام طور پر اسرائیل پر کھلے عام تنقید کرنے سے گریز کرتے تھے، اب تنازعہ کے خاتمے اور ایک بڑی انسانی امدادی کوشش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ کے صحت حکام کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے جاری بدترین اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 54000 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اور بمباری کے نتیجے میں غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس کی بیشتر آبادی کو کئی بار نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔
اقوام متحدہ کے لیے فلسطین کے سفیر سلامتی کونسل میں بچوں کی تکالیف بیان کرتے ہوئے ضبط کھو بیٹھے اور رو پڑے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق فلسطینی مندوب ریاض منصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے جذباتی خطاب کے دوران رو پڑے، اور غزہ میں بچوں کی ’ناقابل برداشت‘ تکلیف کا ذکر کیا۔
دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی ’بقا‘ سے بڑھ کر اپنے مستقبل کے مستحق ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر سگرید کاگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ جب سے غزہ میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئیں ہیں، وہاں عام شہریوں کی پہلے ہی نہایت خراب حالت مزید تباہی کی جانب جا رہی ہے، یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کا صحت کا نظام ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، موت فلسطینیوں کی ساتھی بن چکی ہے، یہ زندگی ہے نہ امید۔
اب جو امداد آ رہی ہے وہ جہاز ڈوبنے کے بعد دی گئی لائف بوٹ کے برابر ہے، کاگ نے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کی صورتحال بھی خطرناک راہ پر ہے، اور عالمی سطح پر آئندہ ماہ ہونے والی اعلیٰ سطح کی کانفرنس دو ریاستی حل کو زندہ کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کے اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس قبضے کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی جانب ایک ٹھوس راستہ شروع کرے، غزہ کے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہمدردی، یکجہتی اور حمایت کے الفاظ اپنی اصل معنویت کھو چکے ہیں۔
کاگ نے کہا کہ ہمیں لوگوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تعداد کے عادی نہیں ہونا چاہیے، یہ سب بیٹیاں، مائیں اور چھوٹے بچے ہیں جن کی زندگی برباد ہو چکی ہے، ہر ایک کا ایک نام تھا، ہر ایک کا مستقبل تھا، ہر ایک کے خواب اور آرمان تھے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کو ایک امریکی سرجن کی دل دہلا دینے والی گواہی بھی سنی، جو کچھ ہفتے پہلے غزہ سے واپس آئے تھے۔
ڈاکٹر فیروز صیدھا نے کہا کہ میں یہاں اس لیے ہوں کہ میں نے وہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھا ہے جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، خاص طور پر بچوں کے ساتھ، اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا، آپ بھی لاعلمی کا دعویٰ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کا طبی نظام ناکام نہیں ہوا، یہ ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا گیا، جو بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے، بچوں کی حفاظت کی جانی چاہیے، لیکن غزہ میں وہ حفاظتی تدابیر ختم ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر فیروز صیدھا نے کہا کہ میرے زیادہ تر مریض چھوٹے بچے تھے، جن کے جسم دھماکوں سے ٹوٹ پھوٹ گئے اور دھات کے ٹکڑوں سے کٹے ہوئے تھے، کئی مریض جان کی بازی ہار گئے، جو بچے بچ گئے، وہ اکثر اپنی پوری فیملی کے مر جانے کا صدمہ اٹھا رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وار چلڈ الائنس کے مطابق غزہ کے تقریباً نصف بچے خودکشی کے خیالات میں مبتلا ہیں۔
امریکی ڈاکٹر نے کہا کہ وہ پوچھتے ہیں، میں اپنی بہن، ماں یا والد کے ساتھ کیوں نہیں مرا؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کون سا کونسل کا رکن کبھی 5 سال کے ایسے بچے سے ملا ہے جو زندگی سے نفرت کرتا ہو۔
ان تمام چیزوں میں سے جو ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے 4 ماہ میں حاصل کیں، کیا وہ بنیامن نیتن یاہو حکومت کو بھی اسپاٹ لائٹ سے دور کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟
جب اس ماہ کے وسط میں امریکی صدر نے اپنے دورے کو مشرقِ وسطیٰ اور خلیج تک محدود رکھتے ہوئے اسرائیل کو نظرانداز کیا تو تب سے میڈیا پر یہ کہانیاں گردش کررہی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو دیوار سے لگادیا ہے۔ ان کی انتظامیہ نے یمن کے حوثیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، وہ ایران کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں جبکہ امریکی صدر نے ریاض میں سابق جہادی کے ساتھ ملاقات بھی کی جو اب شام کے صدر ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ان میں سے کسی بھی پیش رفت سے اسرائیل خوش ہوا ہو۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا جہاز یروشلم اترتا تو میڈیا کی توجہ ان کے نسل کش میزبانوں کی جانب مبذول ہوجاتی۔ تو یہ حیران کُن نہیں کہ عموماً زیادہ آواز اٹھانے والی صہیونی لابی نے امریکی صدر کے دورے کے حوالے سے بہت کم اعتراض کیا۔ چاہے قطر سے ملنے والا عالیشان بوئنگ طیارہ ہو یا ریاض، دوحہ اور ابوظبی کے ساتھ ٹریلین ڈالرز کے معاہدوں کی تفصیلات، یہ تمام رپورٹس غذائی قلت سے مرنے والے بچوں اور غزہ کی تباہی پر سے توجہ ہٹاسکتی ہیں جو امریکا کے فراہم کردہ ہتھیاروں کی بدولت ہے۔
گزشتہ جمعے غزہ میں زندہ رہ جانے والے چند ماہرِ اطفال میں سے ایک علا النجار اسرائیلی حملے سے بچ جانے والے ایک طبی مرکز پہنچیں تو ان کے 10 میں سے 7 بچوں کے جلے ہوئے جسد خاکی کو نصر اسپتال پہنچایا گیا جوکہ ناقابلِ شناخت تھیں۔ ان کے 6 ماہ کے بیٹے سیدن سمیت ان کے دو بچے خان یونس میں واقع ان کے گھر کے ملبے تلے دب گئے۔
اس طرح کے المناک نقصان کے بعد زندگی جاری رکھنے میں کتنی طاقت درکار ہوتی ہے، اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے لیکن علا النجار نے بہ طور ڈاکٹر اپنا کام جاری رکھا کیونکہ دیگر جانوں کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔
پیر کو غزہ سٹی کے ایک اسکول جہاں بیت لاہیا کے سیکڑوں محصور افراد نے پناہ حاصل کی تھی، اسے نشانہ بنایا گیا جس میں کم از کم 35 افراد شہید ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس واقعے کے شہدا میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اسرائیلی دفاعی فورسز نے اس اسکول کو ’حماس اور اسلامک جہاد کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی جبالیہ میں ایک گھر میں 19 افراد کا قتل عام کیا گیا۔
اسی روز ہزاروں اسرائیلیوں نے یروشلم کے اولڈ سٹی میں مسلمانوں کے کوارٹر کی جانب مارچ کرتے ہوئے، ’عربوں کو موت دو‘، ’غزہ ہمارا ہے‘ اور ’ان کے دیہات کو جلا دو‘ جیسے نعرے لگائے۔ اس مارچ میں شامل ایک بینر پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’نکبہ کے بغیر فتح حاصل نہیں ہوگی‘۔ ریاستی سرپرستی میں اس مارچ کا اہتمام ایم کیلاوی نے کیا جوکہ باروک کہین کی زیرِقیادت ایک تنظیم ہے۔ باروک کہین ہلاک دہشتگرد ربی میئر کہین کے بیٹے ہیں۔ حیرت انگیز نہیں کہ مارچ کرنے والوں میں اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور کہانسٹ اتامار بین گویر شامل تھے جو نسل کشی کے اپنے ارادے کو چھپانے کی کوشش بھی کرتے نظر نہ آئے۔
رواں سال مارچ میں ہارٹز کی جانب سے کروائے گئے ایک پول کا نتیجہ گزشتہ ہفتے جمعرات کو سامنے آیا جس میں انکشاف ہوا کہ 82 فیصد اسرائیلی، غزہ کے مقامی شہریوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 47 فیصد کے نزدیک غزہ کے باشندوں کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر 1930ء اور 1940ء کی دہائیوں میں نازی حکمرانی میں رہنے والے لوگوں سے ان کے یہودی ہمسایوں کے بارے میں ایسے ہی سوالات پوچھے جاتے تو کیا ان کے جوابات اس سے بھی زیادہ انتہا پسند ہوسکتے تھے؟
لیکن اس معاملے کو ایک جانب کرتے ہیں کیونکہ دوسری جانب چین اور یورپی یونین پر ٹرمپ کے تجارتی محصولات، ہارورڈ یونیورسٹی اور بین الاقوامی طلبہ پر ان کے حملے، جنوبی افریقی مہمانوں سے ملاقات کے دوران ’سفید نسل کشی‘ کے بارے میں ان کے جھوٹے دعوے اور روس-یوکرین تنازع (جسے وہ حل نہیں کرسکے) کے حوالے سے ان کے مبہم بیانات ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ شاید فلسطینیوں کی ثابت شدہ نسل کشی صرف اس لیے ٹرمپ کی توجہ کی مستحق نہیں کیونکہ متاثرین سفید فام نہیں ہیں؟
اگرچہ ٹرمپ ولادیمیر پیوٹن کے اقدامات (یا ولادیمیر زیلنسکی کے بیانات) کو کنٹرول نہیں کرسکتے لیکن وہ نیتن یاہو کو یقینی طور پر نسل کشی کی مہم سے روک سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہ کرنا ان کا فیصلہ ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے دانستہ طور پر اسرائیل کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق اور اقدار کی مسلسل خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
یورپی، کینیڈین اور آسٹریلوی رہنماؤں نے حال ہی میں اسرائیلی بیانات اور اقدامات کی مذمت کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بھی کچھ بہتر نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیانات اس وقت تک کسی کی جان نہیں بچائیں گے جب تک وہ باقاعدہ اقدامات نہیں کرتے۔
نسل کش ریاست کو نہ صرف ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی جانی چاہیے جبکہ اس کے ساتھ تمام تجارت بھی بند ہونی چاہیے جس کی بڑی تجارت چین، امریکا اور یورپی یونین سے جڑی ہے۔ نازی جرمنی کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگ کی ضرورت پیش آئی تھی لیکن جنوبی افریقہ کی نسل پرست قوت کو ڈھانے کے لیے بائیکاٹ، سرمایہ کاری کی معطلی اور پابندیاں ہی کافی تھیں۔
غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے بائیکاٹ اور پابندیوں کا راستہ کافی ہوگا۔ لیکن اس راستے کا انتخاب کرکے مقصد کو پورا کرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگ جائے؟ ایسے حالات میں آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ جب یہ سب ہورہا تھا تو انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا۔
اگر کبھی غزہ میں شہید ہونے والی ماؤں اور بچوں کی مدفن ہڈیوں اور کھلے آسمان تلے پڑے جسد خاکی پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا مجسمہ کھڑا کرتے ہیں تو یہ پارسی طرز کا خاموشی کا ایک ایسا مینار ہونا چاہیے جہاں صہیونی گدھ ان باقیات کو نوچ رہے ہوں جو جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، بنیامن نیتن یاہو اور ان کے یورپی اتحادیوں کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
برطانیہ اور آئرلینڈ کے تقریباً 380 ممتاز مصنفین اور ادبی تنظیموں نے ایک مشترکہ خط کے ذریعے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ خط آن لائن پلیٹ فارم میڈیم پر شائع ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے بیان کرنے کے لیے نسل کشی جیسے الفاظ کے استعمال پر اب بین الاقوامی قانونی ماہرین یا انسانی حقوق کی تنظیموں میں کوئی اختلاف نہیں رہا۔
ادبی شخصیات نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اپنی خاموشی اور بے عملی کو ختم کرے اور غزہ میں جاری انسانی بحران کے خلاف مؤثر آواز بلند کرے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطینی کسی فرضی جنگ کے خیالی متاثرین نہیں ہیں، اکثر اوقات الفاظ کا استعمال ناقابلِ جواز کو جواز دینے، ناقابلِ انکار کو انکار کرنے اور ناقابلِ دفاع کو دفاع کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
مصنفین نے زور دیا کہ اگر اسرائیل جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام رہتا ہے تو اس پر بین الاقوامی سطح پر پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔
خط میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ موقف کسی بھی قسم کی یہود دشمنی یا اسرائیلی عوام کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔
اس خط پر دستخط کرنے والوں میں معروف ناول نگار زیدی اسمتھ، ایان میک ایون، حنیف قریشی، اور ایلیف شفق جیسی شخصیات شامل ہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 53 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسی نوعیت کا ایک اور خط فرانسیسی زبان کے 300 ادیبوں نے بھی جاری کیا، جن میں نوبل انعام یافتہ ادیب اینی ایرناکس اور جین میری گوسٹاو لی کلیزیو شامل تھے، انہوں نے بھی غزہ میں نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے اسی طرح کے بیان پر دستخط کیے۔
علاوہ ازیں، برطانیہ میں مقیم 800 سے زائد قانونی ماہرین، جن میں سپریم کورٹ کے سابق جج بھی شامل تھے، نے وزیر اعظم کیئر سٹارمر کو خط لکھا، خط میں کہا گیا کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے یا کم از کم، نسل کشی کا سنگین خطرہ موجود ہے۔
اسی ہفتے فرانسیسی کارکنوں نے بدھ کے روز غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے خلاف پیرس کے ایک مشہور فوارے ’فاؤنٹین ڈیس انوسنٹ‘ کو سرخ رنگ میں رنگ دیا۔
آکسفیم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کارکنوں نے یہ مظاہرہ کیا، جبکہ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی تھے جن پر لکھا تھاکہ جنگ بندی کرو اور غزہ میں خون کی ہولی بند کرو۔
کارکنان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا مقصد غزہ کے لوگوں کو درپیش انسانی ہنگامی صورتحال کے حوالے سے فرانس کے سست ردعمل کی مذمت کرنا ہے۔
آکسفیم فرانس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیسیل ڈوفلوٹ نے کہا کہ فرانس کو محض زبانی مذمت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، غزہ کے عوام کو بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا ہے، یہ اُن کی بقا کا معاملہ ہے۔
دوسری بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، تاہم اسرائیل ان الزامات کو مسلسل مسترد کررہا ہے۔
غزہ میں آج صبح سے اب تک اسرائیل کی فورسز کے تازہ حملوں میں کم از کم 30 فلسطینی شہید ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ شہدا میں شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ کے کنڈر گارٹن میں پناہ لیے ہوئے 7 افراد بھی شامل ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ کم از کم 19 افراد وسطی غزہ کے البریج پناہ گزین کیمپ میں رہائشی عمارتوں پر اسرائیلی حملوں کے ایک سلسلے میں شہید ہوئے۔
غزہ کی حکومت کے میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 روز کے دوران اسرائیلی فورسز نے جنوبی غزہ میں امداد لینے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کی، جس سے کم از کم 10 فلسطینی شہید ہوگئے۔
دوسری جانب ہزاروں بھوکے فلسطینی اقوام متحدہ کے خوراک کے گودام پر جمع ہوگئے، اور امداد خود اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی، اس دوران وہاں بھگدڑ مچ گئی، جس سے درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔
غزہ میں منگل اور بدھ کو 840 ہزار سے زائد لوگوں کو خوراک فراہم کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ اسرائیل مستقبل قریب کے لیے اقوام متحدہ اور امریکا کے حمایت یافتہ نجی ادارے اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے ذریعے امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دے گا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اپنی انا چھوڑ کر نئے نظام کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
تاہم، اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نجی امدادی منصوبہ غیر جانبدار نہیں ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے سینئر امدادی اہلکار جوناتھن وِٹال نے یروشلم میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیا نظام نگرانی پر مبنی تقسیم ہے، جو جان بوجھ کر محرومی کی پالیسی کو جائز ٹھہراتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اس اسکیم میں شرکت سے انکار کیا ہے، یہ لاجسٹک طور پر ناقابل عمل ہے اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے، کیونکہ اس میں امداد کو اسرائیل کی غزہ کے علاقوں کو خالی کرانے کی وسیع تر کوششوں کے ’ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر غزہ میں حماس کے سربراہ محمد سنوار کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے، حماس نے تاحال محمد سنوار کی شہادت کی تصدیق نہیں کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پارلیمنٹ سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے سربراہ محمد سنوار ، جو اکتوبر 2023 کے حملے کے ماسٹر مائنڈ اور شہید رہنما یحییٰ سنوار کے چھوٹے بھائی تھے، مارے جا چکے ہیں۔
محمد سنوار رواں مہینے کے آغاز میں جنوبی غزہ کے ایک ہسپتال پر اسرائیلی حملے کا ہدف تھے اور نیتن یاہو نے 21 مئی کو کہا تھا کہ غالب امکان ہے وہ شہید ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ سعودی میڈیا نے بھی اسرائیلی حملے میں محمد سنوار کی شہادت کا دعویٰ کیا تھا تاہم حماس نے گزشتہ ہفتے محمد سنوار کی شہادت کی تردید کردی تھی۔
بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد سنوار کو ختم کر دیا گیا ہے، اس موقع پر انہوں نے گزشتہ 20 مہینوں کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں شہید کیے گئے حماس کے دیگر رہنماؤں کے نام بھی گنوائے جن میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دنوں میں ہم حماس کی مکمل شکست کی طرف ایک ڈرامائی موڑ پر ہیں اور مزید کہا کہ اسرائیل اب خوراک کی تقسیم پر بھی کنٹرول حاصل کر رہا ہے، ان کا اشارہ غزہ میں امریکی حمایت یافتہ گروپ کے زیرانتظام امداد کی تقسیم کے نئے نظام کی جانب تھا، حماس نے تاحال محمد سنوار کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج نے مارچ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ توڑنے کے بعد غزہ میں اپنے جارحانہ حملوں کو تیز کر دیا تھا، اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حماس کی حکومتی اور عسکری صلاحیتوں کو ختم کرنا اور غزہ میں قید یرغمالیوں کو بازیاب کرانا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد سے جاری وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 53 ہزار سے زائد افراد شہید اور 20 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔
یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد محمد سنوار کو گزشتہ سال حماس میں اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا تھا، یحییٰ سنوار نے اکتوبر 2023 کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اسرائیل کی جانب سے اسمٰعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کیے جانے کے بعد انہیں حماس کا مجموعی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا وقت آچکا ہے، غزہ میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور سفیر عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے،غزہ کی تباہی کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ اس کا ذمے دار اسرائیل ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا وقت آچکا ہے، ہمیں مظالم کو معمول نہیں بننے دینا چاہیے۔
انہوں نےمزید کہا کہ غزہ میں پورے طبی نظام کو منصوبے کے تحت تباہ کردیا گیا ہے، اور غزہ کی 100سے زائدطبی سہولیات پر حملے کیے گئے اور طبی اہلکاروں کو قتل اور ایمبولینوں کو تباہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں غذائی قلت سے 57 بچے جان دے چکے ہیں اور ہر پانچ میں سے ایک شہری کو بھوک سے موت کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فلسطینیوں کی شہادتیں 54 ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی بمباری سے غزہ میں 81 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ اسکول پر بمباری کے نتیجے میں کئی بچے زندہ جل گئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ پیر کی صبح سے اسرائیلی حملوں میں غزہ بھر میں کم از کم 81 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 53 صرف غزہ شہر میں جان کی بازی ہارگئے، اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز غزہ کے اسکول پر بھی بمباری کی، جس کے نتیجے میں کئی بچے زندہ جل گئے۔
الجزیرہ کے نمائندے نے واشنگٹن ڈی سی سے اطلاع دی ہے کہ جنگ بندی کے حوالے سے مختلف پیغامات اور قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں، یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب اطلاعات ہیں کہ فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ کے لیے امریکی جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر ایک شہری تکلیف میں مبتلا ہے، اسرائیل کی جانب سے امداد کی بندش اور حملوں کی شدت میں اضافے کے باعث غزہ کے ہسپتالوں میں طبی سامان ختم ہو چکا ہے اور زخمیوں کی حالت ’خوفناک‘ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک کم از کم 53 ہزار 977 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 22 ہزار 966 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومت کے میڈیا دفتر نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے لاپتا ہیں اور انہیں مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
دائیں بازو کے سرگرم کارکن اسرائیل کی اشدود بندرگاہ پر جمع ہوئے جو غزہ کی پٹی سے تقریباً 30 کلومیٹر (18 میل) کے فاصلے پر واقع ہے، تاکہ محصور علاقے کے لیے بھیجی جانے والی امداد کو روکا جا سکے۔
اسرائیلی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کے مطابق مظاہرین نے بندرگاہ کے دروازے سے نکلنے والے ٹرکوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کا راستہ روکا، جب کہ اسرائیلی پولیس فورسز نے مظاہرین کو ٹرکوں کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔
اسی طرح کے ایک احتجاج میں انتہا پسند اسرائیلی وزیر بن گویر نے بھی شرکت کی، اور مظاہرین کو اکسایا کہ امداد کسی صورت غزہ نہ جانے دی جائے۔
اسرائیل کے جرمنی میں تعینات سفیر رون پروسور نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت غزہ میں جاری مہم پر جرمنی کی تنقید کو سنجیدہ لے رہی ہے۔
یہ بیان جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اب مزید حماس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز پیش نہیں کر سکتیں۔
رپورٹ کے مطابق پروسور نے کہا کہ جب فریڈرک مرز اسرائیل پر یہ تنقید کرتے ہیں تو ہم بہت غور سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔
800 سے زائد وکلا نے کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنا قانونی طور پر لازم ہوچکا ہے۔
کھلے خط میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے حوالے سے برطانوی حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس پر 823 قانونی ماہرین نے دستخط کیے ہیں، جن میں 11 سابق جج درجنوں وکلا اور قانونی ماہرین شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کو ان اسرائیلی وزرا اور دیگر سول و فوجی اہلکاروں پر مالی اور امیگریشن پابندیاں عائد کرنی چاہئیں جن پر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہونے کا معقول شک ہو۔
خط میں برطانوی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ موجودہ تجارتی تعلقات کا جائزہ لے اور اس بات کی تصدیق کرے کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے گرفتاری وارنٹ (جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق ہوں) پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
برطانیہ کے اسرائیل میں تجارتی ایلچی ایان آسٹن نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ اس وقت اسرائیل میں موجود ہیں تاکہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے کاروباری شخصیات اور حکام سے ملاقاتیں کریں۔
ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک ہفتہ قبل برطانوی حکومت نے غزہ پر جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی اقدامات کے پیشِ نظر اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل اسرائیل میں برطانوی سفارتخانے کی ایک پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ایان آسٹن کے پیر کے روز کے شیڈول میں اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ٹیکنیون) اور ایک جدید کسٹمز اسکیننگ سینٹر کا دورہ شامل تھا۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی معیشت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں پر آزمائے گئے نگرانی کے آلات اور ہتھیار دنیا بھر کے ممالک کو فروخت کر کے فائدہ اٹھاتی ہے۔
ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز پر اتفاق کیا ہے، تاہم اسرائیلی حکام نے اس تجویز کو واشنگٹن کی قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اسرائیلی حکومت اسے قبول نہیں کر سکتی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسٹیو وٹکوف نے بھی اسے مسترد کر دیا کہ حماس نے غزہ میں یرغمالیوں کے معاہدے اور جنگ بندی کے لیے ان کی پیشکش کو قبول کر لیا، ان کا کہنا تھاکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے اور یہ ان کی پیش کردہ تجویز سے مختلف ہے۔
حماس کے قریب فلسطینی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ حماس کو ثالثوں کے ذریعے موصول پیشکش میں 10 یرغمالیوں کی رہائی اور 70 روزہ جنگ بندی شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس تجویز میں 70 دن کی جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے جزوی انخلا کے بدلے میں 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
اس میں اسرائیل کی طرف سے متعدد فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جن میں سیکڑوں طویل قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ذمہ دار حکومت اس طرح کے معاہدے کو قبول نہیں کر سکتی اور اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ معاہدہ اسٹیو وٹکوف کی تجویز کردہ پیش کش سے مماثلت رکھا ہے۔
بعد ازاں، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ انہیں ’بہت امید ہے‘ کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی لڑائی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے آج پیش رفت ہوگی اور اگر آج نہیں تو کل ہوگی۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے فوری طور پر ویڈیو کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ 18 مارچ کو اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنوری کے جنگ بندی کے معاہدے کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا تھا اور غزہ میں حملے شروع کر دیے تھے۔
حماس نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ سے مکمل طور پر انخلا کرتا ہے اور مستقل جنگ بندی پر راضی ہوتا ہے تو وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے صرف عارضی جنگ بندی پر راضی ہو گا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ جنگ صرف حماس کے خاتمے کے بعد ہی ختم ہو سکتی ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 54 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ساحلی پٹی کو تباہ کر دیا گیا ہے، امدادی گروپوں کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ سہ ملکی دورے کے دوران بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو دورے سے قبل یا مشرقِ وسطیٰ میں کیے گئے اپنے فیصلوں میں دیوار سے لگایا۔ اور ایسا کرنے کی ان کے پاس معقول وجہ تھی۔
ٹرمپ نے جو اقدامات کیے، انہوں نے یقینی طور پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو پریشان کیا۔ واشنگٹن نے شام پر سے پابندیاں اٹھا لیں اور ٹرمپ نے ریاض میں شامی صدر احمد الشراع سے ملاقات بھی کی جس موقع پر انہوں نے ایک ایسے شخص کی تعریف کی جس کے سر پر امریکا نے انعام رکھا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی بھی تعریف کی جوکہ اسرائیل کے ایک اور مخالف ہیں۔ انہی کے مشورے پر امریکی صدر نے شام پر سے پابندی اٹھائیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو نے ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پابندیاں ختم نہ کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی بھی کی جس کے ساتھ ہی دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی حملے روکنے پر اتفاق کیا۔ اس معاملے میں بھی اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا۔ ٹرمپ نے امریکا اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں غزہ میں آخری امریکی یرغمالی کی رہائی کو بھی یقینی بنایا۔ لیکن تل ابیب کو سب سے زیادہ جس امر نے پریشان کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران سے براہ راست جوہری مذاکرات کرنا ہے جس کی اسرائیل سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے۔
یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کو ’نئی‘ انٹیلی جنسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نتائج کی پروا کیے بغیر ایسا کرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں اور نیتن یاہو کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا بالخصوص اب کہ جب حال ہی میں ٹرمپ نے ٹیلی فونک گفتگو میں نیتن یاہو سے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے لیے لکھتے ہوئے کم گٹاس کہتی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ’اسرائیل کو حیرت میں مبتلا کررہے ہیں کہ وہ اسے معاہدوں سے الگ کررہے ہیں‘۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے لیکن ’اسرائیل اور امریکا کے درمیان دہائیوں پرانا اتحاد قائم رہے گا‘۔ دیگر مبصرین نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ٹرمپ کے دورے کے دوران محض ایک ’تماشائی‘ کے طور پر دیکھا کیونکہ امریکی صدر اسرائیل کے دشمنوں کے قریب ہوگئے ہیں۔
اس سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام ہیں یا وہ اسے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ طویل عرصے سے تنازع کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا تھا کہ بنیامن نیتن یاہو اگر جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس میں تنہا ہوں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور انسانی امداد کی بندش کو جاری رکھا ہے۔
روزانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے جبکہ نیتن یاہو نے ’حماس کو ہمیشہ کے لیے تباہ‘ کرنے کے لیے پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل کے آپریشن ’گیدیئن چیرٹس‘ (Gideon’s Chariots) کو انجام دینے کے لیے جنوبی اور شمالی غزہ میں اضافی فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کی چھتوں سے جبراً محروم کیاجارہا ہے۔ فلسطینیوں کی بے دخلی ہمیشہ سے بنیامن نیتن یاہو کا مقصد رہا ہے۔
اس سب نے تباہ کُن صورت حال کو جنم دیا ہے جبکہ انسانی بحران کو سنگین تر بنادیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی سطح پر اضطراب پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سنگین صورت حال کو ’ناقابلِ بیان، ظالمانہ اور غیر انسانی‘ قرار دیا ہے۔ امداد کی بندش ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، غزہ کی ’پوری آبادی کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے‘۔
حتیٰ کہ اسرائیل کے قریبی مغربی اتحادیوں نے بھی تل ابیب کے خلاف آواز اٹھائی ہیں۔ مشترکہ بیان میں فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے کارروائیاں اور امداد کی پابندیاں ختم نہیں کیں تو اس کے خلاف ’ٹھوس اقدامات‘ کیے جائیں گے جن میں پابندیاں لگائے جانے کا امکان بھی شامل ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کرے گا جبکہ اسپین جیسے ممالک نے عالمی برادری سے پابندیوں سمیت سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
23 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل سے غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ لوگوں کو ’فاقہ کشی‘ کا سامنا ہے۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ میں کچھ امداد سامان کی ترسیل کی اجازت دی لیکن عالمی برادری نے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ردعمل میں کہا، ’یہ اشتعال انگیز اور اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے کہ نسل کشی کے دوران، بھوک اور ظلم کے تقریباً 80 دنوں کے بعد دنیا نے مکمل محاصرے کو تھوڑا سا کم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جس نے خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر تمام اشیا کے داخلے کو مکمل بند کیا ہوا ہے‘۔
دوسری جانب دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی کوششیں کسی نتیجہ خیز سمت کی جانب جاتی نظر نہیں آرہیں۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ پیش رفت نہ ہونے پر اضطراب کا شکار ہے لیکن پھر بھی وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے رواں ماہ اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ لیا۔ اگرچہ اسرائیلی جارحیت کے باوجود بھی بات چیت جاری رہی لیکن نیتن یاہو نے معاہدے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔ انہوں نے مارچ میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے کو توڑا اور بار بار اعلان کیا کہ وہ تب تک جنگ ختم نہیں کریں گے کہ جب تک انہیں حماس کے خلاف ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں ہوجاتی۔
ان حملوں میں غزہ نے زیادہ خونریزی، نقل مکانی اور تباہی کا سامنا کیا۔ غزہ تک امداد پہنچانے کا امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی منصوبہ بہت متنازعہ ہے۔ اس میں چند اہم امدادی مراکز کا قیام شامل ہے جہاں لوگوں کو مدد حاصل کرنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ ان مراکز کی حفاظت فوجی اور نجی مسلح سیکورٹی فورسز کریں گی۔
سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن، ان مراکز کا انتظام سنبھالے گی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبے کو مزید نقل مکانی کی ایک حکمت عملی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ امدادی اہلکار نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبے میں لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فاقہ کشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امداد کی بندش کو عسکریت پسندی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد، انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموترخ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کا مقصد ’غزہ کی پٹی میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا ہے‘ اور آبادی کو ’جنگی علاقوں‘ سے باہر دھکیلنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’آبادی پٹی کے جنوب میں پہنچ جائے گی، اور (پھر) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی تیسرے ممالک میں چلے جائیں گے‘۔
نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ٹرمپ کے غزہ سے باہر آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوجائے گا تو وہ جنگ ختم کردیں گے۔
اب یہ واشنگٹن کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کرے کہ آیا اسرائیل واقعی ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو اس سے اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ پڑے گا۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس سے امریکی صدر کے امن پسند تشخص کو نقصان پہنچے گا جس کے فروغ کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
یورپی ملک مالٹا نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔
ٹائمز آف مالٹا کی رپورٹ کے مطابق موسٹا میں ایک سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رابرٹ ابیلا نے کہا کہ 45 سالہ طویل بحث کے بعد اب ان کی حکومت وہ پہلی حکومت ہوگی جو فلسطینی ریاست کو رسمی طور پر تسلیم کرے گی۔
اگرچہ مالٹا پہلے ہی فلسطینی ریاست کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے اور وہاں ایک فلسطینی سفیر بھی موجود ہے، تاہم اسے آج تک رسمی اور قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
رابرٹ ابیلا نے اشارہ دیا کہ یہ پیشرفت 20 جون کو ہوگی، جو اقوام متحدہ کی ایک مجوزہ کانفرنس کی تاریخ ہے۔
وزیر خارجہ ایان بورگ نے ہفتے کے روز عندیہ دیا تھا کہ مالٹا اور چند دیگر ممالک 20 جون کی کانفرنس کے دوران مشترکہ طور پر فلسطین کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مالٹا ان انسانی سانحات سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا، انہوں نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بننے والے النجار خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو مالٹا میں پناہ دی جائے گی۔
غزہ کے محکمہ شہری دفاع کے مطابق جمعے کو غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں ڈاکٹر میاں بیوی کے گھر پر فضائی حملے میں ڈاکٹر میاں بیوی حمدی النجار اور ان کی اہلیہ علاالنجار کے 9 بچے شہید ہوئے جبکہ حمدی اور ان کا ایک اور بیٹا آدم اس حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے متاثرہ فلسطینی خاندان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مالٹا آپ اور آپ کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور آپ کے ساتھ اپنے شہریوں جیسا سلوک کرے گا‘۔
اسپین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو غزہ میں جاری تنازع کو روکنے کے لیے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
یہ بات انہوں نے اتوار کو میڈرڈ میں یورپی اور عرب ممالک کے اجلاس سے قبل کہی، اس اجلاس کا مقصد اسرائیلی حملے کو روکنے کی اپیل کرنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وہ ممالک جنہیں اسرائیل طویل عرصے سے اپنا اتحادی سمجھتا رہا ہے، اب حماس کے خلاف کارروائی میں اضافے کے بعد بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کرنے والی آوازوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
اسپین کے وزیر خارجہ جوزے مانوئل آلباریس نے ’فرانس انفو ریڈیو‘ کو بتایا کہ میڈرڈ 20 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی میزبانی کر رہا ہے، جس کا مقصد اس جنگ کو روکنا ہے جس کا اب کوئی مقصد باقی نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی امداد کو بڑے پیمانے پر بغیر کسی رکاوٹ کے اور غیر جانبدار طریقے سے غزہ میں داخل ہونا چاہیے، تاکہ یہ فیصلہ اسرائیل نہ کرے کہ کون خوراک کھا سکتا ہے اور کون نہیں۔
اس اجلاس میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے نمائندے بھی شریک ہیں، اور اس کا مقصد اسرائیلی-فلسطینی تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل کو فروغ دینا ہے۔
گزشتہ سال میڈرڈ میں ہونے والے اسی نوعیت کے ایک اجلاس میں مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور ترکیہ جیسے ممالک کے علاوہ یورپی ممالک جیسے آئرلینڈ اور ناروے بھی شامل تھے، جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔
پاکستان نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عربوں کے مجوزہ منصوبے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کی ’رپورٹ‘ کے مطابق نیویارک میں جون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں منعقدہ سفیروں کے ایک اجلاس میں پاکستان نے اس تنازع کی بنیادی وجہ یعنی اسرائیل کے طویل قبضے کو ختم کرنے پر زور دیا، آئندہ ماہ ہونے والے اجلاس کا مقصد اسرائیل-فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے عالمی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور سفیر عاصم افتخار احمد نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف قبضے کے خاتمے سے ہی ایک منصفانہ اور پائیدار امن ممکن ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس بروقت بھی ہے اور ناگزیر بھی، عاصم افتخار نے فلسطینی عوام کی مسلسل تکالیف، غزہ میں جاری انسانی المیے اور قابض طاقت کی جانب سے غیر قانونی بستیوں اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے دو ریاستی حل کو منظم انداز میں سبوتاژ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سب اقدامات کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری مضبوط ردعمل دے۔
یہ کانفرنس اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں 17 سے 20 جون تک منعقد ہوگی، یہ کانفرنس دسمبر 2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی ایک قرارداد کے تحت منعقد کی جا رہی ہے اور اس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس کریں گے۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جون کی اس کانفرنس سے قبل ضروری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی بحال اور مکمل طور پر نافذ کی جائے، ناکہ بندی ختم کی جائے، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی ، بشمول اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین (انروا) کے ذریعے، کو یقینی بنایا جائے اور عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی، زمینوں کے انضمام، یا عسکری امدادی نظام مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کو قطعی طور پر مسترد کیا جانا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو محفوظ رکھنے کے لیےاس کانفرنس کو دیگر اقدامات پر بھی عمل کرنا ہوگا، انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عمل درآمد کو فروغ دینے اور اس کی نگرانی کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کیا جائے، جن میں غیر قانونی بستیوں کی مذمت کی گئی ہے، فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دلانے کی کوششوں کو تقویت دی جائے، او آئی سی اور عرب گروپ کی جانب سے منظور کردہ غزہ تعمیر نو منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے منصوبے، جیسا کہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان ٹرانزٹ کوریڈور، سمندری بندرگاہ کی دوبارہ تعمیر، اور صنعتی زونز کا قیام، علاقائی تسلسل اور فلسطینی وحدت کے لیے نہایت اہم ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر فلسطینی مسئلے کے ایک منصفانہ، دیرپا اور جامع حل کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا، جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں، 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو اور القدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے۔
انہوں نے مندوبین سے کہا کہ یہ کانفرنس ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہونی چاہیے اور اس کے ٹھوس نتائج برآمد ہونے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اس کانفرنس کی مکمل حمایت کے لیے تیار ہے اور ایک قابلِ بھروسہ سیاسی افق کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے گا، جو دو ریاستی حل پر مبنی ہو، ایسا حل جو فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرے، قبضے کا خاتمہ کرے اور ایک قابلِ عمل، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے پائیدار امن کی راہ ہموار کرے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔
قبل ازیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلمن یانگ نے ممالک پر زور دیا کہ وہ اس نازک موقعے سے فائدہ اٹھائیں تاکہ بالآخر کوئی پیشرفت ممکن بنائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم گزشتہ 19 ماہ سے غزہ میں جو ہولناک مناظر دیکھ رہے ہیں، وہ ہمیں فوری کارروائی پر مجبور کرتے ہیں تاکہ اسرائیل-فلسطین تنازع کا خاتمہ ہو, تباہ کن ہلاکتیں، بربادی اور نقل مکانی کا سلسلہ مزید جاری نہیں رہنا چاہیے۔“
انہوں نے کہا ’یہ تنازع مستقل جنگ، نہ ختم ہونے والے قبضے یا انضمام سے حل نہیں ہو سکتا. اس کا اختتام اسی وقت ممکن ہے جب اسرائیلی اور فلسطینی اپنی اپنی خودمختار، آزاد ریاستوں میں امن، سلامتی اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں‘۔
غزہ میں اسرائیلی حملے میں خاتون ڈاکٹر کے 10 میں سے 9 بچے شہید جبکہ ان کے شوہر اور ایک بیٹا زخمی ہوگیا، حملے کے وقت ڈاکٹر علا النجار نصر ہسپتال میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھی، اسرائیلی حملوں میں گزشتہ روز 52 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ 4 سالہ بچہ بھوک سے جاں بحق ہوگیا۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے صحت حکام نے بتایا ہے کہ ایک اسرائیلی حملے میں خان یونس کی ایک ڈاکٹر کے تقریباً پورے خاندان کو اُس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔
ہسپتال کے شعبہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرّا کے مطابق جمعے کے روز یہ حملہ جنوبی شہر کے نصر اسپتال کی ماہر اطفال ڈاکٹر علا النجار کے گھر پر ہوا، جس سے گھر میں آگ لگ گئی اور ان کے 10 میں سے 9 بچے شہید ہو گئے، ۔
غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق جاں بحق بچوں کی عمریں 7 ماہ سے لے کر 12 سال تک تھیں، جن میں سے 2 اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان بچوں کے نام سدار، لقمان، سدین، ریوال، رُسلان، جُبران، ایو، راکان اور یحییٰ بتائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر احمد الفرّا نے الجزیرہ کو بتایا کہ ڈاکٹر علا النجار کے شوہر اس حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں، ان کے سینے اور سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں، جن میں کھوپڑی کا فریکچر بھی شامل ہے، اور وہ اس وقت نصر اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں زیرِ علاج ہیں۔
اس جوڑے کا واحد زندہ بچ جانے والا بچہ 11 سالہ آدم بھی شدید زخمی ہے۔ ڈاکٹر الفرّا کے مطابق وہ اس وقت ’درمیانی نوعیت کے آئی سی یو ڈیپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کے ساتھ‘ ہے۔
ڈاکٹر الفرّا نے حملے کے اثرات کے بارے میں کہا کہ ’یہ ناقابلِ یقین ہے، آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر علا النجار پر یہ خبر سن کر کیا گزر رہی ہو گی، لیکن اب تک وہ اپنے بیٹے اور شوہر کے قریب رہنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وہ زندہ بچ سکیں‘۔
انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کی کہ ’وہ انسانیت کے صحیح رخ پر کھڑے ہوں اور اس بمباری کے خلاف آواز بلند کریں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ بچے، ان کی کوئی آواز نہیں ہے، ان کی ماں صدمے میں ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ’براہِ کرم، میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس دنیا میں اُس ماں کی آواز بنیں‘۔
اقوامِ متحدہ کی فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی نمائندہ فرانچسکا البانیزے نے النجار خاندان کے گھر پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک سفاکانہ طرزِ عمل اور محصور غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش نسل کشی کے ایک نئے مرحلے کا حصہ قرار دیا۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت جان بوجھ کر طبی عملے، عام شہریوں اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ ان کا حوصلہ توڑا جا سکے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے ایک ایسی عمارت کو نشانہ بنایا جہاں مشتبہ جنگجو اس کی افواج کے قریب سے کارروائی کر رہے تھے، اور یہ علاقہ ان افراد کے لیے مخصوص تھا جنہیں پہلے ہی وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ فوج نے مزید کہا کہ غیر متعلقہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کے دعوے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے پیر کو غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس سے جبری انخلا کے احکامات جاری کیے تھے اور ایک بڑے حملے کی وارننگ دی تھی، اس علاقے میں روزانہ شدید اور مہلک بمباری جاری ہے۔
النجار خاندان کے بچے ان درجنوں افراد میں شامل تھے جو جمعہ اور ہفتے کو اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔
دریں اثنا، الجزیرہ نے وفا نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ گزشتہ روز غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 52 فلسطینی شہید ہو گئے۔
ایک حالیہ حملے میں، شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ النزلہ میں اسرائیلی افواج نے ایک گھر پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے، الجزیرہ کے مطابق۔
کئی افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب جنوبی شہر خان یونس میں شدید فائرنگ اور توپ خانے کے حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 53,901 ہو چکی ہے جبکہ 122,593 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا، غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیلی محاصرے کے باعث خوراک، پانی اور دیگر امداد کی بندش کے نتیجے میں غزہ شہر میں ایک 4 سالہ بچہ محمد یاسین، بھوک سے شہید ہوگیا۔
محمود بصل نے کہا کہ یہ پہلا بچہ نہیں ہے جو غزہ میں بھوک کے باعث جان سے گیا ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خوراک اور پانی کو غزہ کے عوام تک پہنچنے کی اجازت نہ دی گئی، تو ہم ان بچوں کی مزید ہلاکتوں کے گواہ بنیں گے، ہم مزید اموات دیکھیں گے۔
بصل نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس اذیت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
اسرائیل نے غزہ میں بمباری کرکے مزید 93 فلسطینیوں کو شہید کردیا، مغربی کنارے کا دورہ کرنے والے سفارت کاروں پر بھی گولیاں چلادیں، یہودی آباد کاروں نے فلسطین کے گاؤں پر حملہ کرکے آگ لگادی، مسجد کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے کے بعد زخمی بچوں کو قریبی ہسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے، جابلیہ میں النضر خاندان کے ایک گھر کو نشانہ بناتے ہوئے کیے گئے حملے میں 4 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ بدھ کی صبح سے اب تک اسرائیلی حملوں میں غزہ کی پٹی میں کم از کم 93 افراد شہید ہو چکے۔
اسرائیلی بربریت کیخلاف عالمی سطح پر مذمت میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں واقع جنین پناہ گزین کیمپ کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں پر ’خبردار‘ کرنے کے لیے فائرنگ کی۔
اقوام متحدہ کے ترجمانِ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جو تھوڑی بہت انسانی امداد پہنچ رہی ہے، وہ اس جنگ زدہ علاقے کی بھوک میں مبتلا آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ’قطعی ناکافی‘ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 53 ہزار 655 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 22 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ قرار دیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے دوران اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی آبادکاروں نے نابلس کے قریب گاؤں پر دھاوا بول دیا، اور آگ لگادی، اس دوران مسجد کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود فلسطینی کارکن ایہاب حسن کے مطابق اسرائیلی آبادکاروں نے نابلس کے جنوب مشرق میں واقع عقربا گاؤں پر دھاوا بولا اور فلسطینیوں کی املاک پر حملے شروع کردیے۔
ایہاب حسن نے بتایا کہ آبادکاروں نے ایک فلسطینی کی گاڑی کو آگ لگا دی، اور نمازیوں کی موجودگی میں ہی مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی، انہوں نے اس عمل کو ’لوگوں کو زندہ جلانے کی واضح کوشش‘ قرار دیا۔
دوسری جانب عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ 100 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی بندش کے باعث اسرائیل کو متعدد ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
برطانیہ نے اسرائیل سے ازادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روک دی تھی، جب کہ یورپی یونین نے بھی اسرائیل سے ازادانہ تجارتی معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ضرورت مند افراد تک کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔
امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں فائرنگ سے اسرائیلی سفارتی عملےکے 2 ارکان ہلاک ہوگئے، امریکی سیکیورٹی چیف نے اسرائیلی سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کردی، پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا، جس نے گرفتاری کے بعد ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگائے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی رات واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل یہودی میوزیم میں منعقدہ ایک تقریب کے باہر فائرنگ کے واقعے میں اسرائیلی سفارت خانے کے عملے کے 2 ارکان ہلاک ہو گئے جبکہ حکام و میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایک مرد اور ایک خاتون کو تھرڈ اور ایف اسٹریٹس، نارتھ ویسٹ کے علاقے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا، یہ علاقہ یہودی میوزیم، ایف بی آئی فیلڈ آفس اور امریکی اٹارنی آفس کے قریب واقع ہے۔
واشنگٹن پولیس چیف پامیلا اسمتھ نے بتایا کہ تقریب سے پہلے میوزیم کے باہر ایک شخص چہل قدمی کررہا تھا، وہ 4 افراد کے گروپ کے قریب آیا اور مذکورہ 2 افراد پر فائرنگ کردی اور پھر میوزیم میں داخل ہوگیا، جسے تقریب کی سیکیورٹی نے حراست میں لے لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہتھکڑی لگائے جانے کے بعد مشتبہ شخص نے واردات میں استعمال ہونے والے اسلحے کی نشاندہی کردی جس کے بعد وہ پستول برآمد کرلیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ملزم حراست میں ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مشتبہ شخص کی شناخت 30 ایلیئس روڈری گوئیز کے نام سے ہوئی ہے، ریاست شکاگو کے شہر ایلانوئے کا رہائشی ہے۔
واقعےکے بعد سامنے آنے والی وڈیو میں مشتبہ شخص کو حراست میں لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس نے سیاہ پینٹ کوٹ اور سفید شرٹ زیب تن کررکھی ہے جبکہ وہ ’ فری فری فلسطین’ کے نعرے لگارہا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا دل متاثرہ خاندانوں کے لیے دکھی ہے، جن کی زندگیاں ایک سفاک اور یہود مخالف قاتل کے ہاتھوں ختم ہو گئیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہود دشمنی اور ریاستِ اسرائیل کے خلاف شدید اشتعال انگیزی کی ایک بھیانک قیمت دیکھ رہے ہیں، اسرائیل کے خلاف لگائے جانے والے خون کے الزامات خون میں ڈوب رہے ہیں، اور ہمیں ان کے خلاف آخری حد تک لڑنا ہوگا۔
اس سے قبل اسرائیلی سفارتخانے نے متاثرین کی تصویر جاری کی تھی، اب اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے ان کے مکمل ناموں کی تصدیق کی ہے، جو کہ یارون لیشنسکی اور سارہ لن ملگرِم ہیں۔
واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے ترجمان تل نائیم کوہن ہیں نے بتایا کہ سفارت خانے کے عملے کے 2 افراد کو میوزیم میں ایک یہودی تقریب کے دوران قریب سے گولی ماری گئی۔
اسرائیلی سفارت خانے نے حملہ آور، متاثرین یا حملے کے محرک کے بارے میں سوالات کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
امریکی سیکیورٹی چیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوئے، دونوں اسرائیلی سفارت خانے کے عملے کے رکن تھے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈائریکٹر کرسٹی نوم نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’ ہم اس واقعے کی فعال طور پر تحقیقات کر رہے ہیں اور مزید معلومات حاصل کرنے اور شیئر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اس گھناؤنے مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے’۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے کہا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اس فائرنگ کے واقعے پر بریفنگ دی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل پم بانڈی اور واشنگٹن ڈی سی کے لیے امریکی اٹارنی جینین پیرو فائرنگ کی جگہ پر موجود تھیں۔
اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے اس واقعے کو یہود مخالف دہشت گردی کا ایک گھناؤنا عمل قرار دیا۔
سفیر ڈینی ڈینون نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ سفارتکاروں اور یہودی برادری کو نشانہ بنانا ایک سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے، ہمیں یقین ہے کہ امریکی حکام اس مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ سفارتی عملے کے 2 افراد کو میوزیم کی تقریب کے دوران قریب سے گولی ماری گئی۔
ترجمان تال نائیم کوہن نے کہا کہ ’ہم مقامی اور وفاقی دونوں سطحوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ حملہ آور کو گرفتار کریں گے اور امریکا بھر میں اسرائیلی نمائندوں اور یہودی برادریوں کی حفاظت کریں گے‘۔
امریکی میڈیا کے مطابق فائرنگ کے وقت اسرائیل کے سفیر میوزیم کی تقریب میں موجود نہیں تھے۔
سی بی ایس کے ذرائع کے مطابق مشتبہ شخص گھنی مونچھوں والا ایک مرد ہے جو نیلی جینز اور نیلی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔
امریکن جیوش کمیٹی (اے جے سی) کے سی ای او ٹیڈ ڈوئچ نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ ان کی تنظیم کے زیراہتمام تقریب کے باہر حملہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس ناقابلِ بیان پرتشدد واقعے پر شدید غمزدہ ہیں، اس وقت، جب ہم پولیس سے مزید معلومات کے منتظر ہیں کہ اصل میں کیا ہوا، ہماری تمام تر توجہ اور ہمدردیاں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔“
اسرائیل میں امریکا کے سفیر مائیک ہکابی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے اس حملے کو دہشت کی ایک ہولناک کارروائی قرار دیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے اس کے نیوز پارٹنر سی بی ایس کو بتایا کہ ایک مرد اور ایک خاتون کیپیٹل یہودی میوزیم میں ایک تقریب سے باہر نکلتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بنے اور ابتدائی معلومات کے مطابق یہ واقعہ جان بوجھ کر کیا گیا حملہ معلوم ہوتا ہے۔
فائرنگ کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجکر 5 منٹ پر تھرڈ اور ایف اسٹریٹس کے قریب پیش آیا، رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے وقت اسرائیلی سفارت خانے کے متعدد ملازمین مذکورہ میوزیم کی تقریب میں موجود تھے۔
واقعے کے بعد پولیس نے فوری اور بڑی کارروائی کرتے ہوئے شہر کی کئی مرکزی سڑکوں کو بند کر دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق متاثرین ایک مرد اور ایک خاتون ہیں، تاہم ان کے نام جاری نہیں کیے گئے۔
کیپیٹل یہودی میوزیم، امریکا کے دیگر کئی یہودی اداروں کی طرح بڑھتے ہوئے یہود مخالف جذبات کے باعث سیکیورٹی کے مسائل سے دوچار رہا ہے۔
میوزیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بیٹریس گُرووٹز نے بدھ کے حملے سے قبل این بی سی نیوز سے ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ’شہر بھر اور ملک بھر میں یہودی ادارے سیکیورٹی کے بارے میں فکرمند ہیں، کیونکہ کچھ اداروں کو خوفناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مجموعی طور پر یہود دشمنی کے ماحول نے تشویش میں اضافہ کیا ہے‘۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی تاہم اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنانے والی ’سیکیورٹی شرائط‘ کے تحت جنگ ختم کرنے کو تیار ہوں۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ وہ جنگ صرف ایک صورت میں ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، جب اسرائیلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ’واضح شرائط‘ موجود ہوں۔
مزید کہا کہ ’ ان شرائط میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا ہتھیار ڈالنا اور ان کی قیادت کا غزہ سے الگ ہونا، علاقے کا مکمل طور پر غیر مسلح کیا جانا شامل ہے جب کہ جو غزہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، انہیں جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل کا حماس کو شکست دینے کا ’واضح اور جائز‘ مقصد ہے، اپنے مقصد کے حصول کے لیے آخر تک پرعزم ہیں اور ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا، ہمارے پاس ایک بہت منظم منصوبہ ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر حماس کے رہنما محمد سنوار کو بھی شہید کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اسرائیل سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، دراصل وہ چاہتے ہیں کہ غزہ پر حماس کی حکمرانی برقرار رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ اسرائیل نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا ہے لیکن اس کے باوجود ایران اسرائیل کے لیے اب بھی بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر ایک ایسے معاہدے کی کوشش کر رہا ہے جو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روک سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایسے کسی بھی معاہدے کا خیرمقدم کرے گا لیکن ساتھ ہی وہ یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ اپنی سلامتی کا دفاع خود کر سکے۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ غزہ کی پٹی مکمل طور پر اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول میں ہو گی اور حماس کو شکست دی جائے گی اور جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے۔
اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تین نکاتی منصوبہ پیش کیا جن کے تحت غزہ کو بنیادی امدادی اشیا فراہم کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی کمپنیوں کے ذریعے خوراک کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے جنہیں اسرائیلی فوج کی سیکیورٹی حاصل ہو گی اور غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک مخصوص زون قائم کیا جائے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے غزہ میں فوجی حملے بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ غزہ کے شہریوں تک انتہائی ضروری امداد اب تک نہیں پہنچ سکی ہے، حالانکہ گزشتہ 2 دنوں کے دوران تقریباً 100 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں، اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل میں نرمی کے باوجود زیادہ تر سامان گوداموں میں پڑا ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے مطابق اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے امداد کو فلسطینی سرحدی گزرگاہ پر روک لیا گیا اور اسے غزہ کے عام عوام میں تقسیم کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اب تک جو امداد دی جا رہی ہے وہ ’ناکافی‘ ہے اور ’ابھی تک صرف چند ہی ٹرک کیرم شالوم (سرحدی گزرگاہ) سے اور غزہ کے اندر موجود امدادی پلیٹ فارم سے نکل سکے ہیں‘۔
اس حوالے سے اسرائیلی حکام کی جانب سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، لیکن اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) انسانی امداد کی فراہمی کو جاری رکھے گی اور ہر ممکن کوشش کرے گی کہ یہ امداد حماس جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ نہ لگے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ اسرائیل یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ امداد حماس کے ہاتھ نہ لگے۔
دوسری جانب، پوپ لیو نے غزہ کے لیے امداد کی فراہمی بحال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور درد ناک ہے، جہاں بچوں، بزرگوں اور بیماروں کو دشمنی کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
پوپ لیو نے غزہ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بڑی مقدار میں انسانی امداد کی اجازت دی جائے۔
ادھر، ڈاکٹروں کی تنظیم ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں طبی سامان انتہائی کم ہوچکا ہے۔
خان یونس کی ایک فارماسسٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ’ہم امداد کے پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں ہے جب کہ یہاں صورتحال بہت سنگین ہے کیوں کہ پانی ہے نہ خوراک اور نہ ہی ایندھن، بس ہر طرف گولہ باری ہو رہی ہے۔
شمالی غزہ کے انڈونیشین ہسپتال میں موجود ایک خاتون نے بی بی سی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کے اندر مریض، ڈاکٹرز اور طبی عملہ موجود ہے جب کہ دو مریضوں کی حالت ’انتہائی تشویشناک‘ ہے جب کہ ہمارے پاس اب بھی کچھ خوراک موجود ہے لیکن ہمیں ’پانی کے بحران‘ کا سامنا ہے۔
انڈونیشین ہسپتال تعمیر کرنے والی این جی او کے چیئرمین ہدیدی حبیب کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ایک مریض ’بے ہوشی کی حالت میں‘ ہے جب کہ عمارت کے اندر موجود لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 82 افراد شہید اور 262 زخمی ہوئے ہیں جب کہ غزہ میں شہدا کی تعداد 53 ہزار 655 ہوگئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن تک ایمبولینس اور شہری دفاع کی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
اردن کے دارالحکومت عمان میں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی انروا کا کہنا ہے کہ امداد صرف 3 گھنٹے کی مسافت پر موجود ہے، غزہ کے لوگ ہر چیز کے محتاج ہیں لہذا امداد کو فوری طور پر اندر پہنچانا چاہیے۔
ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 2 لاکھ افراد کے لیے خوراک، 16 لاکھ افراد کے لیے ادویات، کمبل، صفائی کے سامان کے پیکٹس اور اسکول کا سامان تیار ہے۔
برطانیہ نے غزہ کے لیے 4 ملین پاؤنڈ کی انسانی امداد کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان برطانوی وزیرِ ترقی جینی چیپمین کے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورے کے دوران کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے کمزور اور متاثرہ افراد کو فوری طور پر مکمل امداد تک رسائی دی جانی چاہیے جب کہ یہ نئی امداد ان تنظیموں کی مدد کرے گی جو خوراک، پانی اور ادویات ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں جنہیں ان کی اشد ضرورت ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔
یہ معاہدہ گزشتہ شب متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان اور ان کے اسرائیلی ہم منصب گیڈیون ساعر کے درمیان ہونے والی ایک فون کال کے بعد کیا گیا۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق یہ امداد ابتدائی مرحلے میں تقریباً 15 ہزار شہریوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امداد میں ’بنیادی اشیا‘ شامل ہیں، شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جب کہ ’نوزائیدہ بچوں کی نگہداشت کے لیے اہم اشیا‘ بھی اس میں شامل ہوں گی۔
تاہم، متحدہ عرب امارات نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ معاہدہ عملی طور پر کیسے نافذ کیا جائے گا یا امداد غزہ میں داخل اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہو گی جب کہ اسرائیل کی جانب سے بھی اس معاہدے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
کانز فلم فیسٹیول میں شرکت کرنے والے فلسطینی فلم سازوں عرب اور ترزان ناصر نے کہا ہے کہ غزہ میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا، اسرائیلی حملوں نے علاقے کو شمال سے جنوب تک تباہ کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی جڑواں بھائیوں نے اپنی نئی فلم ’ونس اپن اے ٹائم اِن غزہ‘ کے ذریعے فیسٹیول کے ایک سیکشن میں شرکت کی۔
فلم کے پریمیئر کے موقع پر ترزان ناصر کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں کچھ باقی نہیں رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حملوں نے نہ صرف شہر کو تباہ کیا بلکہ ان کے والد کا گھر بھی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اُن کے مطابق جب وہ چھوٹے تھے تو اس وقت غزہ ایک جنت تھا جسے اسرائیل نے تباہ کردیا ہے۔
عرب ناصر کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی آواز پہنچانا ضروری ہے تاکہ دنیا ہماری کہانی سن سکے۔
ان کے مطابق فلم کا مقصد صرف سیاسی پیغام دینا نہیں بلکہ غزہ کے عوام کی روزمرہ زندگی، ان کی امیدوں اور خوابوں کی عکاسی کرنا ہے۔
’ونس اپن اے ٹائم ان غزہ‘ کی کہانی 2007 میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کے غزہ پر مبنی ہے، جہاں دو نوجوان، یحییٰ اور اسامہ، منشیات کی اسمگلنگ اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف دکھائے گئے ہیں۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ بجلی کی کمی، معاشی زبوں حالی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود وہ بہتر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
فلم کے ایک منظر میں پروڈیوسر کا جملہ غزہ میں ہمارے پاس اسپیشل ایفیکٹس نہیں، لیکن لائیو گولیاں ضرور ہیں غزہ کی تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔
ناقدین نے ’ونس اپن اے ٹائم اِن غزہ‘ کو سراہا ہے اور اسے غزہ کی موجودہ صورت حال کی ایک مؤثر عکاسی قرار دیا ہے۔
ناصر برادران کی یہ فلم بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کو اجاگر کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے فلسطینی سرزمین کے ایک بڑے حصے کو ملبے میں بدل دیا ہے اور اب تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 53 ہزار 486 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس کی القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد سنوار زندہ ہیں اور غزہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں، گزشتہ ہفتے سعودی میڈیا میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ محمد سنوار اسرائیلی فوج کے فضائی حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔
ایران سے شائع ہونے والے روزنامہ تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ایک سینئر رکن نے بتایا ہے کہ محمد سنوار حیات ہیں اور غزہ کے محصور علاقے میں اسرائیلی فوج سے برسرپیکار ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ منگل کو اسرائیلی فوج نے ایک ہسپتال پر بمباری کی تھی، اور دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کے دوران حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی اور القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد سنوار کو شہید کردیا گیا ہے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اسامہ حمدان نے تہران ٹائمز کو بتایا، ’ یہ اسرائیل کا ہسپتال پر بمباری کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک جھوٹا دعویٰ تھا، غزہ میں ہمارے بھائیوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ محمد سنوار زندہ ہیں اور دشمن سے مضبوطی سے لڑ رہے ہیں۔’
خیال رہے کہ اسرائیلی دعوے کے بعد سعودی ذرائع ابلاغ العربیہ اور الحدث نے بھی اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ القسام بریگیڈ کے نئے کمانڈر کو نشانہ بنانےکے لیے کی گئی کارروائی کے کئی دنوں کی بے یقینی اور غیریقینی خبروں کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان یونس میں اسرائیل کے فضائی حملے میں محمد سنوار شہید ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ محمد سنوار کو ان کے بھائی یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد القسام بریگیڈ کی قیادت سونپی گئی تھی، جب اکتوبر 2024 میں اسرائیل نے انہیں شہید کردیا تھا، بعد ازاں جولائی 2024 میں حماس کے ایک اور مرکزی رہنما محمد الضیف کی شہادت کی بھی تصدیق ہوگئی تھی، حماس میں ان تینوں رہنماؤں کو 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کا اہم منصوبہ ساز قرار دیا جاتا تھا۔
گزشتہ برس 16 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک جھڑپ کے دوران حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اگلے روز شہادت سے قبل کی ان ڈرون سے بنائی گئی فوٹیج بھی جاری کی تھی جس کے 18 اکتوبر کو حماس نے یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی تھی۔
یاد رہے کہ حماس کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کی ایران میں کیے گئے مبینہ اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد یحییٰ سنوار کو 6 اگست 2024 کو حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ 31 جولائی 2024 کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی بم حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
اسمٰعیل ہنیہ کو نومنتخب ایرانی صدر کو تقریب حلف برداری کے لیے تہران مدعو کیا گیا تھا جہاں ایک عمارت میں اسرائیل کی جانب سے نصب کیے گئے بم کے ذریعے اسمٰعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔