Get the latest news and updates from DawnNews
عالمی سطح پر بھوک کے بحران پر نظر رکھنے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی ترسیل روکے جانے کی وجہ سے خطے میں ستمبر کے آخر تک قحط پیدا ہوسکتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) نے اپنی رپورٹ میں اکتوبر کے بعد سے نمایاں طور پر بڑھنے والے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے پیشگوئی کی کہ غزہ میں 21 لاکھ افراد جو کہ اُن کی تقریباً پوری آبادی پر مشتمل ہے ستمبر کے آخر تک شدید غذائی قلت کا سامنا کریں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت غزہ میں 4 لاکھ 69 ہزار 500 افراد بھوک کے حوالے سے تباہ کن صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جن کی تعداد اکتوبر میں کیے جانے والے گزشتہ تجزیے میں ایک لاکھ 33 ہزار تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کو اس وقت سیل کر دیا تھا جب اس نے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے اس حوالے سے کہا کہ ’آئی پی سی مسلسل قحط کے حوالے سے بات کر رہا ہے، لیکن خطے میں اسرائیل کی جانب سے امداد حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے کبھی قحط نہیں پڑا ہے۔‘
ساتھ ہی غزہ میں غذائی قلت کا الزام حماس پر لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حماس کی جانب سے مبینہ طور پر امداد چوری کی جارہی ہے، تاہم حماس اس کی تردید کرتے ہوئے اسرائیل پر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
آئی پی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوجی سرگرمیوں میں اضافے اور امدادی ایجنسیوں کی ضروری اشیا کی فراہمی میں مسلسل نااہلی کی وجہ سے 11 مئی سے 30 ستمبر کی مدت کے دوران غزہ کی آبادی کو قحط کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ خطے میں مزید اموات، فاقہ کشی، شدید غذائی قلت اور قحط سے محفوط رہنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اپریل 2025 سے مارچ 2026 کے درمیان شدید غذائی قلت کے تقریباً 71 ہزار کیسز، جن میں 14 ہزار 100 سنگین کیسز ہیں، سامنے آئیں گے جن میں 6 سے 59 ماہ تک کے بچے بھی شامل ہوں گے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (اے ایف او) کی ڈپٹی ڈائریکٹر بیت بیچڈول نے کہا کہ ’آئی پی سی کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ حالیہ مہینوں میں غزہ کی صورتحال کافی ڈرامائی طور پر خراب ہوئی ہے، مارچ کے اوائل سے ہی ناکہ بندی کی وجہ سے ضروری امدادی سامان کی عدم فراہمی ہو رہی ہے۔‘
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ دو ماہ کی جنگ بندی نے خوراک کی شدید قلت اور غذائی قلت کو عارضی طور پر ختم کرنے کا موقع فراہم کیا تھا، آئی پی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاری ناکہ بندی نے صورتحال کو مزید تبدیل کردیا ہے، کلیدی نتائج سے پتا چلتا ہے کہ 19 لاکھ افراد یا ساحلی انکلیو میں آبادی کا 93 فیصد حصہ شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلیٰ سطح سے گزر رہا ہے، جن میں 2 لاکھ 44 ہزار افراد تباہ کن سطحوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے میں سعودی عرب پہنچنے کے ساتھ ہی اسرائیلی فورسز نے غزہ پر حملے تیز کردیے ہیں، آج صبح سے 11 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق خان یونس میں نصیر میڈیکل کمپلیکس پر بمباری سے صحافی حسن اصلح سمیت 2 مریض شہید ہوئے، اس بمباری میں متعدد دیگر مریض اور عملے کے ارکان زخمی بھی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ بھوک کی نگرانی کرنے والے اہم عالمی ادارے نے کہا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ قطر میں جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ثالث بھیجیں گے۔
حماس نے گزشتہ روز امریکی حکام سے براہ راست ہونے والی بات چیت کے بعد امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کیا تھا۔
بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل اس وقت تک غزہ میں جنگ تیز کرنے کے منصوبوں کو ملتوی رکھے گا، جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ مکمل نہ ہو جائے۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں کم از کم 52 ہزار 862 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 19 ہزار 648 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق حکومت کے میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد کو 61 ہزار 700 سے زیادہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ ملبے کے نیچے دبے ہزاروں لوگ لاپتا ہیں، جنہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو حملوں کے دوران اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے، اور 200 کے قریب یہودیوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیلی عہدیداروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جانے پر بے خوفی کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کا یہ فیصلہ اسرائیل میں واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو غزہ میں فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے امریکا کی طرف سے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع دی گئی ہے، یہ بات چیت براہ راست واشنگٹن اور حماس کے درمیان ہوئی تھی جس میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔
امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ واپس لینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر اسرائیل کے لیے کتنا نقصان دہ رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تصفیے کے اقدامات پر رضا مندی دے۔
سعودی عرب کو ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کہا جانا تھا جو نیتن یاہو کا بڑا ہدف رہا ہے، لیکن اب مقصد میں لامحدود تاخیر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ (جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچنے والے ہیں) نے پچھلے ہفتے اچانک یہ اعلان کرکے اسرائیل میں اضطراب پیدا کردیا تھا کہ امریکا یمن میں حوثیوں پر بمباری بند کر دے گا، چند دن بعد ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے مرکزی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا، یہ خطے کے لیے واضح پیغام تھا۔
اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ ’وائی نیٹ‘ کے مطابق اسرائیل اب امریکا کی پہلی ترجیح نہیں ہے اور یہ بات وائی نیٹ کے سفارتی نمائندے ایتامار آئچنر (جو سیاسی نظریے کی بنیاد پر میڈیا کے تبصرہ نگاروں میں شامل ہیں) نے لکھی ہے۔
اسرائیل نے مستقبل کے غزہ کے بارے میں امریکا کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اہلکار کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تعلقات مضبوط ہیں، لیکن کچھ اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے فیصلہ سازی سے حیران رہ گئے۔
حوثیوں کے بارے میں فیصلے (جس پر پہلے اسرائیل کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی) نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کے مذاکرات میں اسرائیلی بے چینی کو مزید بڑھا دیا، جو تہران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی فوجی کارروائی کی دھمکی کو کمزور کر سکتا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت مزید تشویش کا سامنا کرنا پڑا جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکا اب سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہا، جو کہ سول نیوکلیئر تعاون کے مذاکرات میں ترقی کے لیے شرط تھی۔
مارچ کے مہینے میں ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر نے ایسی ملاقاتیں کیں، جن کو حماس نے بہت مددگار قرار دیا، جو اسرائیل کو نظرانداز کرتے ہوئے اور فلسطینی گروپ کے ذریعے ایڈن الیگزینڈر کی رہائی پر مرکوز تھیں، پچھلے ہفتے امریکی سفیر مائیک ہکابی نے انکار کیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل سے خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو پیر کے روز تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب اسرائیلی اہلکار امریکی نژاد ایدن الیگزینڈر کی رہائی کا انتظار کیا جارہا تھا، عوام میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ واشنگٹن اور تل ابیب کی ترجیحات مختلف ہیں۔
تل ابیب کے پنشنر جیک گٹلیب نے کہا کہ اب کوئی قیادت نہیں ہے، یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ یہ معاہدہ نیتن یاہو کی پیٹھ کے پیچھے ہوا، یا یہ کہ امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے فی الحال مختلف ہیں، اس وقت ہر کوئی اپنے لیے سوچ رہا ہے۔
نیتن یاہو کے پاس حوثیوں کے فیصلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جنہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اسرائیل پر مزید میزائل داغتے رہیں گے۔
ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کو بھی اسرائیلی قدامت پسندوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے غزہ میں استعمال ہونے والے بھاری ہتھیاروں کی برآمدات روک دی تھیں، اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کرنے والے یہودی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کردیا
بی بی سی اور سی این این کی رپورٹ کے مطابق حماس نے بتایا کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی 21 سالہ ایڈان الیگزینڈر کو ریڈ کراس کے حوالے کیا، بعد ازاں انہیں غزہ سے باہر منتقل کر کے اسرائیلی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔
دریں اثنا، اسرائیلی عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایڈان الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈان الیگزینڈر کی رہائی کے بعد 58 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے کم از کم 20 کے زندہ ہونے کا اندازہ ہے، ہلاک ہونے والے یرغمالیوں میں 4 امریکی شہری بھی شامل ہیں، جن میں شوہر اور بیوی گیڈی ہیگئی اور جوڈی وائنسٹائن ہاگئی کے علاوہ سپاہی ایتے چن اور اومر نیوٹرا شامل ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی آج صبح خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے آج غزہ میں رہا کیے جانے کا امکان ہے۔
21 سالہ ایڈن الیگزینڈر غزہ کی سرحد پر ایلیٹ انفنٹری یونٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا، جب اسے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ الیگزینڈر کی رہائی کے لیے غزہ میں ’ایک محفوظ راہداری‘ ہوگی، لیکن اس نے جنگ بندی کا وعدہ نہیں کیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ منگل سے شروع ہو رہا ہے، انہوں نے الیگزینڈر کی طے شدہ رہائی کو ’یادگار خبر‘ قرار دیا۔
ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا تھا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے پہلے ایک نیک نیتی کے اشارے کے طور پر کیا گیا، حماس یہ بھی کہتا ہے کہ رہائی کا مقصد امدادی معاہدے کو سہولت فراہم کرنا ہے، غزہ 2 ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ ہ اسرائیل کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ امریکا اور حماس کے حکام کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا، یہاں تک کہ ایڈن الیگزینڈر کی متوقع رہائی کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا۔
امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی خبر سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے آج غزہ میں رہا کیے جانے کا امکان ہے۔
بی بی سی نیوز کے مطابق 21 سالہ ایڈن الیگزینڈر غزہ کی سرحد پر ایلیٹ انفنٹری یونٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا، جب اسے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ الیگزینڈر کی رہائی کے لیے غزہ میں ’ایک محفوظ راہداری‘ ہوگی، لیکن اس نے جنگ بندی کا وعدہ نہیں کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ منگل سے شروع ہو رہا ہے، انہوں نے الیگزینڈر کی طے شدہ رہائی کو ’یادگار خبر‘ قرار دیا ہے۔
ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے پہلے ایک نیک نیتی کے اشارے کے طور پر کیا گیا ہے۔ حماس یہ بھی کہتا ہے کہ رہائی کا مقصد امدادی معاہدے کو سہولت فراہم کرنا ہے، غزہ 2 ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ ہے کہ اسرائیل کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ امریکا اور حماس کے حکام کے درمیان براہ راست رابطہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ ایڈن الیگزینڈر کی متوقع رہائی کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا۔
حالیہ ہفتوں میں صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے اشارے بڑھتے جا رہے ہیں، جب کہ ٹرمپ ایران کے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے خطرے کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں، نیتن یاہو فوجی کارروائی کو ترجیح دیتے ہیں۔
غزہ کے بارے میں واشنگٹن نے نئی جنگ بندی اور یرغمالی رہائی کے معاہدے کے لیے دباؤ جاری رکھا ہوا ہے، جب کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ پر ایک شدید حملے کی منظوری دے دی ہے۔
اتوار کو ’این بی سی نیوز‘ نے امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے نجی طور پر اسرائیل کی حکمت عملی کو ’بے کار کوشش‘ اور ’اپنی تعمیر نو کی منصوبہ بندی‘ کے خلاف قرار دیا ہے۔
الجزیرہ نے خبر دی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے دوران جنگ بندی کے امکانات کو خارج کرتے ہوئے بمباری روکنے سے انکار کر دیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے زیر حراست امریکی اسرائیلی قیدی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے لیے کسی بھی طرح کی جنگ بندی پر اتفاق نہیں کیا تھا، لیکن وہ رہائی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ’محفوظ راہداری‘ فراہم کرے گا۔
حماس کا کہنا ہے کہ امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی کی رہائی آج ہوگی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں اسکول میں قائم کی گئی پناہ گاہ میں کم از کم 17 فلسطینی شہید ہوئے، جب کہ غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ 71ویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی وزارت کے مطابق کم از کم 52 ہزار 862 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 19 ہزار 648 زخمی ہوچکے ہیں۔
حکومت کے میڈیا دفتر نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے کے نیچے ہزاروں افراد لاپتا ہیں، جنہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے میں ہے، 5 لاکھ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
بھوک کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک عالمی ادارے نے کہا ہے کہ غذائی تحفظ کے مرحلے کی درجہ بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نتائج آخری بار اکتوبر 2024 میں کی گئی تشخیص کے بعد بڑے بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تازہ ترین رپورٹ میں یکم اپریل سے 10 مئی 2025 کے دورانیے کا تجزیہ کیا اور کلیدی نتائج کے خلاصے کے مطابق ستمبر 2025 تک کی صورتحال کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے براہ راست رابطہ منقطع کرنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ اسرائیل میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے امداد کی فراہمی کا آپریشن جلد اسرائیلی شمولیت کے بغیر شروع ہونے والا ہے۔
ترک نشریاتی ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی آرمی ریڈیو کے رپورٹر یانر کوزین نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب قریبی رفقا نے اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر کو بتایا کہ صدر کو یقین ہے کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے مزید کہا کہ ریپبلکن رہنماؤں کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں رون ڈرمر کا لہجہ خود پسندانہ اور عدم تعاون پر مبنی سمجھاگیا، یہ مذاکرات اس بارے میں تھے کہ ٹرمپ کو کیا کرناچاہیے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں نے انہیں بتایا کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں، ٹرمپ کو اس بات سے سب سے زیادہ نفرت ہے کہ انہیں بیوقوف کے طور پر پیش کیا جائے یا کوئی ان سے کھیلے، اسی وجہ سے انہوں نے نیتن یاہو سے رابطہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یانر کوزین نے کہا کہ ایرانی اور یمن کے حوثیوں کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ اور وقت کی فراہمی نہ ہونا امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی بگڑتی حالت کا ایک سبب ہے۔
فوجی ریڈیو کے نمائندے نے بھی اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ کے بارے میں کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے۔
دوسری جانب انادولو نے اپنی رپورٹ میں یروشلم پوسٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ غزہ کے لیے امدادی خوراک کا آپریشن جلد شروع ہونے والا ہے اور یہ اسرائیل کی شمولیت کے بغیر جاری رہے گا۔
یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہکابی نے کہا کہ امداد کی فراہمی کا منصوبہ ایک ایسے طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا جس پر متعدد شراکت دار متفق ہوں گے اور وہ کسی براہ راست فوجی تعاون پر انحصار نہیں کریں گے۔
مائیک ہکابی نے کہا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ میں محفوظ اور موثر طریقے سے خوراک تقسیم کی جائے۔
یہ اعلان اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے کہ واشنگٹن محصور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی براہ راست شمولیت کے بغیر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت سے ایک نئے اقدام پر زور دے رہا ہے۔
عہدیدار نے شراکت داروں کا نام لیے بغیر کہا کہ متعدد شراکت داروں نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے، انہوں نے فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔
مائیک ہکابی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل آئندہ آپریشن میں حصہ نہیں لے گا، امداد کی فراہمی کے لیے درست ٹائم لائن اور لاجسٹکس ابھی تک عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی گزرگاہوں کو خوراک، طبی اور انسانی امداد کے لیے بند کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں پہلے سے جاری انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں تقریباً 52 ہزار 800 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گزشتہ نومبر میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ پر عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیل نے یمن، لبنان اور شام کے ساتھ ساتھ غزہ پر بھی ایک ہی دن میں حملے کیے، غزہ پر پیر کے روز فضائی حملوں میں کم از کم 54 فلسطینی شہید ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد کو ایک نئی زمینی کارروائی کے ذریعے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کو 65 روز مکمل ہوگئے ہیں۔
غزہ میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتال 48 گھنٹے بعد تمام سہولیات سے محروم ہوجائیں گے، اور ہزاروں بیماروں اور زخمیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 52 ہزار 567 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ایک لاکھ 18 ہزار 610 زخمی ہوئے ہیں۔
سرکاری میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی زیر قیادت حملوں کے دوران اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کے 30 جنگی جہازوں نے یمن میں الحدیدہ پر فضائی حملہ کیا، یہ حملہ تل ابیب کے مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حوثیوں کے میزائل حملے کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔
حوثی باغیوں کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ الحدیدہ کے مشرق میں واقع باجیل میں سیمنٹ فیکٹری پر اسرائیلی حملے میں ایک شخص ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے کہا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے مشن میں حصہ لیا، جس میں الحدیدہ اور آس پاس کے علاقوں میں حوثیوں کے درجنوں ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
آئی ڈی ایف نے ایک بیان میں کہا کہ الحدیدہ کی بندرگاہ ایرانی ہتھیاروں، فوجی مقاصد کے لیے سازوسامان اور دہشت گردی سے متعلق دیگر ضروریات کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے الحدیدہ کے مشرق میں واقع سیمنٹ فیکٹری کو سرنگوں اور فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں استعمال کرنے پر نشانہ بنایا۔
الجزیرہ کے علی ہاشم کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد یہ پہلا موقع نہیں، جب اسرائیل اور حوثیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے، اس سے قبل بھی اسرائیل یمن پر بمباری کرتا رہا ہے، حال ہی میں امریکا نے یمن کو متعدد بار بمباری کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں انجام دی ہیں۔
یمنی حوثیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل جب تک غزہ پر بمباری بند نہیں کرتا، وہ بھی اسرائیل اور امریکا کے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
ایک متفقہ فیصلے میں اسرائیل کی سلامتی کابینہ نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے، فلسطینی علاقے اور پٹی پر قبضہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق یہ منصوبہ فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں داخل ہونے پر مجبور کرے گا، اور اسرائیلی فوج کئی ماہ سے جاری شدید لڑائی میں مصروف رہے گی۔
ایک اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کا انتظار کر رہی ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقے کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے ایک بار پھر کچھ مغربی میڈیا اداروں کی جانب سے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی کوریج کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’مین اسٹریم مغربی میڈیا: آپ کی رگوں میں صحافت کی اخلاقیات کا کوئی احساس باقی ہے؟‘
البانیز ایک پوسٹ کا جواب دے رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کا اخبار ’ہارٹز‘ جنگ کی ’بربریت‘ کو اس انداز میں کور کر رہا ہے، جس طرح مغربی ذرائع ابلاغ نہیں کر رہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارت خانے کے زیر اہتمام اسرائیل کے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سال یوم آزادی منانا ’تلخ‘ ہے، جب 59 یرغمالیوں کو حماس نے بے رحمی سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے میں عہد کرتا ہوں کہ ہم اس سال انتھک محنت کریں گے، تاکہ اگلے سال کا یوم آزادی صرف خوشیوں کی خواہش نہ ہو بلکہ اسرائیل کے لیے امن، خوشحالی اور اتحاد کی حقیقت ہو۔
اسٹیو وٹکوف نے تقریب سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ابراہم امن معاہدے کی توسیع، غزہ کے لیے انسانی امداد کے اقدامات سمیت بہت سی کوششیں جاری ہیں، جن کی ہم ستائش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس محاذ پر اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے بہت جلد بہت سے اعلانات کیے جائیں گے۔
وٹکوف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے باغات اور کھیتوں میں داخل ہوکر ایک بار پھر اوچھی حرکتیں دہرائی ہیں۔
انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے فلسطینی کاشتکاروں کے زیتون کے متعدد درخت کاٹ دیے اور فرار ہوگئے، صبح کے وقت جب فلسطینی کاشتکار اپنے باغات میں پہنچے تو انہیں اس کارروائی کا علم ہوا، جس سے وہ افسردہ ہوگئے۔
اس سے قبل بھی یہودی آباد کار اسرائیلی فوج کی نگرانی میں فلسطینی کسانوں کے ساتھ زیادتی کرتے رہے ہیں، اسرائیلی فوجی الٹا فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انہیں زدوکوب کرتے ہیں۔
اسرائیل فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے خلاف ایک وسیع تر فوجی حملے کے دوران غزہ پٹی پر مکمل قبضہ کر کے امداد کی نگرانی خود سنبھال سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ بات پیر کو اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ کی منظوری کے بعد حکام نے بتائی۔
ایک اسرائیلی دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ یہ کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورے مکمل ہونے سے پہلے شروع نہیں کی جائے گی۔
کئی ہفتوں سے حماس کے ساتھ جنگ بندی پر ناکام کوششوں کے بعد یہ فیصلہ اس خطرے کو اجاگر کرتا ہے کہ جنگ غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے، جبکہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اندرون ملک عوامی حمایت کم ہو رہی ہے۔
ایک سرکاری ترجمان نے آن لائن صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں حملے بڑھانے کے لیے ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جا رہا ہے، تاہم اس کا مقصد غزہ پر قبضہ نہیں ہے۔
اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کان کی ایک رپورٹ نے معاملے سے باخبر حکام کے حوالے سے بتایا کہ نیا منصوبہ بتدریج عمل میں لایا جائے گا اور اس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں، جس کا آغاز غزہ کے ایک مخصوص علاقے سے ہو گا۔
اسرائیلی فوج پہلے ہی غزہ پٹی کے تقریباً ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر چکی ہے، جہاں آبادی کو بے دخل کر کے وہاں نگرانی کے ٹاور اور چوکیاں قائم کی گئی ہیں، جنہیں اسرائیل نے ’سیکیورٹی زون‘ قرار دیا، مگر نیا منصوبہ اس سے بھی زیادہ جگہ پر قبضے کا ہے۔
ایک اسرائیلی سرکاری عہدیدار نے کہا کہ نئی منظور شدہ کارروائی کے تحت پورے غزہ پر قبضہ کیا جائے گا، شہری آبادی کو جنوب کی جانب دھکیلا جائے گا اور انسانی امداد کو حماس کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جائے گا۔
دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ جب کارروائی شروع ہو گی تو اب تک بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اور اقوام متحدہ جو امداد تقسیم کر رہی ہیں، اس ذمہ داری کو اب نجی کمپنیوں کو سونپا جائے گا اور جنوبی شہر رفح میں امداد تقسیم کی جائے گی۔
دفاعی حکام کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں قبضہ کیے گئے سیکیورٹی زونز کو برقرار رکھے گا کیونکہ وہ اسرائیلی کمیونٹیز کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے کے دورے کے دوران جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے ایک موقع موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نہ ہوا، تو ’آپریشن گیڈین چیریٹس‘ سے شروع کیا جائے گا اور اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے تک یہ جاری رہے گا۔
حماس کے عہدیدار محمود مرداوی نے ان باتوں کو ’دباؤ اور بلیک میلنگ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی معاہدہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک مکمل جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلا، غزہ کی تعمیر نو، اور دونوں جانب سے تمام قیدیوں کی رہائی شامل نہ ہو۔
واضح رہے کہ آج غزہ کے شہری دفاع کے مطابق اس کے عملے نے غزہ شہر کے الکرمہ علاقے میں الروموز ٹاور میں 3 اپارٹمنٹس پر اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے 15 افراد کی لاشیں نکال لی تھیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق سول ڈیفنس نے بتایا کہ اس حملے میں 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔
شہری دفاع نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ بیت لاہیہ کے علاقے السلطان میں العطار خاندان کے گھر پر ہونے والے حملے میں 4 افراد شہید اور 5 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
غزہ کے شہری دفاع نے کہا ہے کہ اس کے عملے نے غزہ شہر کے الکرمہ علاقے میں الروموز ٹاور میں 3 اپارٹمنٹس پر اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے 15 افراد کی لاشیں نکال لی ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق سول ڈیفنس نے بتایا کہ اس حملے میں 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
شہری دفاع نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بیت لاہیہ کے علاقے السلطان میں العطار خاندان کے گھر پر ہونے والے حملے میں 4 افراد شہید اور 5 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے اور ان کے سرپرست ایران کے خلاف کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اتوار کو نیتن یاہو نے قبرص کے صدر نکوس کرسٹوڈولائیڈز سے کہا کہ ہمیں اور پوری دنیا کو حوثیوں سے خطرہ ہے، ہم اسے برداشت نہیں کریں گے اور سخت جوابی کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ یمنی حوثیوں نے احکام کے تحت اور اپنے سرپرست ایران کی حمایت سے ہم پر حملہ کیا، ہم ایران کو مناسب انتباہ دینے کے لیے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہ کریں گے، اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر ایران کو جواب دیں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے ’کان‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سلامتی کابینہ نے غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی میں بتدریج توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ مہم کو وسعت دینے کے لیے اپنی ریزرو فورسز کے لیے ہزاروں کال اَپ لیٹر جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی جانب سے یمن سے داغے گئے میزائل کا ایک حصہ اسرائیل کے مرکزی گیٹ وے بن گوریون ہوائی اڈے کے قریب گرنے کے چند گھنٹوں بعد نیتن یاہو نے ’ایکس‘ پر پیغام میں کہا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ کے اگلے مرحلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے سیکیورٹی کابینہ کا اجلاس بلا رہے ہیں۔
فوج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ضمیر نے فوجیوں کو بتایا کہ ہم اپنے یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کو شکست دینے کے مقصد سے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
اسرائیل کی ’وائی نیٹ‘ نیوز ویب سائٹ نے پیر کے روز خبر دی ہے کہ سلامتی کابینہ نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے ایک نئے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ انکلیو میں رسد کب دی جائے گی۔
متعدد بین الاقوامی ایئرلائنز نے اسرائیل کے بین گوریون ہوائی اڈے کے لیے پروازیں معطل کر دیں۔
جرمنی کی قومی فضائی کمپنی لفتھانسا جیسی متعدد غیر ملکی ایئرلائنز نے حوثیوں کی جانب سے بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر فضائی حملے کے بعد تل ابیب کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایئر فرانس، سوئس، آسٹرین ایئرلائنز، برسلز ایئر لائنز اور ہنگری کی کم فضائی کمپنی ویز ایئر نے بھی کم از کم منگل تک اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔
ہسپانوی ایئرلائن ایئر یوروپا نے بھی سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر میڈرڈ سے تل ابیب جانے والی اپنی طے شدہ پرواز روک دی ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا اور اس کے گرد و نواح میں تقریباً 10 حملوں کا الزام واشنگٹن پر عائد کیا ہے۔
تل ابیب کے ہوائی اڈے پر یمن کی جانب سے میزائل حملے کے بعد اسرائیل نے حوثیوں اور اس کے مبینہ پشت پناہ ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
صبا نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکی حملوں میں دارالحکومت میں اربعین کی سڑک اور ہوائی اڈے کی سڑک پر کیے گئے 2 حملے شامل ہیں۔
’صبا‘ کے مطابق وزارت صحت نے بتایا کہ حملوں سے ساون کے پڑوس میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ویٹی کن کے سرکاری میڈیا ادارے نے خبر دی ہے کہ پوپ فرانسس کی ایک وین کو غزہ کی پٹی میں بچوں کے لیے موبائل ہیلتھ کلینک میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
آنجہانی پوپ کی جانب سے 2014 میں مقدس سرزمین کے دورے کے دوران استعمال کی جانے والی اس گاڑی کو فلسطینی انکلیو میں نوجوان مریضوں کی مدد کے لیے تشخیصی اور ہنگامی طبی سازوسامان سے آراستہ کیا جا رہا ہے، جہاں اسرائیلی حملے کی وجہ سے صحت کی خدمات تباہ ہو چکی ہیں۔
ویٹی کن نیوز کے مطابق پوپ فرانسس (جن کا گزشتہ ماہ انتقال ہو گیا تھا) نے اپنی موت سے چند ماہ قبل یہ اقدام کیتھولک امدادی تنظیم کیریٹاس یروشلم کو سونپا تھا۔
اس منصوبے کی حمایت کرنے والے کیریٹاس سویڈن کے سیکریٹری جنرل پیٹر برون نے ویٹی کن نیوز کو بتایا کہ یہ ایک ایسے وقت میں ٹھوس، زندگی بچانے والی مداخلت ہے جب غزہ میں صحت کا نظام تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
اسرائیلی درندگی کا شکار غزہ کے باشندوں کے لیے امدادی سامان لے جانے والے امدادی بحری جہاز پر مالٹا کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملہ کیا گیا ہے، امدادی سامان لے جانے والے تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈرون حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’ بی بی سی’ کی رپورٹ کے مطابق فریڈم فلوٹیلا کولیشن کا کہنا ہے کہ اس کے جہاز دی کانسینٹ کو جمعے کو مقامی وقت کے مطابق رات 12 بجکر 23 منٹ پر نشانہ بنایا گیا اور حملے کے فوراً بعد ایس او ایس سگنل جاری کیا گیا۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ جانے اور وہاں اسرائیل کے غیر قانونی محاصرے اور ناکہ بندی کو چیلنج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
مالٹا کی حکومت کا کہنا ہے کہ جہاز پر سوار تمام افراد کے محفوظ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے اور جہاز میں لگی آگ پر فوری طور پر قابو پا لیا گیا ہے۔
این جی او نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بشمول ناکہ بندی اور ہمارے سویلین جہاز پر بمباری پر جواب دیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حملے کی اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے، مالٹا کی حکومت کا کہنا ہے کہ کشتی پر عملے کے 12 افراد اور 4 امدادی کارکن سوار تھے جبکہ این جی او کا کہنا ہے کہ کشتی میں 30 امدادی کارکن سوار تھے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں اس کے ایک جہاز پر آگ لگی ہوئی ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس میں کوئی زخمی ہوا ہے یا نہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حملے میں جنریٹر کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے جہاز بجلی سے محروم ہو گیا اور اس کے ڈوبنے کا خطرہ تھا۔
مالٹا کی حکومت کا کہنا ہے کہ آگ بجھانے کے لیے ایک ٹگ بوٹ جائے وقوعہ پر بھیجی گئی تھی جس نے مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر 28 منٹ تک آگ پر قابو پا لیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2 بج کر 13 منٹ تک عملے کے تمام افراد کے محفوظ ہونے کی تصدیق ہو گئی لیکن انہوں نے ٹگ پر سوار ہونے سے انکار کر دیا۔
امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ قبرص نے ایس او ایس سگنل کا جواب ایک بحری جہاز بھیج کر دیا لیکن وہ ضروری برقی مدد فراہم نہیں کر سکا، واضح رہے کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن غزہ پر اسرائیل کی ناکہ بندی ختم کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔
2 ماہ قبل اسرائیل نے غزہ جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا اور خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت تمام سامان کو وہاں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور بعد میں حماس کے ساتھ 2 ماہ سے جاری جنگ بندی ختم کرتے ہوئے اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کو سرحد پار سے ہونے والے ایک غیر معمولی حملے کے جواب میں حماس کو ختم کرنے کی مہم شروع کی تھی، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 251 دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے دوران کم از کم 52 ہزار 418 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
امریکی کانگریس کے دورے کے دوران فلسطین کے حامی مظاہرین سے آمنا سامنا ہونے پر اسرائیل کے انتہاپسند وزیر قومی سلامتی اتمیر بین گویر آپے سے باہر ہوگئے۔
ترکیہ کے خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کا پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کے دورے پر آئے اسرائیلی وزیر قومی سلامتی اتمیر بن گویر سے آمنا سامنا ہوگیا، مظاہرین نے اسرائیل کے انتہاپسند وزیر کے خلاف ’جنگی مجرم!“ کے نعرے لگائے۔
مسلمان کیپیٹل ہل میں امریکی کونسل آف مسلم آرگنائزیشنز کے 10 ویں سالانہ نیشنل مسلم ایڈووکیسی ڈے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے ، جہاں انہوں نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور محصور علاقے میں نسل کشی کے خاتمے پر زور دیا۔
اپنے پہلےامریکی دورے کےدوران بین گویر کچھ قانون سازوں سے ملاقات کرنے کے لیے کانگریس میں موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بین گویر مظاہرین پر چیخے چلائے اور ان پر جھپٹنے کے لیے اپنے سیکیورٹی گارڈز کو دھکے دیتے رہے، بعد میں وہ کانگریس کے ایک رکن کے دفتر میں داخل ہوئے۔
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بین گویر کے امریکا کے دورے کے خلاف مظاہرے کیے گئے، جن میں جمعرات کو نیو یارک شہر کے شہر مین ہیٹن میں ایک تقریری تقریب بھی شامل ہے۔
بین گویر نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ امریکی ریپبلکنز جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی میں خوراک اور امدادی مقامات پر بمباری کے ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر غزہ میں جاری نسل کشی براہ راست نشر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
خبر رساں اداے رائٹرز کے مطابق مصر کے 2 سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں ’اہم پیش رفت‘ دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محصور علاقے میں طویل مدتی جنگ بندی پر اتفاق رائے پایا گیا ہے، تاہم حماس کے ہتھیاروں سمیت کچھ اہم نکات باقی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جاری مذاکرات میں مصر اور اسرائیل کے وفود بھی شامل ہیں، مصر اور قطر نے تازہ ترین مذاکرات کے بارے میں پیش رفت کی اطلاع نہیں دی۔
قبل ازیں مصر کے سرکاری خبر رساں ادارے القہرہ نیوز ٹی وی نے خبر دی تھی کہ مصری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل حسن محمود رشاد نے گزشتہ روز قاہرہ میں اسٹریٹجک امور کے وزیر رون درمر کی سربراہی میں اسرائیلی وفد سے ملاقات کریں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں پیش رفت سے قبل گزشتہ رات مقبوضہ بیت المقدس میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رون درمر نے کہا تھا کہ حکومت یرغمالیوں کی واپسی، حماس کی فوجی صلاحیت اور غزہ میں اس کی حکمرانی کے خاتمے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ یہ علاقہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے ۔
گزشتہ 36 گھنٹوں کے دوران غزہ کے ہسپتالوں میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 100 افراد کی شہادت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو اپنی فوجی کارروائی شروع کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 52,314 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے جبکہ 17ہزار 792 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
18 مارچ کو اپنی جارحیت دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اسرائیل کم از کم 2 ہزار 222 فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی زیادہ تر آبادی کو زبردستی بے گھر کیا اور جان بوجھ کر انسانوں کی تباہی کے حالات پیدا کرنے کے ساتھ اس نے دنیا کو براہ راست نسل کشی کا سامع بنا دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامارڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاستیں بے اختیار نظر آرہی ہیں، اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کیا، تمام کثیر نسلی خاندانوں کا صفایا کر دیا، گھروں، معاش، اسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کر دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2024 کے دوران اس نے اسرائیل کی جانب سے متعدد جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دی جن میں شہریوں اور شہری املاک پر براہ راست حملے اور اندھا دھند اور غیر متناسب حملے شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات نے19 لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر بے گھر کیا جو غزہ کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد ہے۔
دریں اثنا، الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی جاری ناکہ بندی کے ذریعے فلسطینی بچوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شدید غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے اور 11 لاکھ میں سے 65 ہزار سے زائد بچے اسپتالوں میں داخل ہیں جو روزانہ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل بھوک اور پیاس کو عام شہریوں کے خلاف منظم جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں کی مسلسل بندش سے خاص طور پر بچوں اور نومولودوں کی صحت کی صورتحال میں تباہ کن خرابی آئی ہے، ۔
دفتر نے بگڑتی ہوئی انسانی تباہی اورخوراک، ادویات اور صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لاکھوں بچوں، خواتین اور بزرگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کے معاملے پر میڈیکل اسٹور ایسوسی ایشن کے صدر کو قتل کر دیا گیا۔
الپوری کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد عارف خان نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ شانگلہ کے علاقے کوزہ الپوری میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران میڈیکل اسٹور مالکان کے درمیان جھگڑا پیش آیا۔
پولیس افسر کے مطابق الپوری میڈیکل اسٹور ایسوسی ایشن کے صدر ملک عدالت خان نے دیگر میڈیکل اسٹور مالکان سے ہڑتال میں شامل ہونے کی درخواست کی، تاہم انہوں نے انکار کیا، جس پر تلخ کلامی ہوئی۔
اس دوران اسٹور مالک اور اس کے بیٹوں نے مبینہ طور پر ملک عدالت خان کے سر پر بھاری آلے سے وار کیا، جس کے نتیجے میں وہ وہ موقع پر ہی چل بسے۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ تھانہ الپوری میں دفعہ 302 کے تحت درج کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
واضح رہے کہ ملک عدالت خان ایک معروف سیاسی اور یونین رہنما تھے اور ضلع کی مختلف اہم سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی اچانک موت پر ضلع بھر میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ادھر، وفاقی وزیر امیر مقام، شوکت یوسفزئی، اراکین اسمبلی اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
ایس ایچ او محمد عارف خان کا کہنا تھا کہ واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ایک عہدیدار نے غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لیے معاہدے پر آمادگی ظاہر کردی جس میں باقی تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ رہائی اور 5 سالہ جنگ بندی شامل ہوگی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حماس کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے اور 5 سالہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔
17 اپریل کو حماس نے ایک ’جزوی‘ جنگ بندی کے معاہدے کی مخالفت کی تھی جس میں اسرائیل کی تجویز کو مسترد کردیا گیا تھا، اسرائیل کی جانب سے 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے میں 10 زندہ یرغمالیوں کی واپسی کی پیشکش کی گئی تھی۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم کی جانب سے مسلسل اس بات پر زور دیا گیا کہ جنگ بندی کا کوئی ایسا معاہدہ کیا جائے جس میں غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے، غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا، تمام قیدیوں کے تبادلے اور فلسطینی علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت شامل ہو۔
دوسری جانب، اسرائیل کی جانب سے تمام یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ میں حماس سمیت تمام مسلح گروپوں کے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے جسے حماس ’سرخ لکیر‘ قرار دیتی ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل حماس جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر ایک غیرمعمولی حملے کے بعد شروع ہوا تھا، جس میں 1218 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں، حماس کی جانب سے حملے والے دن یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے 58 اب بھی غزہ میں موجود ہیں جب کہ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ یرغمالیوں میں سے 34 کی موت ہو چکی ہے۔
اس سے قبل، اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں 19 جنوری سے 17 مارچ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ بندی کے دوران 33 یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لایا گیا تھا، جن میں سے 8 ہلاک ہو چکے تھے، جب کہ اسرائیل نے ان یرغمالیوں کے بدلے تقریباً 1800 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا تھا۔
غزہ کی وزارت صحت کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 18 مارچ سے اسرائیلی حملے دوبارہ شروع ہونے کے بعد اب تک کم از کم 2 ہزار 62 فلسطینی مارے جاچکے ہیں، جس سے تنازع کے آغاز سے اب تک غزہ میں شہادتوں کی مجموعی تعداد 51 ہزار 439 ہوچکی ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی اپیل پر غزہ کے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں آج ہڑتال کی گئی، جبکہ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی دکانیں اور بازار بند رہے اور گاڑیاں زیادہ تر سڑکوں سے غائب رہیں۔
کراچی میں تاجر تنظیموں کے کئی رہنماؤں نے احتجاج میں شرکت کی جن میں آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر، کوآپریٹو مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری اسلم خان، پیپر مارکیٹ سید لیاقت علی وغیرہ شامل ہیں۔
کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص، گھوٹکی، نواب شاہ، ٹھٹھہ، جیکب آباد، کندھ کوٹ اور شکارپور سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں ہڑتال کی گئی۔
ادھر، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی صبح سے شام تک اظہار یکجہتی ریلیاں نکالی گئیں۔
لاڑکانہ میں ریلی کی قیادت جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ اور امیر ضلعی ایڈووکیٹ نادر علی کھوسہ نے کی۔
پنجاب میں تاجر برادری کی جانب سے صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور جہلم میں تمام کاروباری مراکز اور دکانیں بند رہیں۔
اسی طرح کی ہڑتال کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں بھی کی گئی اور وہاں بازار، دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز بند رہے۔
خیبرپختونخوا میں بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
پشاور کے قصہ خوانی بازار میں جماعت اسلامی کے ضلعی سربراہ بحر اللہ خان ایڈووکیٹ نے احتجاجی ریلی کی قیادت کی۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے لیے دعا کی اپیل کی۔
صوبے کے ہزارہ، مالاکنڈ، مردان، کوہاٹ، ڈی آئی خان ڈویژن میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔
قبل ازیں، ڈان نیوز کے مطابق امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال شروع ہو گئی ہے اور آج ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال اہل غزہ سے یکجہتی کا اظہار ہوگی۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہڑتال پوری قوم کی جانب سے ہے، اور قوم فلسطینیوں سے اظہار محبت کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کی مذمّت کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ آج کی ہڑتال امریکا، اسرائیل اور بھارت کی شیطانی تثلیث کے خلاف ہے، اور پاکستانی قوم فلسطینیوں کی نسل کشی برداشت نہیں کر سکتی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ یہ ہڑتال مسلم حکمرانوں کے لیے پیغام ہوگا کہ وہ بے حمیتی ترک کریں، اور کھل کر غزہ کے مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں کھڑے ہوں۔
غزہ میں فلسطینی شہریوں کی پناہ گاہوں پر اسرائیل کے رات بھر حملوں میں کم از کم 45 فلسطینی اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ بدھ سے جمعرات کی صبح تک صہیونی فوج نے مظلوم فلسطینی عوام کی پناہ گاہوں پر حملے جاری رکھے، بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 45 افراد شہید ہوئے، شہدا میں ایک صحافی بھی شامل ہے۔
آج جمعرات کی صبح سے اب تک کے حملوں میں 13 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ کے مرکزی خیمے کی پناہ گاہ پر اسرائیلی حملے میں 3 بچے بھی شہید ہوئے، اس سے پہلے وسطی غزہ میں نصیرات کے مغرب میں خیمہ پناہ گاہ پر مہلک اسرائیلی حملے کی اطلاع ملی تھی۔
اب مقامی فلسطینی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فضائی حملے میں 3 بچے شہید ہوئے جس کے نتیجے میں فراز اللہ خاندان کے خیمے کی پناہ گاہ میں آگ لگ گئی۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بچے آگ میں جل کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
غزہ میں طبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ’الجزیرہ عربی‘ نے اطلاع دی کہ شہید ہونے والوں میں الاقصیٰ ریڈیو کے صحافی سعید ابو حسنین بھی شامل ہیں۔
18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی جنگ مسلط کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 51 ہزار 305 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 17 ہزار 96 زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں کم از کم ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر عمار بن گویر نے کہا ہے کہ امریکی ریپبلکن پارٹی کے قانون ساز غزہ میں ’خوراک اور امداد کے ڈپو‘ پر بمباری کی ضرورت کے بارے میں ان کے ’بہت واضح مؤقف‘ کی حمایت کرتے ہیں۔
اسرائیلی انسانی حقوق کے گروپ ’یش دین‘ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں راملہ کے شمال مشرق میں واقع سنجیل گاؤں میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں اور زرعی اراضی پر حملے اور انہیں جلانے کی تصاویر اور ویڈیو کلپ شیئر کی ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کام کرنے والی تنظیم ’یش دین‘ کا کہنا ہے کہ آباد کاروں نے رواں ہفتے اب تک دو بار اس گاؤں پر حملہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے آباد کاروں کی جانب سے شروع کی گئی آگ بجھانے کی کوشش کرنے والے مقامی افراد پر آنسو گیس کے گولے داغ کر اس سے قبل ہونے والے حملے میں بھی مدد کی تھی۔
یش دین نے کہا کہ افوج یہودی حملہ آوروں کو قابل بناتی ہیں اور ہنگامی خدمات کو علاقے تک رسائی سے روکتی ہیں، تشدد فلسطینی گاؤں کے قریب ایک نئی آباد کار فارم چوکی کے قیام سے مطابقت رکھتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے صدر محمود عباس نے حماس سے جنگ کے خاتمے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا۔
صدر محمود عباس نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے اور غزہ کا انتظام ان کی پی اے انتظامیہ کے حوالے کرے۔
محمود عباس نے بدھ کے روز ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جہاں مغربی اور عرب طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن کوششوں کی قیادت کرنے کی پی اے کی اہلیت کے بارے میں فکرمند مغربی اور عرب طاقتوں کے دباؤ کے درمیان طویل عرصے سے برسراقتدار رہنما کی جانب سے اپنے جانشین کے نام کا اعلان کیے جانے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل کو غزہ کی آبادی کو ’انسانی بقا کی ضروریات‘ سے محروم کرنے کا انتباہ دے دیا۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (او سی ایچ اے) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ تک امدادی سامان کی ترسیل روکنے سے علاقے کی آبادی ’انسانی بقا کی ضروریات‘ سے محروم ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جبری طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے خیموں پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہادتیں رپورٹ ہو رہی ہیں۔
تازہ ترین حالات کے جائزے میں او سی ایچ اے نے یہ واضح پیغام دیا کہ غزہ کی پٹی کو اکتوبر 2023 میں کشیدگی میں اضافے کے بعد سے 18 ماہ میں بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
او سی ایچ اے کے مطابق اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں، 50 روز سے زائد عرصے سے انسانی امداد اور تجارتی سامان کے داخلے پر پابندی، اسرائیل کی جانب سے امدادی کارکنوں کے قتل اور ان کے احاطے پر حملوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے میں نقل و حرکت پر سخت پابندیوں کی وجہ سے علاقے میں امدادی کارروائیاں رک گئی ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہماری شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کیوں کرتی ہے اور وہ نتائج کیوں تبدیل کرتی ہے، حالانکہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ریاست کے تحفظ کے لیے ہے اور ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری ہے لیکن اسے پسند وناپسند کا اختیار نہیں ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اصول تو یہی ہے کہ الیکشن آزاد اور شفاف اور الیکشن کمیشن کے انتظام کے تحت ہونے چاہیے لیکن شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں مداخلت کرتی ہے، وہ کیوں نتائج تبدیل کرتی ہے، وہ انتخابی عملے کی تبدیلیاں اپنی مرضی سے کیوں کرتی ہے، الیکشن کمیشن کو کیوں لسٹ مہیا کرتی ہے کہ فلاں کو فلاں جگہ پر رکھو، یہ اعتراضات اصولی طور پر ہمارے ہیں جسے ہم نے اجاگر کیا ہے کیوں کہ
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ریاست کے تحفظ کے لیے ہے، وہ ریاست کے مفادات کے لیے ہے ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری لیکن اسے پسند ناپسند کا اختیار نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 32 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق غزہ شہر میں ایک اسکول سے پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد آگ بھڑک اٹھی، اس واقعے میں 10 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جو جل کر کوئلہ بن گیا۔
اسرائیلی بمباری سے غزہ شہر میں الدورا پیڈیاٹرک ہسپتال کو نقصان پہنچا اور پٹی میں امدادی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے بلڈوزر تباہ ہوگئے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے کہا ہے کہ دوحہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اب بھی ثالثوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
18 ماہ قبل غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے بعد سے اب تک کم از کم 51 ہزار 266 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 17 ہزار زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حملوں کے دوران کم از کم 1139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے خبر دی ہے کہ حماس کا ایک وفد قیدیوں کی رہائی اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے نئے دور کے لیے قاہرہ جا رہا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ثالثی کی کوششوں سے واقف 2 ذرائع نے بتایا کہ وفد ایک نئی پیشکش پر تبادلہ خیال کرے گا، جس میں تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد 5 سے 7 سال تک جنگ بندی اور لڑائی کا خاتمہ شامل ہوگا۔
ذرائع نے ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل نے طویل مدتی جنگ بندی کی تجویز پر اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔
دریں اثنا ’اے ایف پی‘ نے حماس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ چیف مذاکرات کار خلیل الحیا کی سربراہی میں وفد مصری حکام سے ملاقات کرے گا، جس کا مقصد جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے نئے خیالات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
گروپ نے اب تک ان رپورٹس پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں نے شمالی اسرائیل کی جانب بیلسٹک میزائل داغا، تاہم صہیونی فوج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میزائل کو بغیر کسی نقصان کے گرا دیا گیا ہے۔
بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بجے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ یمنی حوثیوں نے بحیرہ گلیل کے مغرب میں حیفا، کریوت اور دیگر علاقوں میں فضائی حملے کیے۔
یہ علاقہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے لیے نایاب ہدف ہے، جو اب بھی امریکا کی شدید فضائی حملوں کی مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل پر بار بار میزائل اور ڈرون داغے ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔
باغی گروپ کا یمن کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول ہے اور اسرائیل، یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے اندر حوثیوں کے ٹھکانوں کو متعدد بار نشانہ بنا چکا ہے۔
حوثیوں نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
یمن پر امریکی فضائی حملے، جو 15 مارچ سے شروع ہونے والی تقریباً روزانہ کی مہم کا حصہ ہیں، اس دوران بدھ کی صبح حوثیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
حوثی باغیوں نے الحدیدہ، مارب اور صعدہ گورنریز پر امریکی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
مارب میں حوثیوں نے ٹیلی کمیونیکیشن آلات کو نشانہ بنانے کے بارے میں بتایا، جو پہلے امریکا کا ہدف تھا۔
اس کے جواب میں حوثی باغیوں نے ملک کے اوپر سے اڑنے والے امریکی ڈرونز کو نشانہ بنانا تیز کر دیا، حوثی ملیشیا کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سری نے بتایا کہ باغیوں نے یمن کے شمال مغربی صوبہ حجہ میں ایم کیو-9 ریپر ڈرون مار گرایا ہے۔
ایم کیو 9 ریپر ڈرونز، جن کی قیمت تقریباً 3 کروڑ ڈالر ہے، 40 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں اور 30 گھنٹے سے زیادہ ہوا میں رہ سکتے ہیں۔
امریکی فوج اور سی آئی اے نے کئی سال تک انہیں افغانستان، عراق اور اب یمن پر اڑایا ہے۔
حوثی باغیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یمن جنگ کے گزشتہ ایک عشرے کے دوران 26 ایم کیو نائن طیارے مار گرائے ہیں۔
امریکی فوج نے ڈرون مار گرائے جانے کی خبر کو تسلیم کیا، لیکن کہا ہے کہ وہ اس پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتی۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہازوں اور اسرائیل پر حملوں کو روکنے کے لیے حوثی ’دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنا رہی ہے۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل قانونی طور پر غزہ میں امداد کی اجازت دینے کا پابند ہے۔
الجزیرہ کے مطابق جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کی اجازت دے کر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی امداد کو کبھی بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، اور فلسطینی علاقے میں امداد کو کم نہیں کیا جانا چاہیے۔
اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے اور غزہ کی پٹی میں خوراک، ادویات، ایندھن اور تجارتی سامان سمیت کسی بھی سامان کی آمد و رفت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیل نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ غزہ میں باقی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو قبول کرنے کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے جان بچانے والی اشیا کو روکنے کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان خلیل دیکران نے کہا ہے کہ اسرائیل تقریباً 2 ماہ سے خوراک اور طبی سامان کے داخلے کو روک رہا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں میں غذائی قلت کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
2 مارچ سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ حماس پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ باقی تمام قیدیوں کو رہا کرے، اس نے 18 مارچ کو غزہ پر اپنی جارحیت بھی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
ناکہ بندی شروع ہونے کے بعد سے، روٹی بنانے والی اقوام متحدہ کی فراہم کردہ تمام 25 بیکریوں کو بند کر دیا گیا ہے، امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ آبادی بھوک اور بڑے پیمانے پر بیماری کے دہانے پر ہے۔
پاکستان اور ترکیہ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی حمایت کا اعادہ کیا ہے جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کے سرکاری دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
اردوان نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے پختہ موقف کی تعریف کی۔
رپورٹ میں ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے غزہ میں نسل کشی پر سخت ردعمل دیا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے غزہ میں فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی پر بھی زور دیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ترک صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر منگل کو ترکیہ پہنچے تھے۔
ڈان نیوز کے مطابق انقرہ ایئرپورٹ پر ترک وزیر دفاع نے شہبازشریف کا استقبال کیا تھا، جبکہ اس موقع پر ڈپٹی گورنر، پاک ترک کلچرل ایسوسی ایشن اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات سے واقف ایک سینئر فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ قطری اور مصری ثالثوں نے غزہ میں 5 سے 7 سال تک جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا فارمولا تجویز کر دیا۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں 5 سے 7 سال تک جاری رہنے والی جنگ بندی، اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کا باضابطہ خاتمہ اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی تجویز دی گئی ہے۔
حماس کا ایک سینئر وفد مشاورت کے لیے قاہرہ پہنچنے والا ہے۔
آخری جنگ بندی ایک ماہ قبل اس وقت ختم ہوئی تھی جب اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کر دی تھی، اور دونوں فریق اسے جاری رکھنے میں ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے ثالثوں کے منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دریں اثنا حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے ایک طبی اہلکار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ پیر کی شام سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 22 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ فلسطینی شہری خان یونس، جبالیہ، بیت لاہیا اور غزہ سٹی میں شہید ہوئے اور 45 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مقامی رہائشیوں اور عینی شاہدین نے فضائی حملوں کو ’انتہائی شدید‘ قرار دیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق ان حملوں میں درجنوں بلڈوزر اور بھاری مشینری تباہ ہو گئی، جو حماس کے زیر انتظام میونسپلٹیز کی جانب سے سڑکوں کو دوبارہ کھولنے، ملبے کو صاف کرنے اور ملبے تلے دبے متاثرین کو بچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
غزہ کے جنوب میں واقع رفح شہر کے جنوبی حصے میں بھی ٹینکوں کو حرکت کرتے دیکھا گیا ہے، اسرائیل اپنے جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔
قاہرہ میں حماس کی سیاسی کونسل کے سربراہ محمد درویش اور اہم مذاکرات کار خلیل الحیا اعلیٰ سطح پر حماس کی نمائندگی کریں گے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چند روز قبل حماس نے اسرائیل کی تازہ ترین تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس میں حماس سے 6 ہفتوں کی جنگ بندی کے بدلے میں غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ہفتے کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔
حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی سے قبل جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا جائے۔
بات چیت سے واقف فلسطینی عہدیدار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ حماس نے غزہ کا نظم و نسق کسی بھی فلسطینی ادارے کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس پر ’قومی اور علاقائی سطح پر‘ اتفاق کیا گیا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ یہ مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی (پی اے) یا نو تشکیل شدہ انتظامی ادارہ ہوسکتا ہے۔
نیتن یاہو نے غزہ کی مستقبل کی حکمرانی میں پی اے کے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا ہے، جہاں 2007 سے حماس کی حکومت ہے۔
اگرچہ کامیابی کے امکانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے، ذرائع نے ثالثی کی موجودہ کوشش کو سنجیدہ قرار دیا اور کہا کہ حماس نے ’غیر معمولی لچک‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں تقریباً ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، اور 200 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے جایا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل نے اس کے جواب میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس میں 51 ہزار 240 فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب قاہرہ میں فلسطینی سفارت خانے نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے مصر کے ہسپتالوں میں طبی انخلا اور انسانی امداد کے داخلے میں سہولت فراہم کریں، اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ غزہ کی سرحد کے قریب واقع مصری شہر اریش منتقل ہو جائیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ روکے جانے پر ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا، تاریخی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے پر کیمپس میں یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے اور دیگر خدشات کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کرنے سے انکار کردیا تھا۔
نیو یارک پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر 69 سالہ ایلن گاربر نے صدر ٹرمپ کی ٹیم پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وفاقی فنڈز کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے کیمپس کے معاملات پر ’بے مثال اور نامناسب کنٹرول‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ایلن گاربر نے ایک بیان میں متنبہ کیا کہ ان اقدامات کے مریضوں، طلبہ، فیکلٹی، عملے، محققین اور دنیا میں امریکی اعلیٰ تعلیم کی ساکھ پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
حکومت کی حد سے تجاوز کے نتائج سنگین اور دیرپا ہوں گے۔
اس ماہ کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ کی وائٹ ہاؤس کی ٹاسک فورس برائے یہود دشمنی نے 11 اپریل کو ہارورڈ یونیورسٹی کو ایک ای میل بھیجی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ معروف جامعہ یہود دشمنی پر پابندی لگائے اور میرٹ کے حق میں کچھ تنوع اور صنفی پروگراموں کو ختم کرے۔
ان مطالبات میں میرٹ کی بنیاد پر مزید بھرتیاں کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔
مطالبہ کیا گیا تھا کہ تنوع، مساوات اور شمولیت کے پروگراموں کو ختم، یہود دشمنی اور دیگر تعصب کے بدترین ریکارڈ والے پروگراموں میں اصلاحات لائی جائیں۔
بین الاقوامی درخواست دہندگان کے داخلوں کی جانچ پڑتال کو تیز کیا جائے تاکہ امریکی اقدار کے مخالف طلبہ کو داخلہ دینے سے روکا جا سکے، ان اقدامات میں دہشت گردی یا یہود مخالف اقدامات کو روکنا بھی شامل تھا۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام ( ف ) مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے، سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کے ہمراہ لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے، فلسطینیوں کے لیے ملک بھر میں ہم بیداری کی مہم چلائیں گے، تاکہ ہماری قوم، امت مسلمہ اور اس کے حکمران یکسو ہوکر مظلوم فلسطینیوں کے مداوے کے لیے کچھ کردار ادا کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے 27 اپریل کو مینارپاکستان پر بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا، جس میں مذہبی جماعتیں شرکت کریں گی۔
سربراہ جے یو آئی ( ف ) نے کہا کہ ’ مجلس اتحاد امت ’ کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، لاہور میں اجتماع بھی اسی پلیٹ فارم کے تحت ہوگا، جس میں تمام مذہبی پارٹیاں اور تنظیمیں شریک ہوں گی اور مینار پاکستان جلسے میں فلسطینیوں سےاظہاریکجہتی کریں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کا بڑا واضح موقف ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے اور یہ امت مسلمہ کی کمزوریاں ہیں، امت مسلمہ کو اپنے حکمرانوں کے رویے سے شکایت ہے کہ وہ اپنا حقیقی فرض کیوں ادا نہیں کررہے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کے حوالے سے جے یو آئی کا منشور بڑا واضح ہے، ہر صوبے کے وسائل اس صوبے کے عوام کی ملکیت ہیں، ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگ اگر اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا، بہتر ہوتا کہ ہم مرکز میں تمام صوبوں کو بٹھاتے اور متفقہ لائحہ عمل طے کرتے، یہ حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ ہر مسئلے کو متنازع بنادیتے ہیں۔
26 ویں ترمیم کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے مولانا نے کہا اس ترمیم پر ہمارا اختلاف تھا اسی لیے 56 شقوں میں سے حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کرایا گیا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین اور غزہ ہے، اسرائیل امریکا کی سرپرستی میں ظلم کررہا ہے، اس پر ہمارا اتفاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کریں، اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوں اور ظالموں کی مذمت کریں، چاہے وہ امریکا ہو یا اسرائیل ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سب کو آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہونی چاہیے اور سب کو قبول کرنی چاہیے، اور تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی کا اپنا ایک نظام ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جماعت اسلامی کا اپنا ایک موقف ہے اور ہم نے اس ترمیم کو کلیتاً مسترد کیا تھا، اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہم جدوجہد کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا الیکشن کے حوالے سے موقف تھوڑا سا مختلف ہے، ہم الیکشن میں دھاندلی کے موقف پر جے یو آئی سے اتفاق کرتے ہیں مگر ہم فوری طور پر نئے الیکشن کا مطالبہ نہیں کررہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اس پر ہمارا موقف ہے کہ چونکہ فارم 45 اکثر لوگوں کے پاس موجود ہے اور انتخاب کو ابھی ایک سال ہوا ہے، تو ہمارا موقف یہ ہے کہ اتفاق رائے سے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کرے۔
اسرائیلی فوج نے تازہ فضائی حملوں میں 24 گھنٹوں کے دوران مزید 39 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 39 فلسطینی شہید ہوئے، جس کے بعد 18 ماہ سے جاری جنگ میں شہادتوں کی تعداد بڑھ کر 51 ہزار 240 ہوگئی ہے۔
وزارت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 62 دیگر افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا، جس کے بعد زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار 931 ہوگئی ہے۔
غزہ سول ڈیفنس اور فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے 14 فلسطینی ایمرجنسی ورکرز اور اقوام متحدہ کے ملازم کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے گزشتہ ماہ ہونے والے وحشیانہ قتل کی اسرائیلی تحقیقات کو مسترد کردیا ہے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی واپسی جنگ کا سب سے اہم مقصد نہیں ہے۔
دائیں بازو کے گیلی اسرائیل ریڈیو اسٹیشن کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں غزہ کے مسئلے کو مستقل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کی جانب سے شائع ہونے والے تازہ ترین سروے کے مطابق تقریباً 56 فیصد اسرائیلی عوام غزہ میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے حماس کے زیر حراست تمام قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔
سروے کے مطابق 22 فیصد اسرائیلی عوام اس طرح کے معاہدے کے مخالف ہیں۔
کنٹر انسٹیٹیوٹ کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کو پارلیمان میں نشستیں مل رہی ہیں، جب کہ یائر لاپیڈ کی حزب اختلاف یش عتید کی حمایت کمزور ہوئی ہے۔
حوثیوں سے وابستہ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا کے ایک مشہور بازار پر ہونے والے تازہ ترین امریکی حملے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق انصار اللہ کے نام سے مشہور حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں عمارتوں اور نجی تجارتی دکانوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
ایمبولینس اور ریسکیو ٹیمیں متاثرین کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب بھی تازہ ترین حملے کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
امریکا نے مارچ میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا، اور اس کے بعد سے اب تک متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا میں امریکی حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس کے بعد اطلاعات مل رہی ہیں کہ ملک پر مزید امریکی حملے ہو رہے ہیں۔
حوثیوں کے ذرائع ابلاغ المسیرہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ امریکی افواج نے شمال مغربی صوبہ امران میں 3 اور شمالی صوبہ مارب کے ضلع الجوبہ پر مزید 2 حملے کیے ہیں۔
المسیرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارب کے ضلع سرواہ پر 4 دیگر حملے بھی ہوئے ہیں۔
امریکا نے 16 مارچ کو یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی حملے شروع کیے تھے، جس میں کم از کم 53 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، یہ حملے اس وقت کیے گئے تھے، جب حوثیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں پر دوبارہ حملے شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض حوثیوں نے نومبر 2023 سے اب تک ملک کے ساحل کے قریب بحری جہازوں پر 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
امریکی فرم پروجیکٹ 44 کے مطابق ان حملوں کی وجہ سے 2024 میں نہر سوئز سے گزرنے والے ٹریفک میں 75 فیصد کمی واقع ہوئی، اور ٹرانزٹ کے اوقات میں اوسطاً 7 سے 14 دن کا اضافہ ہوا ہے، کیونکہ شپنگ کمپنیاں طویل متبادل راستے اختیار کر رہی ہیں۔
جنوری میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کے بعد حوثی باغیوں نے حملے روک دیے تھے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کے خلاف اس کی مہم کا مقصد دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا اور بین الاقوامی تجارت کا تحفظ کرنا ہے۔
یمن میں امریکی حملوں میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 80 ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو راس عیسیٰ آئل فیلڈ پر حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
پوپ فرانسس نے ایسٹر سنڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے، جب پوپ (جو اب بھی نمونیا سے صحت یاب ہو رہے ہیں) سینٹ پیٹرز بیسلیکا کی مرکزی بالکونی میں مختصر حاضری کے دوران نظر آئے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 88 سالہ پوپ نے ڈاکٹروں کے حکم پر اپنے کام کے بوجھ کو محدود کرتے ہوئے ایسٹر کے موقع پر ویٹی کن کی دعائیہ تقریب کی صدارت نہیں کی، بلکہ تقریب کے اختتام پر سال میں 2 مرتبہ ہونے والی ’اربی ایٹ اوربی‘ (شہر اور دنیا کے لیے) کے نام سے ایک دعائیہ تقریب میں شریک ہوئے۔
نمونیا کے باعث 5 ہفتوں تک ہسپتال میں رہنے سے قبل پوپ فرانسس غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم پر تنقید کرتے رہے ہیں اور فلسطینی علاقے میں انسانی صورتحال کو ’انتہائی سنگین اور شرمناک‘ قرار دیا۔
ایسٹر کے پیغام میں پوپ نے کہا کہ غزہ کی صورتحال ڈرامائی اور افسوسناک ہے۔
انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ باقی قیدیوں کو رہا کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں تمام اسرائیلی عوام اور فلسطینی عوام کے مصائب کے ساتھ اپنی قربت کا اظہار کرتا ہوں، میں متحارب فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ جنگ بندی کا اعلان کریں، یرغمالیوں کو رہا کریں اور بھوکے لوگوں کی مدد کے لیے آئیں، جو امن کے مستقبل کے خواہاں ہیں۔‘
مقامی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک 51 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ان میں سے صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران 1600 افراد شہید ہوئے ہیں۔
امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس، جو ہفتے کے آخر میں اٹلی کا دورہ کر رہے ہیں، نے ایسٹر کی آمد سے قبل ویٹی کن میں پوپ فرانسس سے ملاقات کی تھی۔
ویٹی کن کا کہنا ہے کہ وینس کے ساتھ ملاقات مختصر اور چند منٹ تک جاری رہی تاکہ ایسٹر کی مبارک باد کا تبادلہ کیا جا سکے۔