اس تنازع نے ہماری کمزوریوں کو آشکار کیا ہے کیونکہ کشیدگی کے دوران ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ آیا آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط منظور کرے گا یا نہیں۔
شائع14 مئ 202512:17pm
سرحد پار مزاج انتہائی گرم ہے اور حالیہ تنازع نے واضح کیا ہے کہ مستقبل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی صرف لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں تک محدود نہیں رہے گی۔
خوش آئند طور پر جنوبی ایشیا میں جلتی آگ بجھ چکی ہے اور وہ ایسے ملک نے بجھائی ہے جو دنیا میں ممالک کے درمیان سب سے زیادہ آگ لگانے کے لیے ہی جانا جاتا ہے۔
جوہری طاقت بننے کی کہانی یاد کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان نے متعدد چیلنجز کا سامنا کیا اور ان پر قابو پایا تاکہ وہ مستقبل میں بھارت کے خلاف اپنی سلامتی کا تحفظ کرسکے۔
اگرچہ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط پر بات چیت آگے بڑھائے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر کی گئی پیش کش کو مسترد کرنا بھارت کے لیے کتنا آسان ہوگا؟
پارلیمانی کمیونسٹ جماعتیں جن کی ریاستی قوم پرستی کو چیلنج کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے اور جو جنگ کی مخالفت کرتی ہیں، وہ بھی اب مودی حکومت کی ڈگر پر چل پڑی ہے۔
اگرچہ غیرملکی سفارتکار تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہہ رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جتنی گہری بداعتمادی ہے، وہ فون کالز یا بیک چینلز پیغامات کے ذریعے ختم نہیں ہوسکتی۔
چنئی سے کولمبو جانے والے طیارے میں پہلگام حملے میں ملوث مشتبہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے سیکیورٹی تلاشی لی گئی جو ظاہر کرتا ہے کہ مجرمان چکما دے کر بھارت سے فرار ہوچکے ہیں۔
سانحہ پہلگام انتہائی لرزہ خیز تھا لیکن اسے جواز بنا کر طبلِ جنگ نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی پانی کی تقسیم کو ہتھیار بنا کر یا نفرت پھیلا کر مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود جنگ کا تصور کہ جس میں حالات جوہری جنگ کے نہج تک نہ پہنچیں، انتہائی خطرناک ہے جبکہ ایسی صورت حال سے ہر صورت بچنا ہوگا۔
یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان واحد معاہدہ ہے جو تین بڑی جنگوں جموں و کشمیر اور دونوں ممالک کے مختلف حصوں میں ہونے والی بغاوتوں اور 2002 کے عسکری بحران کے باوجود قائم رہا ہے۔
گر اصلاحات کو شفافیت، جوابدہی اور صوبائی و عوامی حقوق کے احترام کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا تو پھر کوئی کانفرنس، چاہے جتنی بھی خوشنمائی سے پیش کی جائے دیرپا خوشحالی نہیں لا سکے گی۔
یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کر کے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں۔ اس کے بجائے، ہم معقول آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے زبردستی طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف اس راستے پر گامزن نظر آتی ہے جس سے پہلے مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلزپارٹی گزر چکی ہیں، اور یہی بات پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ سمیت دوسرے لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے۔
اگر سول سرونٹس چاہیں تو وہ تبدیلی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ نئی سوچ کو وہ تسلسل دے سکتے ہیں جس کی اسے حکومتوں کی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے ضرورت ہے۔
سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے ریاست ایسے اقدامات کا سہارا لے رہی ہے جن سے بلوچستان کی بےچینی میں مزید اضافہ ہوگا۔
پنجاب کے موقع پرست سیاست دانوں کے اس رویے کی وجہ سے مسئلہ بڑھتا گیا اور آج پورا پاکستان بلوچستان بن گیا ہے جبکہ پاکستان کو 'گریٹر پنجاب' میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
جب تک بی جے پی نے اپنی مذموم سیاست کی وجہ سے اس پورے معاملے کو اپنی فرقہ وارانہ جنونیت میں تبدیل نہیں کیا تب تک کسی کو اورنگزیب یا اس کی قبر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
دو سابق سوویت ایجنٹس نے تسلیم کیا کہ بی ایل اے درحقیقت سوویت کا پروجیکٹ تھا جو بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش تھی کیونکہ پاکستان افغان جنگ میں سوویت کے خلاف تھا۔