لائیو بلاگ: ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں اور رپورٹس
تیرہواں روز:
جنگ 13 جون کو شروع ہوئی جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور پہلے ہی دن ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی رہنما، جوہری سائنسدان اور عام شہری شہید ہو گئے۔
اسی دن رات سے ایران کے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس نے بھی تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں فوجی اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا، اس کے بعد دونوں جانب سے مسلسل 12 روز ایک دوسرے پر تواتر سے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
22 جون کو امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔ 23 جون کی رات ایران نے آپریشن ’بشارت فتح‘ کے تحت عراق اور قطر میں امریکی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملے کیے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
24 جون کو قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے ایران کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ کیا، جب کہ تہران نے بھی امریکی تجویز پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی ایران کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کا اعلان کیا اور دونوں جانب سے جنگ بندی نافذ ہوگئی۔
تقریب سے غیر حاضری کوئی نادر، بے مثال یا عجیب واقعہ نہیں ہے، یہ ان کے معمول کے کردار اور روایت سے وابستگی ہے، ایرانی ثقافتی مشیر
شائع03 جولائ 202509:05pm
اپنی رہائشگاہ پر منعقد ہونے والی محرم کی تقریب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے شرکت نہیں کی، کیا اب بھی ان کی زندگی کو خطرہ ہے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں محرم الحرام کے حوالے سے ہونے والی ایک اعلی سطح کی تقریب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی رہائش گاہ امام خمینی حسینیہ میں منعقد ہوئی، تاہم اس میں وہ شریک نہیں ہوئے، جبکہ ہر سال وہ تقریب میں موجود ہوتے تھے۔
ایران پر صہیونی ریاست کے حملے کے بعد سے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای عوامی مقامات پر نظر نہیں آئے، اس غیر موجودگی نے عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔
صرف کووڈ-19کے دوران تقریب عوام کے بغیر منعقد نہیں کی گئی تھی، تاہم سپریم لیڈر روضہ حسینیہ میں اکیلے نمودار ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اسرائیل اور ایران جنگ کے آغاز کے بعد سے تقریباً 22 دن سے منظر عام پر نہیں ہیں، جبکہ معمول سے ہٹ کر وہ شہید ہونے والے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں سال ہونے والی یہ تقریب کئی انداز میں مختلف تھی، جہاں کئی فوجی کمانڈروں کے ساتھ انتظامیہ اور عدلیہ کے سربراہان نے بھی شرکت کی، جبکہ متعدد بچے بھی شریک ہوئے، جنہوں نے شہید کمانڈروں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
لبنان میں ایران کے ثقافتی مشیر اور آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کامل باقر زادہ نے تقریب میں ایران کے رہبر اعلیٰ کی غیر موجودگی کو ’تحفظ پسندانہ نظریہ‘ کی پاسداری قرار دیا ہے۔
انہوں نے لکھاکہ ’تقریب سے غیر حاضری کوئی نادر، بے مثال یا عجیب واقعہ نہیں ہے، درحقیقت یہ ان کے معمول کے کردار اور روایت سے وابستگی ہے، جو اپنے ذاتی مفادات پر محافظ ٹیم کی ماہرانہ رائے کو ترجیح دینا ہے۔‘
یاد رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا تھا، جبکہ 12 دن بعد جنگ بندی ہو گئی، لیکن سپریم لیڈر خامنہ ای عوام کے سامنے نہیں آئے۔
27 جون کو اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعتراف کیا تھا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بہت کوشش کی تھی، مگر کوئی عملی موقع نہیں مل سکا تھا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کو معلوم ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر نے مزید کہا تھا کہ خامنہ ای اس وقت ہمارے لیے ایک آسان ہدف ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں نشانہ نہیں بنائیں گے۔
دو جولائی کو ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا تھا
شائع03 جولائ 202508:20pm
ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ( این پی ٹی ) سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے تہران کے فیصلے پر جرمنی کی تنقید کو بدنیتی قرار دیا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ ’ ایران این پی ٹی اور اس کے سیف گارڈز ایگریمنٹ پر قائم ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ ایران پر بمباری کی جرمن حمایت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جرمن حکومت ایرانیوں کے لیے بد نیتی کے سوا کچھ نہیں رکھتی۔’ یہ بات انہوں نے جرمن دفتر خارجہ کی اُس پوسٹ کے جواب میں کہی جس میں ایران کے اقدام پر تنقید کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ بدھ کو، ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا تھا، جس کی وجہ ایجنسی کا اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت نہ کرنا تھا جو ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے تھے۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں، جرمنی کی وزارت خارجہ نے ایران سے ’ اس فیصلے کو واپس لینے’ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ’ تباہ کن پیغام’ دیتا ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ’ اس اقدام سے ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی نگرانی کا امکان ختم ہوجائے گا، جو ایک سفارتی حل کے لیے انتہائی اہم ہے۔’
عباس عراقچی نے 13 جون کو جرمنی کی ’ اسرائیل کے ایران پر غیر قانونی حملے کی واضح حمایت’ کی شدید مذمت کی تھی، جس میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اور جوہری سائنسدان شہید ہوئے تھے۔
17 جون کو، جرمن چانسلر فریڈرک میرز نے کہا تھا کہ اسرائیل ایران کے جوہری ڈھانچے کو نشانہ بنا کر’ ہم سب کے لیے گندا کام کر رہا ہے۔’
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ میں، اسرائیل نے امریکا کے ساتھ مل کر فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیےتھے۔
عدلیہ کے مطابق، اس جنگ کے دوران ایران میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
حزب اللہ کے زیر کنٹرول مالیاتی ادارے 'القرض الحسن' سے منسلک کئی اعلیٰ عہدیداروں اور ایک ادارے پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں، امریکی محکمہ خزانہ
شائع03 جولائ 202507:57pm
امریکا نے ایرانی تیل کی تجارت کرنے والے ایک کاروباری نیٹ ورک اور حزب اللہ کے زیر کنٹرول ایک مالیاتی ادارے پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ نے بتایا کہ یہ اقدامات ایران کی معیشت اور حزب اللہ کے مالی ڈھانچے پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی بزنس مین سلیم احمد سعید کے زیر انتظام کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک کم از کم 2020 سے ایرانی تیل کو عراقی تیل ظاہر کر کے یا اس میں ملا کر اربوں ڈالر مالیت کا تیل خرید اور فروخت کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ تہران کے مالی ذرائع کو نشانہ بنانے اور ایسے مالی وسائل تک رسائی روکنے کے لیے دباؤ بڑھاتے رہیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ متعدد بحری جہازوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن پر ایرانی تیل کی خفیہ ترسیل میں ملوث ہونے کا الزام ہے، یہ اقدام ایران کے ’شیڈو فلیٹ‘ کے خلاف دباؤ کو مزید سخت کرنے کی کوشش ہے۔
اس کے علاوہ، امریکی محکمہ خزانہ نے حزب اللہ کے زیر کنٹرول مالیاتی ادارے ’القرض الحسن‘ سے منسلک کئی اعلیٰ عہدیداروں اور ایک ادارے پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
محکمہ کے مطابق ان عہدیداروں نے لاکھوں ڈالر کی ایسی مالی لین دین کی، جس سے بالآخر حزب اللہ کو فائدہ ہوا، لیکن اس کا اصل مقصد چھپایا گیا۔
جس طرح عالمی رہنماؤں کو قائل کیا گیا ہے اور جس طرح یہ معاملہ انجام کو پہنچا ہے، اس میں ہمارے رہنماؤں کا کردار ہے، وزیر داخلہ کی علمائے کرام کے اجلاس میں گفتگو
اپ ڈیٹ03 جولائ 202501:14pm
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ایران کی کامیابی اور سیز فائر میں وزیراعظم کا بڑا کردار ہے اور اس کے پیچھے بھی وردی ہے، جس طرح عالمی رہنماؤں کو قائل کیا گیا ہے اور جس طرح یہ معاملہ انجام کو پہنچا ہے، اس میں ہمارے رہنماؤں کا کردار ہے۔
اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ تمام علمائےکرام کی آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں، علمائےکرام کا معاشرے میں اہم کردار ہے، قیام امن کے لیے علما نے ہمیشہ کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ محرم میں مذہبی ہم آہنگی کا فروغ انتہائی ضروری ہے، ہم سب کا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنا مسلک چھوڑو مت اور کسی کے مسلک کو چھیڑو مت، امام حسینؓ کسی ایک مسلک کے نہیں سب کے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ مدد و نصرت شامل رہی، ہم نے بھارت کی طرف میزائل فائر کیے تو ایک میزائل میں کچھ نمبروں کا فرق آگیا، سب پریشان ہوئے کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بھارت میں شہری آبادی کو نقصان پہنچے، یا ایک شہری بھی مارا جائے، انہوں نے ہماری شہریوں کو نشانہ بنایا لیکن ہم یہ نہیں کریں گے۔
محسن نقوی نے بتایا کہ ہمیں یہ پریشانی تھی کہ یہ میزائل آبادی پر گر جائے گا مگر اللہ کی طرف سے یہ مدد آئی کہ وہی میزائل ان کے سب سے بڑے آئل ڈپو پر گرا اور آگ لگ گئی، بھارت کی وڈیوز میں جو سب سے بڑی آگ والی اسی میزائل کی ویڈیو ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرا قصہ یہ ہے کہ بھارت نے ایک ایئربیس پر 9 یا 11 میزائل فائر کیے، اس بیس پر ہمارے جہاز بھی تھے اور باقی لوگ بھی تھے، ہم بڑے پریشان تھے کہ یہ میزائل گرے تو بہت نقصان ہوجائے گا، مگر ایک بھی میزائل بیس پر نہیں گرا، کوئی آگے گرا اور کوئی پیچھے گرا، یہ مثالیں غیبی مدد کا ثبوت ہیں، جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اس وقت بالکل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے اور وہ بالکل واضح تھے کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو وہ چار گنا زیادہ بھگتے گا اور انہوں نے بھگتا۔
’مقامی مدد کے خاتمے تک خیبرپختونخوا میں دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ محرم کے بعد تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے پاس جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ 14 اگست کو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ظہر کی نماز فیصل مسجد میں ادا کریں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ ہم سب اکٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی عروج پر ہے، ہم سب اکٹھے وہاں جاکر علمائے کرام سے ملاقات کریں گے، خاص طور پر جن مقامات پر دہشت گردی زیادہ ہے وہاں ہم سب جائیں گے، کیونکہ دہشت گردی صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے جب مقامی لوگ دہشت گردوں کی مدد کرنا بند کردیں، جس دن مدد ختم ہوگئی دہشت گرد اس گلی، محلے اور گاؤں میں نہیں رہ سکتے۔
صدر مسعود پزیشکیان نے ' بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کی حتمی منظوری دے دی ہے، ایرانی میڈیا
اپ ڈیٹ02 جولائ 202505:54pm
تہران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا، یہ اقدام اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اُٹھایا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 13 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ 12 دن تک جاری رہی تھی، جس کے بعد تہران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا تھا۔
25 جون کو، جنگ بندی کے ایک دن بعد، ایرانی قانون سازوں نے بھاری اکثریت سے اس بل کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کیا گیا۔
سرکاری میڈیا نے آج بتایا کہ اس قانون سازی نے آخری مرحلہ بھی عبور کر لیا ہے اور اب یہ قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔
ایرانی میڈیا میں شائع ہونے والے قانون کے متن کے مطابق یہ قانون سازی ’ اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کے تحت بنیادی حقوق کی مکمل حمایت کو یقینی بنانے’ اور ’ خصوصاً یورینیم کی افزودگی’ کے مقصد سے کی گئی ہے۔
یورینیئم افزودگی کا معاملہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری مذاکرات میں اختلافات کی اصل وجہ رہا، جو جنگ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور بعض مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، تاہم تہران نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔
قانون کے متن میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں بتائے گئے، حالانکہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل تھی۔
پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد اس بل کو گارڈین کونسل نے منظور کیا، جو قانون سازی کی جانچ پڑتال کی ذمہ دار ہے، اور اس کے بعد صدارتی منظوری دی گئی۔
ایرانی سرکاری ٹی وی نے آج بتایا کہ صدر مسعود پزیشکیان نے ’ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کی حتمی منظوری دے دی ہے۔’
ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر شدید تنقید کی ہے کہ اس نے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں پر ’ خاموشی’ اختیار کی۔
’فریب دہی اور دھوکا بازی‘
تہران نے اقوام متحدہ کے ادارے کی اس قرارداد کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو 12 جون کو منظور ہوئی تھی اور جس میں ایران پر جوہری ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے کہا کہ یہ قرارداد (ایران پر) اسرائیلی حملوں کے لیے ’ بہانے’ میں شامل تھی۔
سینئر عدالتی عہدیدار علی مظفری نے آج کہا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کو اس ’ جرم’ کی تیاری کے لیے ’ جوابدہ’ ٹھہرایا جانا چاہیے، جس سے ان کی مراد اسرائیلی فضائی حملے تھے۔
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق علی مظفری نے رافیل گروسی پر ’ فریب کاری اور جھوٹی رپورٹس’ جاری کرنے کا الزام لگایا۔
ایران نے رافیل گروسی کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، اور اس ہفتے کے اوائل میں پزیشکیان نے ان کے طرزِ عمل کو ’ تخریبی’ قرار دیا تھا۔
ایران کا کہنا ہے کہ رافیل گروسی کی جانب سے بمباری زدہ مقامات کا دورہ کرنے کی درخواست ’ بد نیتی’ کو ظاہر کرتی ہے لیکن یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ رافیل گروسی یا ایجنسی کے معائنہ کاروں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ نےآئی اے ای اے کے سربراہ کے خلاف’ دھمکیوں’ کی مذمت کی ہے۔
ایران کے انتہائی قدامت پسند اخبار کیہان نے حالیہ دنوں میں دعویٰ کیا ہے کہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ رافیل گروسی اسرائیلی جاسوس ہیں اور انہیں پھانسی دی جانی چاہیے۔
’سنگین‘ نقصان
پیر کے روز ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی ووٹنگ ایرانی عوام کی’ تشویش اور غصے’ کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ 12 روزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر بڑے پیمانے پر بمباری کی اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز، جوہری سائنسدانوں اور سیکڑوں شہریوں کو شہید کر دیا تھا، جس کے جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کی بارش کر دی تھی۔
22 جون کو اسرائیل کے اتحادی امریکا نے نے فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر اپنی نوعیت کے پہلے حملے کیے تھے۔
عدلیہ کے مطابق ایران میں اسرائیلی حملوں میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق ایران کے جوابی حملوں میں اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’ تباہ’ کر دیا، اگرچہ نقصان کی مکمل تفصیل واضح نہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیبات کو ’ سنگین’ نقصان پہنچنے کا اعتراف کیا تھا، تاہم انہوں نے سی بی ایس ایوننگ نیوز کو حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بمباری سے کسی ٹیکنالوجی یا سائنس کو مکمل طور پر مٹایا نہیں جا سکتا۔‘
کیا ہمیں ایک بار پھر ڈائیلاگ میں مصروف کر کے دوبارہ حملے کیے جائیں گے ؟ امریکا کو اس اہم سوال پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی، ڈپٹی وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی
شائع30 جون 202505:41pm
ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات اُس وقت تک بحال نہیں ہو سکتے جب تک امریکا مزید حملے نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کرواتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ امریکا نے دوبارہ مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے اشارے دیے ہیں، ہم فی الحال کسی بھی تاریخ پر رضا مند نہیں ہوئے اور نہ ہی بات چیت کے کسی ممکنہ طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا اس وقت ہم اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا ہم ایک بار پھر سے ڈائیلاگ کے دوران جارحیت کا مظاہرہ دیکھیں گے ؟ امریکا کو اس اہم سوال پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔
خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری تھے کہ اس دوران اسرائیل نے ایران کے جوہری سائٹس، فوجی تنصیبات کو فضائی حملوں سے نشانہ بنایا تھا، بعد ازاں امریکا نے بھی 21 جون کو ایران کی فرودو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات پر بم گرائے تھے۔
ایرانی ڈپٹی وزیرخارجہ نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ امریکا نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ہدف بناتے ہوئے رجیم کی تبدیلی نہ کرنے کے اشارے دیے ہیں۔
ماجد تخت روانچی نے مزید کہا کہ ایران کو جوہری افزودگی کی اجازت ملنی چاہیے تاہم اس کی مقدار اور گنجائش پر بات چیت ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ آپ یورینیم کی افزودگی نہیں کر سکتے، آپ کے پاس یورینیم کی افزودگی صفر ہو اور اگر آپ اس بات پر رضامند نہ ہوں، ہم آپ پر بم برسائیں گے، یہ ایک جنگل کا قانون ہے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ایرانی کا جوہری پروگرام بم بنانے کے قریب تھا، جبکہ ایران کا ماننا ہے کہ تہران پر امن مقاصد کے لیے یہ کر رہا ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ایران کی جوہری تنصیبات کو امریکی حملوں کے بعد کس حد تک نقصان پہنچا ہے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کےجوہری توانائی سے متعلق نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا تھا کہ ایران آئندہ کچھ ماہ کے دوران دوبارہ یورینیم کی افزودگی کے قابل ہو جائے گا۔
تخت روانچی کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔
2015 کے معاہدے کے تحت ایران کو 3.67 فیصد یورینیم کی فیول اور کمرشل نیوکلیئر پاور پلائنٹس کے لیے افزودگی کی اجازت حاصل تھی، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد ایران یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک لے گیا تھا، اگر اس مٹیریل کو مزید ریفائن کیا جاتا تو یہ ممکنہ طور پر 9 سے زائد نیوکلیئر بموں کے لیے کافی ہوتا۔
میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے گفتگو میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ جنگ کےدوران ایران کے ساتھ کھڑے رہے، ایرانی میڈیا
اپ ڈیٹ29 جون 202511:04pm
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حمایت پر پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اتوار کو چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں اسلام آباد کے بہادرانہ موقف کی تعریف کی۔
میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے فیلڈ مارشل سے گفتگو میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی 12 روزہ جارحیت کے دوران ایران کے ساتھ کھڑے رہے۔
ایرانی کمانڈر نے صہیونی حکومت کی جانب سے ایرانی عوام کے خلاف بلا اشتعال جارحیت کے جواب میں پاکستانی عوام کے جرأتمندانہ موقف کا بھی شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ جب اسرائیلی حکومت نے 13 جون کو ایران پر اپنی وحشیانہ جارحیت شروع کی، تو پاکستان کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایران کی حمایت کی گئی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سے ٹیلی فونک گفتگو میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت تمام سفارتی فورمز پر ایران کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا تھا اور تمام فریقوں سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی پاسداری پر زور دیا تھا۔
وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے بھی ایرانی ہم منصب سے گفتگو میں ایک بار پھر اپنی حکومت کے اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی رکھتی ہے، انہوں نے ایرانی عوام کے لیے پاکستانی عوام کی حمایت کو بھی اجاگر کیا تھا۔
وزیرخارجہ و وزیردفاع نے اسرائیل کے بلااشتعال ایران پر حملے کے بعد کہا تھا کہ دنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں ہوشیار اور فکرمند رہنا چاہیے، جو کسی بھی بین الاقوامی جوہری ضابطے کا پابند نہیں اور نہ ہی جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) معاہدے کا پابند ہے۔
آئی اے ای اے کو جوہری تنصیبات پر نگرانی کے لیے کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ
اپ ڈیٹ29 جون 202511:05pm
ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) کے سربراہ رافیل گروسی کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کےجوہری نگران ادارے ( آئی اےای اے ) کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کو ایران میں داخل ہونے اور آئی اے ای اے کو جوہری تنصیبات پر نگرانی کے لیے کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انادولو ایجنسی نے ایرانی قومی خبر رساں ایجنسی ارنا (آئی آر این اے ) کے حوالے رپورٹ کیا کہ عباس عراقچی نے ایک بیان میں کہاکہ’ ہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو اپنی جوہری تنصیبات پر کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دیں گے، اور ایجنسی کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی ہوگی۔’
یہ اعلان اسرائیل اور امریکا کے ساتھ حالیہ فوجی تنازعات کے بعد نگرانی تک رسائی اور شفافیت پر تہران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
یہ اقدام ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے بدھ کے روز آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قانون سازی کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ تنازعہ 13 جون کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے ایران کے فوجی، جوہری اور شہری ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس میں ایران کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 606 افراد شہید اور 5332 زخمی ہوئے۔
تہران نے اسرائیل پر جوابی میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 29 افراد ہلاک اور 3400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
21 جون کو امریکا بھی براہ راست اس لڑائی میں شامل ہو گیا تھا، اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔
اس کے جواب میں ایران نے قطر میں امریکی بیس پر میزائل حملے کیے تھے جس کے بعد 24 جون کو امریکا کے زیرپرستی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی۔
امریکی حملوں سے شدید نقصان تو ہوا مگر ( ایرانی ایٹمی سائٹس) تباہ نہیں ہوئیں، رافیل گروسی
اپ ڈیٹ29 جون 202511:06pm
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے ) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران ’ چند ماہ کے اندر’ دوبارہ یورینیم افزودہ کرنا شروع کر سکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گروسی نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں تین ایرانی مقامات ( ایٹمی سائٹس) پر امریکی حملوں سے شدید نقصان تو ہوا لیکن ( یہ سائٹس) ’ مکمل’ تباہ نہیں ہوئیں۔
سربراہ آئی اے ای اے کا یہ بیان ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے خلاف ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات ’ مکمل طور پر تباہ’ ہو چکی تھیں۔
رافیل گروسی نے ہفتے کے روز کہا کہ ’ صاف الفاظ میں، کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سب کچھ غائب ہو گیا ہے اور وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔’
خیال رہے کہ اسرائیل نے 13 جون کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے، ایران کے جوہری اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کردیا تھا۔
بعدازاں امریکا ان حملوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات: فردو، نطنز اور اصفہان پر بم گرائے تھے، تاہم امریکی بمباری سے جوہری سائٹس کو پہنچنے والے نقصان کی حقیقی حد غیر واضح ہے۔
ہفتے کے روز، گروسی نے بی بی سی کے امریکی میڈیا پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ تہران ’ چند ماہ کے اندر افزودہ یورینیم پیدا کر سکتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے پاس اب بھی’ صنعتی اور تکنیکی صلاحیتیں… موجود ہیں، لہٰذا اگر وہ چاہیں گے، تو وہ اسے دوبارہ شروع کر سکیں گے۔’
آئی اے ای اے یہ تجویز کرنے والی پہلی تنظیم نہیں ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں جاری رہ سکتی ہیں، اس ہفتے کے شروع میں، پینٹاگون کے ایک لیک ہونے والے ابتدائی جائزے میں پایا گیا کہ امریکی حملوں نے ایرانی ایٹمی پروگرام کو شاید صرف چند ماہ پیچھے دھکیلا ہے۔
یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ٹرمپ نے غصے سے جواب دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات ’ مکمل طور پر تباہ’ ہو چکی ہیں اور میڈیا پر ’ تاریخ کے سب سے کامیاب فوجی حملوں میں سے ایک کو مسخ کرنے کی کوشش’ کا الزام لگایا۔
فی الحال، ایران اور اسرائیل کے جنگ بندی ہے، لیکن ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر انٹیلی جنس کو یہ معلوم ہوا کہ ایران یورینیم کو خطرناک سطح تک افزودہ کر سکتا ہے تو وہ ایران پر دوبارہ بمباری کرنے پر غور کریں گے۔
ایران کے مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف عبدالرحیم موسوی نے اتوار کو کہا کہ تہران کو یقین نہیں ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی پابندی کرے گا۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق موسوی نے کہا کہ ’ ہم نے جنگ شروع نہیں کی تھی، لیکن ہم نے جارح کو اپنی پوری طاقت سے جواب دیا ہے، اور چونکہ ہمیں جنگ بندی سمیت دشمن کے وعدوں کی تعمیل پر سنگین شکوک و شبہات ہیں، اس لیے ہم دوبارہ حملہ ہونے پر طاقت کے ساتھ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔’
دونوں ممالک کی' معاوضے اور ہرجانے کی ادائیگی کی ذمے داری کو بھی ' تسلیم کیا جائے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط
شائع29 جون 202506:20pm
ایران نے اقوام متحدہ سے امریکا اور اسرائیل کو ’ جارح ’ قرار دینے کی درخواست کردی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ایک خط لکھا ہے جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حالیہ تنازعے میں امریکا اور اسرائیل کو باضابطہ طور پر ’ جارحیت کے مرتکب’ کے طور پر تسلیم کرے۔
اس خط میں اقوام متحدہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کی ’ بعد کی ذمہ داری کو بھی تسلیم کرے، جس میں معاوضے اور ہرجانے کی ادائیگی’ شامل ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ 13 جون کو شروع ہوئی تھی جب اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی ٹھکانوں پر بڑے حملے کیے، جس کے نتیجے میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی سمیت 4 اعلیٰ فوجی افسران اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوگئے تھے۔
بعدازاں اگلے ہی روز سے ایران نےجوابی کارروائی کے تحت آپریشن ’وعده صادق سوم‘ کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف مقامات پر میزائل حملے شروع کردیے تھے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کرتے رہے، 21 جون کو امریکا کو براہ راست اس لڑائی میں شامل ہو گیا، اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔
اس کے جواب میں ایران نے قطر میں امریکی بیس پر میزائل حملے کیے تھے جس کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی۔
اپریل میں اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا، ایران نے روئی مزراحی کو ’ٹیلی گرام‘ کے ذریعے بھرتی کیا، بعد میں اس نے اپنے دوست کو بھی ساتھ ملالیا، اسرائیلی حکام
شائع29 جون 202503:37pm
اسرائیلی چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ 24 سالہ اسرائیلی نوجوان کو اپریل میں ایران کے لیے جاسوسی اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق ملزم رُوئی مزراحی ایران کے اُس مبینہ منصوبے پر کام کر رہا تھا جس کا مقصد وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کو قتل کرنا تھا۔
مزراحی پر جنگ کے دوران دشمن کی مدد جیسے سنگین سکیورٹی الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو اسرائیلی قوانین کے مطابق انتہائی خطرناک جرم شمار ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مزراحی نے جو دھماکا خیز مواد وزیر کے گھر کے قریب نصب کیا، وہ اس وقت پھٹنے کے لیے تیار تھام جب وزیر دفاع وہاں سے گزرتے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایرانی ’اس کارروائی میں کامیابی سے محض چند قدم دور تھے‘۔
24 سالہ ملزم رُوئی مزراحی نے کفر احیم کے قصبے میں کاٹز کے گھر کے قریب طاقت ور دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کاٹز کے خلاف یہ سازش ایران کے کئی ایسے منصوبوں میں سے ایک تھی، جن کے ذریعے اعلیٰ اسرائیلی حکام کو جنگ کی صورت میں نشانہ بنایا جانا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مزراحی کو ٹیلی گرام چینل کے ذریعے بھرتی کیا گیا اور بعد میں اس نے اپنے دوست، 24 سالہ الموغ عطیاس کو بھی شامل کر لیا۔
عطیاس کو اپریل میں مزراحی کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، یہ گرفتاری شاباک (اسرائیلی انٹیلی جنس) اور پولیس کے لاہاؤ 433 یونٹ کی مشترکہ تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی، دونوں افراد حیفہ کے قریب نسہر کے رہائشی ہیں۔
دونوں ملزمان نے ایرانی ایجنٹ ’الیکس‘ کی ہدایت پر مختلف مقامات جیسے کہ شاباک ہیڈکوارٹرز اور تل ابیب کے اسرائیلی ٹاورز کی ویڈیوز بنائیں۔
بعد ازاں، انہیں کفر احیم میں 2 خفیہ کیمرے نصب کرنے کا کہا گیا، یہ کیمرے انہوں نے حولون شہر کے ایک گھر سے حاصل کیے، لیکن سیکیورٹی گاڑی کے قریب سے گزرنے پر وہ گھبرا گئے اور کیمرے جھاڑیوں میں پھینک دیے۔
مزراحی کو بعد میں الیکس کی جانب سے وائزمین انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان کو قتل کرنے کی پیشکش کی گئی، جس کے بدلے اسے 10 لاکھ ڈالر ادا کیے جانے تھے، لیکن اس نے نصف رقم پیشگی طلب کی تو انکار کردیا گیا، جس کے بعد اس نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد، مزراحی سے ایک دوسرے ایرانی ایجنٹ ’گیٹز‘ نے رابطہ کیا، اور اسے اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد رکھنے کا کام سونپا۔
رپورٹ کے مطابق مزراحی نے دھماکا خیز مواد ایک نیلے رنگ کے بیگ میں حاصل کیا، اور اسے کاٹز کے گھر کے قریب ایک مقام پر رکھ دیا، اس کے عوض کرپٹو کرنسی میں ادائیگی کی گئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مزراحی دھماکا خیز مواد کی ایک اینٹ اپنے گھر بھی لے گیا۔
اس کے وکیل نے چینل 12 کو بتایا کہ وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھا، جس نے ریاست کی سیکیورٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
اس کی گرفتاری کے بعد، اسرائیلی حکام نے کہا کہ مزراحی نے 2025 کے دوران ایرانی ایجنٹوں سے رابطے میں رہتے ہوئے متعدد سیکیورٹی مشن انجام دیے، ان میں سے کچھ الموغ عطیاس کے ساتھ انجام دیے گئے، اور اسے مکمل علم تھا کہ وہ ایرانی ہدایات کے تحت کام کر رہا ہے۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ ماعور گورین نے ہفتے کی رپورٹ میں کہا کہ ایران کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران یہ بار بار واضح ہوتا رہا کہ ایران انہی مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے جو اسرائیلی جاسوسوں نے اس کے لیے فلم بند کیے تھے۔
حالیہ مہینوں میں ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں متعدد اسرائیلی شہری گرفتار کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں، ایران کے ساتھ جاری تنازع کے دوران 3 مزید اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ایک نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی آئندہ بہو پر نظر رکھی، جب کہ ایک اور نے سرکاری حکام اور فوجی اڈوں کے گھروں کی تصاویر لیں۔
مئی میں، 18 سالہ موشے عطیاس کو ہسپتال میں موجود سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی جاسوسی کرنے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا۔
جنوری میں حکام نے 2 آئی ڈی ایف ریزرو فوجیوں (21 سالہ یوری ایلیاسفوف اور جیورجی آندریف) کو گرفتار کیا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کے متعلق حساس معلومات ایران کو صرف 50 ڈالر کے عوض فراہم کردی تھیں۔
شہدا میں انتظامی عملے کے ارکان، فوجی جوان، قیدی، قیدیوں سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے اہلِ خانہ اور جیل کے آس پاس کے مکین شامل تھے، ترجمان اصغر جہانگیری
شائع29 جون 202502:16pm
ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیری نے تصدیق کی ہے کہ 23 جون کو ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع ایوین جیل پر اسرائیلی حملے میں 71 افراد شہید ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ساتھ فضائی جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے تہران میں واقع سیاسی قیدیوں کی جیل ’ایوین‘ کو نشانہ بنایا، جو اس بات کا مظہر تھا کہ اسرائیل نے اپنے اہداف کو صرف فوجی، شہری اور جوہری تنصیبات تک محدود رکھنے کے بجائے اب ایران کے حکومتی نظام کی علامتوں تک وسعت دے دی ہے۔
ایرانی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس 12 روزہ جنگ میں ایران میں 610 افراد شہید ہوئے، جن میں 13 بچے اور 49 خواتین شامل تھیں۔
اصغر جہانگیری نے عدلیہ کی سرکاری ویب سائٹ ’میزان‘ پر جاری بیان میں کہا کہ ’ایوین جیل پر حملے میں 71 افراد شہید ہوئے، جن میں انتظامی عملہ، فوجی جوان، قیدی، قیدیوں سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے اہلِ خانہ اور جیل کے آس پاس کے مکین شامل تھے‘۔
جہانگیری پہلے ہی یہ تصدیق کر چکے تھے کہ ایوین جیل کی انتظامی عمارت کا ایک حصہ اس حملے میں تباہ ہوا اور اس میں شہادتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے، عدلیہ کا کہنا ہے کہ بچ جانے والے قیدیوں کو تہران صوبے کی دیگر جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایوین جیل میں متعدد غیر ملکی شہری بھی قید ہیں، جن میں دو فرانسیسی شہری سیسیل کوہلر اور ژاک پیری بھی شامل ہیں، جو گزشتہ 3 سال سے زیر حراست ہیں۔
حملے کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ
’تہران میں ایوین جیل پر حملے نے ہمارے شہریوں سیسیل کوہلر اور ژاک پیری کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ ناقابلِ قبول ہے‘۔
انقلاب چوک اور تہران یونیورسٹی کے ارد گرد کی سڑکوں پر ایرانی عوام کا جم غفیر، صدر مسعود پزشکیان، ہزاروں سوگوار شہدا کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کے ساتھ شریک ہوئے۔
اپ ڈیٹ28 جون 202501:41pm
تہران میں اسرائیل کی جارحیت اور بمباری کے دوران شہید ہونے والے سائنسدانوں اور فوجی افسران کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، نماز جنازہ کے اجتماع میں پورا شہر امڈ آیا۔
ایرانی خبر رساں ادارے ’مہر نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں ایرانی آج صبح تہران کے مرکزی علاقے میں جمع ہوئے تاکہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی شہدا جن میں سینئر کمانڈرز اور عام شہری شامل ہیں، ان کی آخری رسومات میں شرکت کر سکیں۔
تہران میں جنازے کا جلوس باضابطہ طور پر شروع ہوا اور ہزاروں سوگوار شہدا کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کے ساتھ غم و احترام کے ساتھ شریک ہوئے، نماز جنازہ کے اجتماع میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان بھی شریک تھے، ایرانی مسلح افواج کے اعلیٰ افسران، وزرا نے بھی نماز جنازہ کے اجتماع میں شرکت کی۔
انقلاب چوک اور تہران یونیورسٹی کے ارد گرد کی سڑکیں ان لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، جو شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔
دارالحکومت کی فضا غم، یکجہتی، اور اُن افراد کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے جذبے سے بوجھل ہے، جنہوں نے حالیہ اسرائیلی جارحیت میں اپنی جانیں قربان کیں۔
یاد رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے جنگ کا آغاز کیا تھا، اور پہلے ہی دن ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی رہنما، جوہری سائنسدان اور عام شہری شہید ہو گئے تھے۔
اسی رات سے ایران کے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا، جوابی حملوں میں تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں فوجی اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس کے بعد دونوں جانب سے مسلسل 12 روز ایک دوسرے پر تواتر سے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
22 جون کو امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر بمباری کی، 23 جون کی رات ایران نے آپریشن ’بشارت فتح‘ کے تحت عراق اور قطر میں امریکی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملے کیے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
24 جون کو قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے ایران کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ کیا، جب کہ تہران نے بھی امریکی تجویز پر اتفاق کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی ایران کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کا اعلان کیا اور دونوں جانب سے جنگ بندی نافذ ہوگئی، جو تاحال برقرار ہے۔
ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی یا ہمارے قابل بھروسہ ادارے سے معائنہ کرائے، وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو
شائع27 جون 202511:55pm
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ایٹمی تنصیبات کے معائنے کا مطالبہ کردیا۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) یا ’کوئی اور جس پر ہمیں بھروسہ ہو‘ ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آئی اے ای اے کو ایران میں مکمل معائنہ کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کریں گے؟
اس پر ٹرمپ نے کہا،’ یا کوئی اور، ہاں، یا کوئی ایسا جس پر ہمیں بھروسہ ہو، اس میں ہم خود بھی شامل ہیں۔’
ٹرمپ نے کہا کہ’ ایران ملاقات کرنا چاہتا ہے۔’ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ امریکی حملوں میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ’ تباہ’ کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے کہاکہ ،’ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ( ایران) جلد ایٹمی پروگرام کی طرف واپس جائیں گے۔’
انہوں نے کہا کہ اگر انٹیلی جنس رپورٹوں سے پتا چلا کہ ایران یورینیم کی افزودگی اس سطح تک کر رہا ہے جو امریکہ کے لیے تشویشناک ہے تو وہ دوبارہ ایران پر بمباری کرنے پر غور کریں گے۔
خیال رہے کہ 22 جون کو امریکا نے ایران کے فردو نیوکلیئر پلانٹ پر چھ بنکر بسٹر بم گرائے اور نطنز اور اصفہان میں دو دیگر مقامات پر آبدوزوں سے کروز میزائل حملے کیے، جو ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی مہم کا حصہ تھے۔
یہ حملے 13 جون کو ایران کے ایٹمی اور عسکری انفرااسٹرکچر پر اسرائیلی فضائی حملوں کی حمایت میں کیے گئے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والی 12 روزہ جنگ منگل کو صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ جنگ بندی معاہدے کے بعد رک گئی تھی۔
دریں اثنا امریکی صدر نے کہا کہ ایران پر پابندیوں کے ممکنہ خاتمے پر کام کررہا تھا مگر ایران سےنفرت انگیز بیانات کے بعد پابندیاں ختم کرنےپرکام بندکردیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران ورلڈ آرڈر میں واپس آئے ورنہ سنگین نتائج ہوں گے۔
ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، جرمن چانسلر کی آسٹریا کے چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس
شائع27 جون 202506:52pm
جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔
برلن میں آسٹریا کے چانسلر کرسچین اسٹاکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فریڈرک میرٹس نے کہا کہ تہران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں نے ’ کافی نقصان پہنچایا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ’ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، ہم خطے کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔’
آسٹریا کے رہنما اسٹاکر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ’ ایک اہم پہلا قدم’ ہے جس کے بعد سفارتکاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔
انہوں نے کہا کہ’ نگرانی کا نظام غیر فعال نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا غیر یقینی صورتحال کی طرف ایک اور قدم ہوگا۔’
واضح رہے کہ اسرائیل سے جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے فردو نیوکلیئر سائٹ کو نشانہ بنائے جانے اور بعدازاں جنگ بندی کے بعد ایران کی پارلیمان نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی تھی۔
ایرانی پارلیمان کی منظوری کے ایک روز بعد یعنی گذشتہ روز نگہبان شوریٰ نے بھی اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے قانون کی توثیق کردی تھی۔
نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر ارب پتی افراد سے سیاسی فائدے کے بدلے قیمتی تحائف لینے اور میڈیا اداروں سے اپنے حق میں بہتر کوریج کیلئے سودے بازی کی کوشش کے الزامات ہیں
شائع27 جون 202505:58pm
اسرائیلی عدالت نے بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت مؤخر کرنے کی نیتن یاہو کی درخواست مسترد کردی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عدالت نے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے میں گواہی دینے کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
جمعرات کو نیتن یاہو کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران وزیر اعظم کو سماعتوں سے مستثنیٰ رکھا جائے کیونکہ اسرائیل کی ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد انہیں ’ سیکیورٹی امور’ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یروشلم ڈسٹرکٹ کورٹ نے آن لائن شائع ہونے والے فیصلے میں کہا کہ ’ (ان کی درخواست) موجودہ شکل میں سماعتوں کی منسوخی کے لیے کوئی بنیاد یا تفصیلی جواز فراہم نہیں کرتی۔’
نیتن یاہو نے کسی بھی بدعنوانی کے الزام سے انکار کیا ہے، جبکہ ان کے حامی اس طویل عرصے سے جاری مقدمے کو سیاسی سازش قرار دیتے ہیں۔
پہلے مقدمے میں نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ارب پتی افراد سے سیاسی فائدے کے بدلے سگار، زیورات اور شیمپیئن سمیت 2 لاکھ 60 ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے قیمتی تحائف وصول کیے۔
دو دیگر مقدمات میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے دو اسرائیلی میڈیا اداروں سے اپنے حق میں بہتر کوریج کے لیے سودے بازی کی کوشش کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کو ’ ڈائن کا شکار’ قرار دیا اور کہا کہ اس مقدمے کو ’ فوری طور پر منسوخ کر دینا چاہیے، یا اس عظیم ہیرو کو معافی دے دی جائے۔’
خامنہ ای کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے وہ بہت گہرائی میں زیر زمین چلے گئے اور نئے کمانڈروں سے بھی رابطے ختم کر دیے، اس لیے یہ عملی طور پر ممکن نہ رہا، اسرائیل کاٹز
اپ ڈیٹ27 جون 202501:12pm
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بہت کوشش کی، مگر کوئی عملی موقع نہیں مل سکا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو کہا ہے کہ اگر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای تک رسائی ممکن ہوتی تو اسرائیل 12 روزہ جنگ کے دوران انہیں شہید کر دیتا۔
اسرائیلی پبلک ٹی وی چینل ’کان‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کاٹز نے کہا کہ ’میرا اندازہ ہے کہ اگر خامنہ ای ہمارے نشانے پر آ جاتے، تو ہم انہیں ختم کر دیتے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن خامنہ ای کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے وہ بہت گہرائی میں زیر زمین چلے گئے اور ان کمانڈروں سے بھی رابطے ختم کر دیے جنہیں شہید کیے گئے کمانڈروں کی جگہ تعینات کیا گیا تھا، اس لیے یہ عملی طور پر ممکن نہ رہا‘۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ میں متعدد حملے اور جوابی کارروائیاں ہوئیں، جن میں دونوں جانب جانی و مالی نقصان ہوا، اسرائیل کی جانب سے کئی ایرانی فوجی و سیکیورٹی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، تاہم خامنہ ای پر حملہ ممکن نہ ہو سکا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل، جنگ بندی کے باوجود خامنہ ای کو قتل کرنے کی کوششیں جاری رکھ سکتا ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان اس وقت ایک نازک جنگ بندی قائم ہے۔
اسرائیلی ٹی وی چینل 13 سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کاٹز نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایسا کوئی منظر نظر نہیں آتا جس میں ایران اپنی جوہری تنصیبات کو دوبارہ مکمل طور پر بحال کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیلی حملوں نے تہران کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
تاہم، جنگ بندی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔
پاکستان مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا، شہبازشریف نےایران اسرائیل جنگ بندی کیلیے صدر ٹرمپ کی قیادت کو سراہا
شائع26 جون 202511:39pm
وزیراعظم شہباز شریف کو جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فون کیا جس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے جمعرات کی شام امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
گفتگو کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیصلہ کن قیادت کو سراہا جس کی وجہ سے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔
بیان کے مطابق شہباز شریف نے پاک- بھارت جنگ بندی میں امریکا کے کلیدی کردار پر سیکریٹری روبیو کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ٹیلی فونک رابطے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو مضبوط بنانے اور خاص طور پر تجارت بڑھانےکے لیے مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
دوسری جانب، مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ امریکا خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کرنےکی ویڈیوز جعلی ہیں، تہران میں ریلی اور جشن منانے کی کئی وائرل ویڈیوز بھی پرانی نکلیں، آئی ویریفائی پاکستان
اپ ڈیٹ26 جون 202511:39pm
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایکس اور فیس بک پر پیر 23 جون سے مختلف صارفین کی جانب سے شیئر کیے گئے متعدد پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایرانی مسلح افواج نے اسرائیل کے خلاف انٹیلی جنس سپورٹ پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا، تاہم یہ ویڈیوز مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کی گئی ہیں۔
آئی ویریفائی پاکستان کی ٹیم نے ان ویڈیوز کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ یہ وائرل ہونے والے ویڈیوز مصنوعی ذہانت ( اے آئی) کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔
13 جون کو اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات، فوجی مقامات اور نجی رہائش گاہوں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جس میں ایران کے اعلیٰ کمانڈرز، جوہری سائنسدان اور سینکڑوں شہری شہید ہوئے، اس کے بعد سے دونوں ممالک نے تباہ کن حملوں اور میزائلوں سے حملے کیے، 12 دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ کا سیز فائر 24 جون کو ہوا۔
پیر 23 جون کے روز ایک پرو ملٹری اکاؤنٹ سے فیس بک پر دو ایرانی فوجیوں کی ویڈیو شیئر کی گئی جس میں مبینہ طور پر دونوں فوجی پاکستان کا شکریہ ادا کر تے دکھائی دے رہے ہیں۔
ویڈیو میں فوجیوں کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ہمارا نیوکلیئرپروگرام محفوظ ہے، اس کی حفاظت اور انٹیلیجنس معلومات شیئر کرنے کے لیے پاکستان کا شکریہ۔
شیئر کی گئی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا ہے کہ ایک ایرانی فوجی پاکستانی کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ، شکریہ شکریہ شکریہ
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی اس ویڈیو پر تقریبا 14 لاکھ ویوز اور 12 ہزار کے قریب ری ایکشن آ چکے ہیں۔ یہ ویڈیو متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئی ہے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک اور وائرل ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر بدھ 25 جون کو وائرل ہوئی جس میں ایرانی فوجیوں کو پاکستان کا شکریہ ادا کرتے دکھایا گیا ہے۔
اس دعوے اور ویڈیو کی سچائی جاننے فیکٹ چیک کیا گیا کیونکہ یہ ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوئی ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ تنازع کے دوران ایران اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں عوامی دلچسپی بھی بڑھ گئی تھی۔
جائزہ لینے کے بعد معلوم ہو اکہ اس ویڈیو میں مصنوعی ذہانت یعنی کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے مدد لی گئی ہے، جیسا کہ جِلد کی پلاسٹک جیسی ساخت، ہونٹوں کی غیر فطری حرکت اور ویڈیو میں نظر آنے والے فوجیوں کی آنکھیں بغیر جھپکے ایک ہی جگہ پر ٹکے رہنا۔
ویڈیو کا تجزیہ کرنے کے لیے جو ٹولز استعمال کیے گئے، ان میں سے ہیو موڈیریشن نے اس ویڈیو میں 57 فیصد تک مصنوعی ذہانت کے استعمال کا شک ظاہر کیا، اٹیسٹیو اے آئی نے 30 فیصد جبکہ ڈیپ ویئر نے اس ویڈیو کو ڈیپ فیک قرار نہیں دیا۔
وائرل ویڈیو کے نیچے دائیں کونے میں ویو (Veo) کا لوگو بھی نظر آرہا ہے جو کہ گوگل ڈیپ مائنڈ کا تیار کردہ ایک ٹیکسٹ ٹو ویڈیو ماڈل ہے۔
دوسری ویڈیو کا جائزہ لینے پر بھی مصنوعی ذہانت سے بنائے گئے مواد کی وہی علامات نظر آئیں، ٹولز کے ذریعے اس ویڈیو کا تجزیہ کرنے پر ہیو موڈیریشن نے 31 فیصد آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا شک ظاہر کیاجب کہ ڈیپ ویئر نے اسے ڈیپ فیک قرار نہیں دیا۔
لہٰذا فیکٹ چیک میں یہ بات ثابت ہوئی کہ وائرل ویڈیوز میں ایرانی فوجیوں کا اسرائیل کے خلاف انٹیلی جنس سپورٹ پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنا جھوٹ ہے۔ یہ ویڈیوز اے آئی کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔
متعدد جھوٹے دعوے
اسی دوران آئی ویریفائی پاکستان نے جنگ بندی کے بعد ایران میں جشن کے حوالے سے کئی دیگر دعوؤں کی بھی تصدیق کی، ذیل میں کچھ اور جھوٹے دعووں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہیں اس پلیٹ فارم نے غلط ثابت کیا ہے۔
تہران میں جشن کی تصویر (جھوٹ)
منگل کو ایک ایران نواز صارف نے ایکس پر تہران کے میلاد ٹاور کی تصویر شیئر کی، جس کا عنوان تھا، تہران اس وقت، ایرانی دارالحکومت عظیم فتح کا جشن منا رہا ہے۔
اس پوسٹ کو 25 لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھا، یہی تصویر ایک بھارتی اداکار اور فلم نقاد نے بھی شیئر کی، جہاں اسے 88 ہزار سے زائد ویوز ملے۔ کئی دیگر صارفین نے بھی یہی دعویٰ کیا، یہ ویڈیو فیس بک پر بھی وائرل ہوئی، جہاں اسے ایک ہزار سے زائد ری ایکشنز ملے۔
ریورس امیج سرچ سے 27 اکتوبر 2020 کا ایک انسٹاگرام پوسٹ ملی، جس کے کیپشن میں لکھا تھا، میلاد ٹاور جسے تہران ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، یہی تصویر ستمبر اور نومبر 2024 میں بھی شیئر کی گئی تھی، لہٰذا یہ دعویٰ کہ تصویر جنگ بندی کے بعد تہران میں جشن کو ظاہر کرتی ہے، بالکل جھوٹ ہے، یہ تصویر حالیہ جشن کی نہیں اور کم از کم 2020 سے آن لائن دستیاب ہے۔
تہران ریلی میں پاکستان کا شکریہ (جھوٹ)
بدھ کو ایکس پر ایک صارف نے 8 سیکنڈ کا ایک کلپ شیئر کیا، جس میں ایک سڑک پر لوگوں کا بڑا ہجوم نظر آ رہا ہے، جسے دیکھ کر بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ جشن یا احتجاج کر رہے ہوں۔ پوسٹ کی کیپشن میں لکھا ہے، آج تہران میں ہونے والی ریلی میں نوجوان پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
اس پوسٹ کو 43 ہزار 600 ویوز ملے۔ یہی کلپ کئی دیگر صارفین نے بھی شیئر کیا۔
وائرل کلپ کا جائزہ لینے سے کئی تضادات سامنے آئے
ہجوم کے چلنے کا انداز غیر فطری طور پر تیز اور گلائڈنگ کرتا دکھائی دیتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ لوگ قدرتی طور پر چلنے کے بجائے پھسل رہے ہوں، ویڈیو کے 5 ویں سیکنڈ میں نظر آنے والے لوگ مختلف سمتوں میں حرکت کرتے اور ایک دوسرے کے جسم سے گزرتے نظر آ رہے ہیں، ہاتھ اٹھائے نعرے لگاتے ان افراد کی حرکات غیر معمولی تھیں، کچھ ہاتھ دوسروں کے سروں سے گزرتے دکھائی دیے۔
ویو (Veo) کا واٹر مارک ویڈیو کے نیچے دائیں کونے میں دکھائی دے رہا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ویڈیو بھی مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ ہے۔
مصنوعی ذہانت ڈیٹیکشن ٹولز کے ذریعے ویڈیو کا تجزیہ کرنے پر ہیو موڈیریشن نے اس ویڈیو میں 99.9 فیصد آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا امکان ظاہر کیا، لہٰذا یہ دعویٰ کہ ویڈیو میں تہران کی ریلی میں ایرانی پاکستانی پرچم لہرا کر شکریہ ادا کر رہے ہیں، بالکل جھوٹ ہے، یہ ویڈیو ایک ڈیپ فیک ہے۔
یہ فیکٹ چیک سب سے پہلے آئی سی ای جے-آئی بی اے اور این این ڈی پی کے پروجیکٹ آئی ویریفائی پاکستان کی جانب سے شائع کیا گیا تھا۔
ایرانی میزائل حملے نے بنی گوریون یونیورسٹی آف نیگیو کی کئی تحقیقی تجربہ گاہوں کو تباہ کر دیا، جو اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹس کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، پریس ٹی وی
شائع26 جون 202509:31pm
اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کیے گئے ایرانی میزائل حملے میں اسرائیلی پائلٹوں کی تربیت گاہ بھی تباہ ہوگئی۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک اسرائیلی اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ ایرانی میزائل حملے نے بیرشیوا میں واقع بنی گوریون یونیورسٹی آف نیگیو کی کئی تحقیقی تجربہ گاہوں کو تباہ کر دیا، جو اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹس کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسرائیلی ایئرفورسن کا فلائٹ کورس ایک تین سالہ پروگرام ہے جو تقریباً 20 سال سے جاری ہے، اور اب تک 1000 سے زائد فوجی پائلٹس اس کورس سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں اور ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا ہے کہ 19 جون کو، ایک ایرانی بیلسٹک میزائل حملے نے بنی گوریون یونیورسٹی کی 6 تجربہ گاہوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور 9 دیگر کو شدید نقصان پہنچایا۔
یونیورسٹی کے مطابق، جوابی ایرانی حملے نے ’ طب اور حیاتیات میں متنوع تحقیقاتی منصوبوں پر برسوں کی محنت کو مٹا دیا۔’
روزنامہ کے مطابق، کلاس رومز، تدریسی تجربہ گاہیں، اور فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز کا ڈسیکشن روم بری طرح متاثر ہوئے، جبکہ مین مارکس فیملی کیمپس میں مزید 30 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔
یونیورسٹی حکام اب بھی نقصانات کا اندازہ لگا رہے ہیں، جو کہ کروڑوں شیکل تک پہنچ سکتےہیؓ۔
پروفیسر ڈینیئل چیمووٹز، جو بی جی یو کے موجودہ صدر ہیں، کے مطابق ابتدائی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں نے حیفہ، تل ابیب اور بیرشیوا میں واقع کم از کم چار یونیورسٹیوں اور ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹس کو مکمل طور پر تباہ کردیا یا شدید نقصان پہنچایا ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں مزید نقصان
اسرائیلی فوج کی جانب سے نافذ سخت میڈیا سنسرشپ کے باعث غیر ملکی صحافیوں کو حساس مقامات پر ہوئے نقصان کی رپورٹنگ سے روک دیا گیا ہے، اور سیٹلائٹ تصاویر تک رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے۔
تاہم، شواہد سامنے آئے ہیں کہ ایران کے جوابی حملوں نے متعدد اہم مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں کریا (اسرائیلی وزارت دفاع کا ہیڈکوارٹر)، کیمپ موشے دایان (انٹیلیجنس آپریشنز سینٹر)، تل نوف اور اوودا ایئربیسز، اور وزارت داخلہ کی عمارت شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، بنیادی ڈھانچے پر بھی حملے ہوئے، جن میں بازان آئل ریفائنری، حیفہ اور حدیرا پاور اسٹیشنز، اشدود پاور پلانٹ، بن گوریون ایئرپورٹ، اور وائزمن انسٹیٹیوٹ آف سائنس شامل ہیں۔
حیفہ میں بازان ریفائنری ایک میزائل حملے کے باعث بند کر دی گئی، جس میں تین ملازمین ہلاک اور تیل کی پائپ لائنز اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا، مزید برآں، گلیلوت کے قریب واقع یونٹ 8200 کے اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا، جہاں جیو-لوکیٹڈ ویڈیوز میں موساد کے مشتبہ مراکز کے قریب حملوں کے مناظر دکھائے گئے۔
اطلاعات کے مطابق، وائزمن انسٹیٹیوٹ کو تقریباً 570 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ تل ابیب اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا، ایران کے جنگ بندی سے قبل آخری حملے میں 14 بیلسٹک میزائل مختلف فوجی اور لاجسٹک مقامات پر داغے گئے تھے۔
اسرائیلی حکومت میں ہونے والے مکمل نقصانات کی تفصیلات اب بھی غیر واضح ہیں کیونکہ اسرائیل نے معلومات تک رسائی پر سخت بندش نافذ کر رکھی ہے۔
اسرائیل کو ایران کے خلاف 12 روزہ جارحانہ جنگ میں 12 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچا، مجموعی نقصان 20 ارب ڈالر تک جاسکتا ہے ، ایرانی خبر رساں ایجنسی
شائع26 جون 202508:37pm
ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو تقریباً 12 ارب ڈالر کا براہِ راست نقصان پہنچا ہے، جبکہ مجموعی نقصان 20 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹی وی نے بتایا ہے کہ اسرائیلی میڈیا اور معاشی رپورٹس کے مطابق، ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو تقریباً 12 ارب ڈالر کا براہِ راست نقصان پہنچا ہے، جبکہ مجموعی نقصان 20 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔
یہ نقصانات فوجی اخراجات، میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات، متاثرہ افراد و کاروباروں کو کی گئی ادائیگیوں، اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت پر مشتمل ہیں۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جب بالواسطہ اقتصادی اثرات اور شہریوں کے معاوضہ جات کو شامل کیا جائے گا تو نقصان 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحَرونوت کے مطابق، اسرائیلی خزانے کو 22 ارب شیکل (تقریباً 6.46 ارب ڈالر) کا نقصان ہو چکا ہے۔
اسرائیلی فوج اب 40 ارب شیکل (11.7 ارب ڈالر) کے اضافی فنڈ کی تلاش میں ہے تاکہ ہتھیاروں کا ذخیرہ دوبارہ بھرا جا سکے، نئے انٹرسیپٹرز اور حملہ آور ہتھیار خریدے جا سکیں، اور ریزرو یونٹس کو برقرار رکھا جا سکے، اس سے قبل جنگ سے پہلے، فوج نے 10 اور پھر 30 ارب شیکل کا مطالبہ کیا تھا۔
اسرائیل کا بجٹ خسارہ 6 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، جو جنگی اخراجات کے سبب مالی دباؤ کا نتیجہ ہے، یہ خسارہ غزہ جنگ کے دوران پہلے ہی بڑھے ہوئے خساروں پر مزید بوجھ ڈالے گا۔
ساتھ ہی، اسرائیلی معیشت میں 0.2 فیصد سست روی کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو ٹیکس آمدنی میں کمی کا باعث بنے گی۔
بے تحاشا فوجی اخراجات
اسرائیلی تجارتی روزنامہ کالکالسٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے ایران پر حملوں اور دفاعی اقدامات کے لیے تقریباً 5 ارب ڈالر (یعنی روزانہ 72.5 کروڑ ڈالر) خرچ کیے۔
صرف معاوضوں کی مد میں کم از کم 5 ارب شیکل (1.5 ارب ڈالر) کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اخبار دی مارکر نے پیر کو تصدیق کی کہ ایرانی میزائل حملوں سے ہونے والا مادی نقصان پہلے ہی 5 ارب شیکل (1.5 ارب ڈالر) سے تجاوز کر چکا ہے۔
معاشی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر جنگ طویل ہوئی تو اسرائیلی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔
پراپرٹی ٹیکس کے اندازوں کے مطابق، ایرانی جوابی کارروائیوں میں تقریباً 15 ہزار اسرائیلی آبادکاروں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، بہت سے لوگ قابض علاقوں میں ہوٹلوں میں منتقل ہو گئے۔
ان ہوٹلوں کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 100 ملین شیکل (29 ملین ڈالر) لگایا گیا ہے، اسرائیلی حکومت کو نامعلوم مدت تک ان خاندانوں کا کرایہ ادا کرنا ہوگا، جن کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور جن کی تعمیرِ نو میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اب تک 41 ہزار سے زائد دعوے حکومت کے معاوضہ فنڈ میں جمع ہو چکے ہیں، اور مزید کی توقع ہے، ان میں سے تقریباً 33 ہزار دعوے عمارتوں کے نقصان سے متعلق ہیں، جبکہ آٹھ ہزار سے زائد گاڑیوں، املاک اور سامان کے نقصانات سے متعلق ہیں، تقریباً 26 ہزار دعوے صرف تل ابیب کے رہائشیوں کی جانب سے آئے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 سے قبل، تقریباً چھ ہزار آبادکار مستقل معاوضہ وصول کر رہے تھے، لیکن حماس کے جنوبی اسرائیلی بستیوں پر حملے کے بعد یہ تعداد 25 ہزار تک بڑھ گئی، دی مارکر کے مطابق، ایران جنگ کے بعد یہ تعداد مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
امریکا سے مالی امداد کی اپیل
ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیل واشنگٹن سے مزید مالی مدد، امداد یا قرض کی ضمانت مانگنے پر غور کر رہا ہے تاکہ جنگی اخراجات پورے کیے جا سکیں اور فوجی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران کے خلاف بغیر کسی اشتعال کے جارحیت کا آغاز کیا، جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، سینئر فوجی کمانڈروں، سائنسدانوں اور عام شہریوں کو شہید کیا گیا تھا۔
جواباً ایران نے سینکڑوں بیلسٹک میزائل اور ڈرونز داغے، جنہوں نے متعدد حساس اور اسٹریٹجک اسرائیلی مقامات کو نشانہ بنایا، جیسا کہ اسرائیلی میڈیا نے خود تسلیم کیا ہے۔
اسرائیلی وزارت صحت کے مطابق، ایرانی حملوں میں 29 افراد ہلاک اور 3238 زخمی ہوئے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اسرائیل اپنے جانی نقصان کے اعداد و شمار عموماً سنسر کرتا ہے۔
دی مارکر نے ان میزائل حملوں کو ’ قیامت خیز تباہی’ قرار دیا، اور ابتدائی تخمینوں کے مطابق کم از کم 5 ارب شیکل (1.4 ارب ڈالر) کا نقصان ہو چکا ہے۔
بھاری نقصانات اور ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے میں ناکامی کے بعد، اسرائیل کو امریکا کی تجویز کردہ جنگ بندی کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنا پڑا۔
ہم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ایران کا آئی اےای اے کے ساتھ تعاون جاری رہے ، روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف
شائع26 جون 202506:53pm
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ روس چاہتا ہے کہ ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ ہم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ایران کا آئی اےای اے کے ساتھ تعاون جاری رہے۔’
واضح رہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد بدھ کے روز ایک بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی گئی۔
پارلیمنٹ کے بعد یران کی نگہبان شوریٰ نے بھی عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے تعاون معطل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
روس، جس کے ایران کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات ہیں، نے امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ تہران کو پرامن جوہری توانائی کے پروگرام کا حق حاصل ہے۔
سرگئی لاوروف نے ایرانی پارلیمان کی جانب سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری کے بارے میں کہا کہ ایرانی پارلیمنٹ کو عملی اختیارات حاصل نہیں، اس لیے اس کا فیصلہ مشاورتی نوعیت کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگ ایران کے سپریم لیڈر کا احترام کریں، جنہوں نے بارہا یہ بیان دیا ہے کہ ایران کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہ تھا، نہ ہے، اور نہ ہوگا۔’
امریکی حملوں میں ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان ہوا جس کا اعتراف ترجمان ایرانی وزارت خارجہ نے بھی کیا، پیٹ ہیگسیتھ کی جنرل ڈین کین کے ہمراہ نیوز بریفنگ
اپ ڈیٹ26 جون 202506:54pm
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف فوج نے مہارت سے مشن کو مکمل کیا، بعض امریکی چینلز بےبنیاد خبریں چلارہے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین کے ہمراہ نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخ کے سب سے مشکل فوجی آپریشن کاحکم دیا، فوج نے مہارت سے مشن کو مکمل کیا، اس بارے میں بعض امریکی چینلز بےبنیاد خبریں چلارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی میڈیا ڈونلڈ ٹرمپ کو نشانہ بنارہا ہے اور ان کے ہر اقدام کی مخالفت ہی کرتا ہے، امریکی میڈیا اسکینڈل کو تلاش اور کامیابی کو نظر انداز کررہا ہے، تنقید کرنے والے نہیں چاہتے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوں۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن( آئی اےای اے ) نےبھی کہا کہ امریکی حملوں میں ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان ہوا جس کا اعتراف ترجمان ایرانی وزارت خارجہ نے بھی کیا۔
یاد رہے کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این اور نیویارک ٹائمز کے مطابق ابتدائی انٹیلیجنس رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طورپر تباہ نہیں ہوئیں بلکہ صرف چند ماہ پیچھے چلی گئی ہیں۔
وزیر دفاع نےکہا کہ ایران میں جوہری تنصیبات پر کامیاب حملے کیےگئے، ایران کے خلاف ہمارا فوجی آپریشن انتہائی کامیاب رہا۔
پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو وہ نقصان پہنچایا جس کا دیگر صدور خواب دیکھتےرہے، ایران کی ایٹمی تنصیبات مکمل تباہ ہوگئیں،آئی اے ای اے نے بھی تصدیق کی ایرانی جوہری پروگرام کئی سال پیچھےچلاگیا۔
وزیردفاع نے مزید کہا کہ فوجی آپریشن کا مقصد خطے میں جاری جنگ ختم کرنا تھا، فوجی آپریشن کے سبب اسرائیل ایران میں جنگ بندی ہوئی، ایران اور اسرائیل میں جنگ بندی خوش آئند ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وزیردفاع کی نیوز بریفنگ سے کچھ گھنٹے قبل ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کا ریکارڈ شدہ بیان میڈیا پر نشر کیا گیا تھا جس میں اُن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے کوئی اہم مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘
امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ آپریشن مڈنائٹ ہیمر میں شامل فوجیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہمارے پائلٹس نے آپریشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی حملے کی اطلاع ہمیں پہلے ہی مل گئی تھی، ہمارے پاس ایرانی حملےکا جواب دینے کیلئےصرف2 منٹ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا بڑا حملہ ناکام بنایا، یرانی حملے پر دفاع ہماری صلاحیتوں کو ثابت کرتا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز جوہری تنصیبات کی سلامتی کی ضمانت ملنے تک اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔
شائع26 جون 202503:54pm
ایران کی نگہبان شوریٰ نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے تعاون معطل کرنے کی منظوری دے دی۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایران کے خبر رساں ادارے ’ینگ جرنلسٹ کلب‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کی شورائے نگہبان نے پارلیمنٹ کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے پیش کیے گئے بل کی منظوری دے دی ہے۔
شورائے نگہبان ایک ایسا ادارہ ہے جو علما اور قانون دانوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور ہر قانون سازی کا آئینی اور شرعی جائزہ لینے کی ذمہ داری اسی کے پاس ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز جوہری تنصیبات کی سلامتی کی ضمانت ملنے تک اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔
خبر رساں ایجنسی ’مہر‘ کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے 221 ارکان نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا تھا ، بل کے خلاف کوئی ووٹ نہیں آیا جبکہ صرف ایک رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اس بل کے تحت اس وقت تک آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک ان تنصیبات کی سیکیورٹی کی ضمانت فراہم نہ کی جائے۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ایران اپنے سویلین نیوکلیئر پروگرام میں تیزی لائے گا‘۔
خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک رسائی حاصل ہے، اور ایران جب چاہے کارروائی کر سکتا ہے، آئندہ جارحیت ہوئی تو دشمن کو بھاری قیمت چکانی ہوگی، خطاب، قوم کو جنگ میں فتح پر مبارکباد
اپ ڈیٹ26 جون 202504:12pm
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ میں ایران کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے ایرانی قوم کو مبارک باد پیش کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے پیغام اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ میں ایران کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سے فتح پر ایرانی قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، امریکا کو اس جنگ سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اسرائیل کی مکمل تباہی کے خدشے پر امریکا جنگ میں شامل ہوا، امریکا کو محسوس ہوگیا تھا وہ شامل نہ ہوا تو اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔
خامنہ ای نے کہا کہ میری جانب سے ہمارے عزیز ایران کی امریکا کے ظالم نظام پر فتح پر مبارک ہو، ہم پر دوبارہ جارحیت مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے۔
اپنے پیغام میں ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے امریکا کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا، اس نے حملہ کیا اور خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید ایئر بیس کو نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے براہِ راست جنگ میں اس لیے شرکت کی، کیوں کہ اُسے محسوس ہوا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو صہیونی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا، اس نے اس نظام کو بچانے کی کوشش میں جنگ میں قدم رکھا، لیکن کچھ حاصل نہ کر سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے ایرانی قوم سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تو ہم نے واضح کہا کہ سرنڈر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، بلکہ ہم نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ یہ ایک اہم بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک رسائی حاصل ہے، اور وہ جب چاہے کارروائی کر سکتا ہے، ایسی کارروائی آئندہ بھی دہرائی جا سکتی ہے، اگر کوئی جارحیت ہوئی تو دشمن کو یقیناً بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
یاد رہے کہ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران امریکی صدر کی جانب سے سرنڈر کے مطالبے پر خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ایران کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہ قوم کبھی ہتھیار نہیں ڈالتی، ہم ذلت کے بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہیں، امریکا کو شکست ہوگی، اور اللہ کی مدد سے ایرانی قوم فتح یاب ہوگی۔