جمہوری قوتیں اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھنے والے مایوس ہوں گے لیکن یہ صورتحال ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اقتدار بلآخر فوجی قوت سے آتا ہے۔
مسلم ممالک میں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے حکومتوں کی طرح ہیں، خاموش رہتے ہیں جبکہ مغرب میں بہت سے لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہورہے ہیں۔
قیاس ہے کہ ٹرمپ، شہباز شریف ملاقات کا مقصد غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان سمیت مسلم ممالک کے ایک گروپ کا غزہ کی سیکیورٹی کی نگرانی کرنا ہوسکتا ہے۔
قطر نے امریکا کو اسی لیے فوجی اڈہ دیا کیونکہ اسے گمان تھا کہ یہ اس کے لیے سلامتی کی ضمانت ہوگا لیکن یہ صرف ایران کے میزائل سے انہیں بچائے گا اسرائیل سے نہیں۔
اس تحریر میں الیگزینڈرووچ نامی پیڈوفائل کی امریکا میں گرفتاری اور رہائی کا واقعہ بتانے کا میرا مقصد یہی ظاہر کرنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کا اثر و رسوخ امریکا میں کتنا مضبوط ہے۔
قابض افواج غزہ میں کام کرنے والے مغربی رضاکاروں کو ہلاک کرنے سے بہ ظاہر گریز کرتی ہیں لیکن یہ فلسطین کے صحت عامہ کے عملے بشمول ڈاکٹرز کو نشانہ بنانے میں وہ کوئی تردد نہیں برتتیں۔
یہ جنگ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے حوالے سے کم بلکہ ایران کو امریکا اور اسرائیل کی منشا کے آگے سر جھکانے پر مجبور کرنے کے حوالے سے زیادہ ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کون سا ملک زیادہ دیر تک چوکنا رہ سکتا ہے کیونکہ فوج کو مکمل جنگی حالات کے لیے مکمل تیار یا اسٹینڈ بائی پر رکھنے پر کافی لاگت آتی ہے۔