لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ہم ایک غیر معمولی دور میں جی رہے ہیں۔ 6 جنوری کو امریکا میں کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے نے ناصرف امریکا بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ایک ایسا صدر جو انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو، اقتدار کی منتقلی نہ چاہتا ہو اور جو لوگوں کو کانگریس کی عمارت پر حملے کے لیے اکسائے، اس نے ناصرف امریکا کو ایک دہانے پر لاکھڑا کیا ہے بلکہ خود لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مواخذے کے خطرے سے بھی دوچار ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک اشتعال انگیز رویے کا حامل شخص سمجھا جاتا ہے اور کیپیٹل ہل پر ہونے والا حملہ اس اشتعال انگیزی کی تازہ مثال ہے۔ اپنی مدتِ صدارت کے اختتام پر انہوں نے حد عبور کرکے ملک کو بحران کا شکار کردیا ہے۔

پُرتشدد ہجوم کی جانب سے کانگریس کو انتخابی نتائج کی تصدیق سے روکنے کی کوشش تو ناکام ہوگئی لیکن اس عمل نے ملک کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کیا جسے امریکی مبصرین ’بدنامی کا دن‘ کہہ رہے ہیں۔

مواخذے کا سبب بننے والے واقعات کو 2 طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کو بغاوت کی ایک ایسی ناکام کوشش کہا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں سیاست میں دائیں اور بائیں کے علاوہ ایک معتدل طبقہ بھی سامنے آیا اور سیاست میں استحکام کو فروغ ملا۔ یوں ٹرمپ کے اپنے عزائم نے ہی انہیں اور ان کے حامیوں کو تنہا کردیا۔

اگر وہ اس اقدام سے باز رہتے تو شاید وہ وائٹ ہاؤس کو اس کمزور حالت میں چھوڑ کر نہ جاتے اور نہ ہی انہیں کانگریس کی جانب سے دوسری مرتبہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑتا جو ان کا ایک امتیاز ہے۔ کئی کمپنیوں نے ٹرمپ کی مہم کو عطیات دینا بند کردیے ہیں اور ان سے کاروباری تعلقات بھی منقطع کرلیے ہیں۔

تاہم ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ واقعات انتشار کے شکار ملک کی سنگین حقیقتوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور بائیڈن کے اقتدار میں آنے سے جو ختم نہیں ہوں گی۔

اس پُرتشدد محاصرے کی وجہ بننے والی سیاسی کشمکش کے اشارے بہت پہلے سے ہی نظر آرہے تھے اور حالیہ انتخابات میں اسے مزید تقویت ملی۔ انتہائی دائیں بازو کے لیے یہ ایک جھٹکا تو ضرور ہے لیکن ان کا بالکل اختتام نہیں ہے۔

ان واقعات نے ری بپلکن جماعت کے سینئر اراکین اور عام نمائندگان کے درمیان موجود خلیج کو بھی ظاہر کیا ہے۔ مواخذے کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں ری پبلکن نمائندوں کی بڑی اکثریت یعنی 197 نمائندگان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس سے پہلے کیپیٹل ہل پر حملے کے باوجود بھی 147 ری پبلکن نمائندوں نے ہاؤس کی جانب سے انتخابات کے نتائج کی تصدیق کرنے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو بظاہر بائیڈن کے صدر بننے سے ختم نہیں ہوں گے بلکہ امریکی سیاست کا حصہ بنے رہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹک جماعت کو دونوں ایوانوں پر کنٹرول حاصل ہونے کے باوجود جو بائیڈن کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی طرح ان کے لیے ایک منقسم ملک کو متحد کرنے کے خواب کو پورا کرنا بھی مشکل ثابت ہوگا۔ ملک کو متحد کرنے لیے ملک میں جاری نسلی تناؤ پر توجہ دینی ہوگی اور وہ بھی ایک ایسے دور میں جب کورونا کی وبا امریکا میں تباہی مچا رہی ہو۔ بائیڈن انتظامیہ کے لیے کرنے کا پہلا کام یہی ہوگا لیکن اس کے لیے بھی قومی اتفاق رائے اور دو طرفہ تعاون کی ضرورت ہوگی۔

بائیڈن کی جانب سے ملک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کا دار و مدار وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور معیشت کی بحالی سے زیادہ ٹرمپ کے سیاسی مستقبل پر ہوگا۔

ہاؤس کی جانب سے ٹرمپ کے مواخذے کے بعد بھی اگر سینیٹ کی صورتحال کو دیکھا جائے تو اس بات کے کم ہی امکانات ہیں کہ سینیٹ مواخذے کی تحریک کو آگے بڑھائے۔ ٹرمپ کے مستقبل کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ کیا ری پبلکن جماعت پر ان کی گرفت کو ختم کیا جاتا ہے یا نہیں۔

سینیٹ میں موجود ری پبلکن جماعت کے کچھ سینئر اراکین نے کیپیٹل ہل پر حملے کی مذمت کی تھی اور انتخابات چوری کرنے کے ٹرمپ کے بیانیے کو بھی مسترد کیا تھا اس کے علاوہ کانگریس میں کچھ ری پبلکن اراکین نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

حالانکہ ٹرمپ کو ابھی تک صدارتی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا نہیں گیا ہے لیکن ری پبلکن جماعت کے معتدل افراد اب ٹرمپ کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں جس نے انہیں سینیٹ اور وائٹ ہاؤس سے محروم کردیا ہے اور خود مواخذے کا شکار ہے۔ تاہم جماعت کے نچلے درجے کے کارکنوں اور کئی کانگریس اراکین کا خیال اس سے مختلف ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ری پبلکن جماعت کے سینئر رہنما ان عام کارکنان کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کو برداشت کرسکیں گے جن کی اکثریت اس جھوٹ پر یقین رکھتی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ٹرمپ کو ہرایا گیا ہے۔

دائیں بازو کی سیاسی قوتیں کمزور تو ضرور ہوئی ہیں لیکن وہ کھیل سے باہر نہیں ہوئی ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے ایک عرصے سے سفید فام بالادستی کے حامی گروہوں کی حمایت کی جارہی تھی اور ان گروہوں کی جانب سے ان واقعات کو ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کی جانب سے ٹرمپ کو ہٹانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

ڈیموکریٹ جماعت کی جانب سے ٹرمپ کے مواخذے کا مقصد صرف ان کو قانون ہاتھ میں لینے اور لوگوں کو اکسانے پر مجرم ٹھہرانا نہیں ہے بلکہ وہ ٹرمپ کی سیاست کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ری پبلکن جماعت تقسیم ہوجائے تاکہ اکثریت ٹرمپ کی حمایت سے دستبردار ہوجائے۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ری پبلکن ’ٹرمپ کی‘ بنیاد پرست جماعت پر دوبارہ قابو پاسکتے ہیں یا نہیں۔ جینیفر رُبن نے حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’ری پبلکن اراکین کی ایک حیران کن تعداد ابھی بھی ٹرمپ کے سحر میں مبتلا ہے‘۔

انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی اب امریکی سیاست کا حصہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے امریکا میں سیاسی عدم توازن کا امکان موجود ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے حوصلہ افزائی وصول کرنے والے انتہا پسند گروہ امریکا کے استحکام کے لیے ایک خطرہ بنے رہیں گے۔ خود ٹرمپ کے دورِ حکومت میں بھی امریکی دفاعی اداروں نے سفید فام بالادستی کے حامی گروہوں کو ملک کے لیے سنگین ترین خطرہ قرار دیا تھا۔

گزشتہ سال اکتوبر میں کانگریس میں دیے گئے اپنے بیان میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ ’داخلی خطرات کی اکثریت‘ کا تعلق خاص طور پر سفید فام بالا دستی کے حامی گروہوں کی جانب سے ’نسلی بنیاد پر ہونے والی انتہا پسندی‘ سے ہے۔

ایف بی آئی نے بائیڈن کے حلف اٹھانے تک اور اس کے بعد بھی ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن اس وقت ہائی الرٹ پر ہے اور حلف برداری کے دن انتہا پسند گرہوں کی جانب سے کسی کارروائی کے خطرے کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار دارالحکومت میں تعینات ہیں۔

سیاسی بحران نے بائیڈن کے کام کو مشکل بنادیا ہے۔ اس سے امریکا کی عالمی ساکھ کی بحالی کی کوشش بھی مشکلات کا شکار ہوگی۔ کیپیٹل ہل پر حملہ اور ٹرمپ کے مواخذے نے امریکا کی ساکھ کو ایک شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اس سب کی وجہ ٹرمپ کا یکطرفہ انداز اور ان کی بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی تھی جس نے امریکا کی نرم قوت کو ختم کردیا اور اس کی ساکھ کو داغدار کردیا۔

یوں وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کے آنے سے امریکا کا سیاسی بحران حل نہیں ہوگا۔ یہ ملک سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے اور یہ غیر یقینی اور انتشار کے نئے مرحلے میں بھی داخل ہوسکتا ہے کیونکہ ٹرمپ کے جانے کے بعد بھی ٹرمپ ازم امریکی معاشرے کی جڑوں میں سرائیت کرگیا ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے واشنگٹن کے میئر مورئیل باؤزر نے سختی سے کہا ہے کہ ’20 جنوری کو ٹرمپ ازم ختم نہیں ہوگا‘۔


یہ مضمون 18 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں