'ریت سمادھی' کی پڑھنے والے کو خود سے جوڑے رکھنے والی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس کا اہم ترین پہلو وہ اچھوتا بیانیہ اور انوکھی زبان ہے جو اس ناول کو منفرد کردیتی ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق پنجابی جیسی اہم زبان کو بھی خطرات لاحق ہیں کیونکہ پاکستان میں اس زبان کے فروغ کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی۔
رشاد محمود کی کتاب ایک سیاسی کارکن کے مشاہدات اور تجربات و تجزیے اور جائزے سامنے لاتی ہے اور کئی ایسے واقعات سے ہمیں روشناس کرتی ہے جو شاید ہمارے علم میں نہ ہوں۔
اب پطرس نہیں ہیں لیکن ان کا تخلیق کیا ہوا مزاحیہ ادب ہمارا سرمایہ ہے، جس میں سے کچھ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بھی ہے جو یقیناً آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ موجود رہے گا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طبقہ غیر اہم کیوں ہوا؟ جو کل تک مرکز میں تھا، حاشیے پر کیسے آگیا؟ جسے کل تک سامعین میسر تھے، اسے آج اپنی آواز بھی کیوں سنائی نہیں دیتی؟