غزہ پر اسرائیلی ظلم و جبر، لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال جانیے
دنیا

چاہتے ہیں پاکستان غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے، مصری وزیر خارجہ

چاہتے ہیں پاکستان غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے، مصری وزیر خارجہ

مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے مجوزہ عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا دائرہ کار صرف جنگ بندی کی نگرانی اور محاصرے والے علاقے کی سرحدوں کے تحفظ تک محدود ہونا چاہیے، جب کہ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو اسلام آباد کے 2 روزہ دورے پر پہنچنے کے فوراً بعد انہوں نے ’ڈان‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’استحکام فورس کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے کہ اس کا بنیادی مینڈیٹ جنگ بندی کی زمینی سطح پر نگرانی کرنا ہے تاکہ دونوں فریق اپنے وعدوں پر قائم رہیں، اور غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے‘۔

اپنے دورے کے دوران وہ پاکستانی قیادت کے ساتھ وسیع ایجنڈے پر بات چیت کریں گے، جس میں غزہ اور سوڈان سمیت تنازعات اور ایران کے جوہری پروگرام پر اختلافات کے بارے میں مشاورت سے لے کر معاشی تعاون کو تیز کرنے تک کے امور شامل ہیں۔

ان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے پہلی بار عوامی طور پر انکشاف کیا کہ اسلام آباد نے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کو استحکام فورس کے لیے فوجی دستے فراہم کرنے کی اپنی آمادگی سے آگاہ کر دیا ہے۔

جیسے پاکستان کا موقف ہے کہ وہ حماس کے غیر مسلح کرنے جیسے متنازع معاملے میں فریق نہیں بننا چاہتا، ویسے ہی بدر عبدالعاطی نے کہا کہ فورس کی تفصیلات ابھی زیرِ بحث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم مختلف شراکت داروں (جن میں امریکا بھی شامل ہے) کے ساتھ مل کر ایک مخصوص مشن اور مینڈیٹ پر اتفاق کرنے کے لیے کام کررہے ہیں، جس کا محور امن نافذ کرنے کے بجائے امن برقرار رکھنے پر ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اُن ممالک پر بھی اتفاق کرنا ہوگا، جو فوجی دستے فراہم کریں گے، مشن، مینڈیٹ، ضمانتوں اور تحفظات پر بھی، سب کچھ ابھی زیرِ غور ہے۔

ڈاکٹر بدر عبدالعاطی نے بتایا کہ مصر غزہ کی تعمیرِ نو پر ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے اور وہ اس میں پاکستان کے زیادہ فعال کردار کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے ہمیں پاکستان سے صرف مالی تعاون ہی نہیں بلکہ نجی شعبے کی تعمیرِ نو اور بحالی کی کوششوں میں شمولیت کی ضرورت بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تکنیکی معاونت اور طبی مدد کی بھی ضرورت ہے، غزہ میں 50 ہزار ایسے طبی کیس ہیں جنہیں فوری علاج درکار ہے، ہم آپ کے عظیم ملک سے زیادہ متحرک کردار کی توقع کر رہے ہیں۔

بدر عبدالعاطی نے کہا کہ پاکستان اور مصر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ پائیدار امن کا واحد راستہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ ہی ان کے ایجنڈے کا واحد مسئلہ نہیں، ہم دیگر امور پر بھی بات کر رہے ہیں، جن میں سوڈان شامل ہے جہاں صورتحال تباہ کن ہے، ہمیں اس بدترین جنگ اور شہریوں کے قتلِ عام کو روکنے کی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ دیگر علاقائی معاملات پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے، جن میں ایران کا جوہری مسئلہ شامل ہے، ہمیں تناؤ میں کمی، مکالمے اور تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت ہے، مصر اور پاکستان ایک جیسے مؤقف رکھتے ہیں، ہم ایران کے ساتھ تناؤ کم کرنے، امن عمل بحال کرنے اور بین الاقوامی قانون و اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں پر کاربند رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فوجی حل موجود نہیں، صرف سیاسی اور پرامن حل ہیں۔ ہمیں مل کر تناؤ میں کمی کے لیے کام کرنا ہوگا۔

دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے مصری وزیرِ خارجہ نے اقتصادی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو تجارتی حجم دوگنا کرنا چاہیے، باہمی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا چاہیے اور ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ زیرِ غور تجاویز میں پاکستان-مصر بزنس کونسل کی ازسرِنو تشکیل اور کراچی یا قاہرہ میں بزنس فورم کا انعقاد شامل ہے تاکہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کو جوڑا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مصر اور پاکستان کو توانائی، ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، زراعت، آئی ٹی، ڈیجیٹائزیشن، مصنوعی ذہانت اور پیٹروکیمیکلز میں تعاون بڑھانا چاہیے۔

ڈاکٹر بدر الطاعی کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی، غیرقانونی نقل مکانی اور اسمگلنگ کے خلاف لڑائی میں بھی اشتراک کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں پر مبنی دفاعی تعاون کو بھی وسعت دینی چاہیے۔

دنیا

غزہ میں مسلسل اسرائیلی حملوں کے باعث امدادی سامان کی ترسیل شدید رکاوٹوں کا شکار ہے، اقوام متحدہ

غزہ میں مسلسل اسرائیلی حملوں کے باعث امدادی سامان کی ترسیل شدید رکاوٹوں کا شکار ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ میں مسلسل اسرائیلی حملوں اور سخت پابندیوں کے باعث امدادی سامان کی ترسیل شدید رکاوٹوں کا شکار ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ غزہ کے بیشتر ہسپتال صرف جزوی طور پر فعال ہیں اور 16,500 سے زائد مریضوں کو فوری منتقلی کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی کے مختلف حصوں میں جاری جھڑپیں نہ صرف جانی نقصان کا سبب بن رہی ہیں بلکہ انسانی امداد کی ترسیل میں بار بار رکاوٹیں بھی پیدا کر رہی ہیں۔

ترجمان کے مطابق منگل کو اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ غزہ کے اندر انسانی امداد کی 8 منصوبہ بند نقل و حرکت کو ہم آہنگ کیا، جن میں سے صرف ایک کی اجازت ملی جبکہ سات سرگرمیوں کو روکا، مسترد یا منسوخ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں پہنچنے والا ہر ٹرک انتہائی فرق پیدا کرتا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ غزہ میں کوئی بھی ہسپتال مکمل طور پر فعال نہیں ہے، 36 میں سے صرف 18 ہسپتال جزوی طور پر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب بھی 16,500 سے زائد مریض ایسے ہیں جنہیں غزہ سے باہر فوری علاج کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار پابندیوں میں نرمی ہوتے ہی اپنی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر غیر مشروط انسانی رسائی کی اپیل کرتے ہیں تاکہ امدادی ٹیمیں ہر اس شخص تک پہنچ سکیں جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ جیسے ہی پابندیاں ختم ہوں گی، ہم اور ہمارے شراکت دار کہیں زیادہ موثر انداز میں کام کر سکیں گے۔


دنیا

سردی کی آمد کے ساتھ غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے سیلاب میں ڈوب گئے

سردی کی آمد کے ساتھ غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے سیلاب میں ڈوب گئے

غزہ پٹی میں موسلا دھار بارش کے باعث سیلاب آگیا، جس سے ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے ڈوب گئے، جو مضبوط پناہ گاہوں کے بغیر سخت موسمِ سرما کے طوفانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی 20 لاکھ آبادی کی بڑی اکثریت اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکی ہے، یہ بے دخلی اسرائیل کے 2 سالہ زمینی اور فضائی حملے کے نتیجے میں ہوئی، جو اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد شروع ہوا تھا، بہت سے لوگ اب خیموں اور دیگر بنیادی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اکتوبر کے وسط سے جنگ بندی عمومی طور پر برقرار ہے، لیکن بمباری نے غزہ کے گھنے آباد علاقوں کو تباہ کر دیا ہے، جس میں بنیادی ڈھانچہ بھی شامل ہے، جس کے باعث بیشتر لوگوں کی زندگی سخت حالات سے دوچار ہے۔

تیز بارش میں کھڑی ام احمد عوضہ نے اپنے خیمے کے باہر کھڑے ہو کر کہا کہ ’یہ تکلیف، یہ بارش اور ابھی کم دباؤ والے موسمی نظام شروع بھی نہیں ہوئے، ابھی تو سردیوں کا آغاز ہے اور ہم پہلے ہی ڈوب چکے اور ذلیل ہو رہے ہیں‘۔

فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشعوا نے کہا کہ ہمیں نئے خیمے یا ترپال نہیں ملے، ہمارا ترپال دو سال پرانا ہے اور ہمارا خیمہ بھی دو سال پرانا ہے، وہ بالکل گھس چکے ہیں، گھروں سے بے دخل ہونے والے تقریباً 15 لاکھ افراد کو رکھنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ نئے خیموں کی فوری ضرورت ہے۔

فلسطینی سول ڈیفنس سروس نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران طوفانی بارشوں اور سیلابی پانی نے بے گھر خاندانوں کے ہزاروں خیموں کو بھر دیا یا نقصان پہنچایا ہے۔

کچھ خیمے مکمل طور پر بہہ گئے کیونکہ کچھ علاقوں میں سیلابی پانی زمین سے 40 سے 50 سینٹی میٹر تک بلند ہوگیا تھا، جب کہ عملے اور عینی شاہدین کے مطابق ایک فیلڈ ہسپتال کو بھی سیلاب کے باعث اپنا کام معطل کرنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ نے پیر کے روز کہا کہ وہ غزہ میں سردیوں کا سامان لانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے امدادی ٹرکوں کی تعداد محدود ہے جو غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تاریخ کی بدترین معاشی گراوٹ

غزہ میں 2 سالہ بمباری اور اسرائیلی قبضے والے مغربی کنارے میں معاشی پابندیوں نے فلسطینی معیشت کو تاریخ کی بدترین گراوٹ کی جانب دھکیل دیا ہے اور دہائیوں کی ترقی کو مٹا دیا ہے۔

منگل کو جاری کردہ اقوام متحدہ کی تجارتی و ترقیاتی ایجنسی (یو این سی ٹی اے ڈی) کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی معیشت نے 2024 میں 2022 کے مقابلے میں 30 فیصد سکڑاؤ کا سامنا کیا ہے، جو اس 2 سالہ جنگ کے اثرات کو جانچنے کے لیے بطور معیار استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ کمی 1972 میں ڈیٹا جمع کرنے کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، جو اس سے پہلے ہونے والے تمام معاشی بحرانوں سے بھی زیادہ ہے، جن میں 2000 میں امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد شروع ہونے والا دوسرا انتفاضہ بھی شامل ہے۔

جنیوا میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے ’یو این سی ٹی اے ڈی‘ کے نائب سربراہ پیڈرو مانوئل مورینو نے کہا کہ جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے، طویل فوجی کارروائی اور دیرینہ پابندیوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقے کی معیشت کو اس کی تاریخ کی سب سے گہری گراوٹ میں دھکیل دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق فی کس جی ڈی پی 2003 کی سطح پر واپس آگئی ہے، جس سے 22 سال کی پیش رفت مٹ گئی ہے، اور اسے 1960 کے بعد عالمی سطح پر بدترین 10 معاشی بحرانوں میں شمار کیا گیا ہے۔

رپورٹ نے کہا کہ غزہ میں تباہی کا پیمانہ اتنا وسیع ہے کہ یہ علاقہ آنے والے کئی برسوں تک بین الاقوامی امداد پر انحصار کرے گا۔

غزہ: شدید بارشوں سے بے گھر فلسطینیوں کے خیمے ڈوب گئے، سرد موسم نے مشکلات میں اضافہ کر دیا

غزہ: شدید بارشوں سے بے گھر فلسطینیوں کے خیمے ڈوب گئے، سرد موسم نے مشکلات میں اضافہ کر دیا

غزہ میں شدید بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، جس سے ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے سیلابی پانی میں ڈوب گئے ہیں جب کہ سخت سردی کے باعث مقامی افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق غزہ کی تقریبا 20 لاکھ آبادی کی اکثریت اسرائیلی حملوں کے دوران بے گھر ہونے پر مجبور ہوئی، جنگ بندی کے بعد آبادی کا بڑا حصہ اب خیموں اور دیگر عارضی پناہ گاہوں میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہے۔

اکتوبر کے وسط کے بعد سے بڑی حد تک جنگ بندی برقرار ہے، تاہم تنازع کے باعث غزہ میں بنیادی انفراسٹرکچر سمیت بڑی حد تک تباہی پھیلی ہے، جس سے لوگوں کی زندگیوں میں سخت مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔

ام احمد عوضہ نے دورانِ بارش اپنے خیمے کے باہر کھڑے ہو کر کہا کہ یہ تکلیف، یہ بارش اور کم دباؤ والے موسمی حالات تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے، سردیوں کا آغاز ہی ہوا ہے اور ہم پہلے ہی سیلاب اور رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔

ہمیں نئے خیمے اور ترپال نہیں ملیں، ہماری ترپال اور خیمہ دونوں 2 سال پرانے ہیں، یہ مکمل طور پر خراب ہو چکے ہیں۔

فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا نے کہا کہ تقریبا 15 لاکھ بے گھر افراد کے لیے کم از کم 3 لاکھ نئے خیموں کی فوری ضرورت ہے۔

فلسطینی سول ڈیفنس سروس کے مطابق گزشتہ ہفتے شدید بارشوں کے دوران ہزاروں خیمے جو بے گھر خاندانوں کے لیے بنائے گئے تھے، پانی میں ڈوب گئے یا اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

کچھ خیمے مکمل طور پر بہہ گئے کیونکہ ساحلی علاقے میں پانی کی سطح زمین سے 40 سے 50 سینٹی میٹر بلند ہو گئی تھی، ساتھ ہی طبی عملہ کے مطابق ایک فیلڈ ہسپتال کو بھی سیلاب کی وجہ سے اپنی معمول کی کارروائی کو بھی عارضی طور پر روکنا پڑا۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ غزہ میں سردیوں کے موسم کی مناسبت سے امداد پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اسرائیل امدادی اداروں کی جانب سے پابندیوں کے باعث ٹرکوں کی تعداد محدود ہے۔

غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے تحت وعدہ شدہ امداد اتنی مقدار میں داخل نہیں ہونے دے رہا، امدادی ادارے بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل کئی ضروری اشیا کے داخلے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر جنگ بندی کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کر رہا ہے اور کسی بھی قسم کی امداد کو غزہ میں داخل ہو نے سے نہیں روکتا۔

دنیا

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے روکنے میں ناکامی پر اسرائیلی فوج کے 3 جرنیل برطرف

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے روکنے میں ناکامی پر اسرائیلی فوج کے 3 جرنیل برطرف

7 اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے روکنے میں ناکامی پر اسرائیلی فوج نے 3 جرنیلوں کو برطرف کرنے اور دیگر متعدد سینئر افسران کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا اعلان کیا ہے، یہ ملک کی تاریخ کا سب سے مہلک حملہ تھا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اسرائیلی افواج کے سربراہ ایال زمیر کے حملے کی وجوہات پر ’نظام کے اندر تحقیقات‘ کے مطالبے کے 2 ہفتے بعد کیا گیا ہے، عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے ریاستی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے میں تاخیر کی ہے۔

برطرف کیے گئے جرنیلوں کی فہرست میں 3 ڈویژنل کمانڈر شامل ہیں، جن میں سے ایک اس وقت ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہا تھا۔

اتوار کو جاری کیے گئے ایک فوجی بیان میں کہا گیا کہ وہ افواج کی اس ناکامی کے ذاتی طور پر ذمہ دار ہیں کہ حملے کو روکا نہ جا سکا۔

انہیں برخاست اس وقت کیا گیا، جب تینوں پہلے ہی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے تھے، جن میں جنوبی کمان کے سابق سربراہ جنرل یارون فنکلمین بھی شامل ہیں۔

نیوی اور فضائیہ کے سربراہان کے خلاف بھی تادیبی کارروائیوں کا اعلان کیا گیا جب کہ مزید 4 جرنیلوں اور متعدد سینئر افسران کے خلاف بھی اقدامات کیے گئے۔

یہ ابھی دیکھنا باقی ہے کہ آیا اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو بھی ان ناکامیوں کی ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے حماس کا حملہ روکا نہ جا سکا۔ گزشتہ دو سال سے نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ 7 اکتوبر کے حملوں کی ناکامیوں پر جنگِ غزہ کے اختتام کے بعد بات کی جانی چاہیے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی وابستگی سے قطع نظر اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جو یہ طے کرے کہ یہ ناکامیاں کس کی ذمہ داری تھیں۔

تاہم نیتن یاہو کی حکومت نے اب تک ایسا کمیشن تشکیل دینے سے انکار کیا ہے۔

میزائل حملے میں 3 فلسطینی شہید

دریں اثنا، اسرائیلی فورسز نے پیر کے روز غزہ میں اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں کی حد بندی لائن کے قریب 3 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، جو اس جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے کہ 6 ہفتے قبل منظور ہونے والے نازک جنگ بندی معاہدے کو وسعت دینے کی کوششیں کس قدر مشکل ہیں۔

فلسطینی طبی عملے نے کہا کہ ایک واقعے میں اسرائیلی ڈرون نے خان یونس کے مشرق میں ایک گروپ پر میزائل فائر کیا، جس سے دو فلسطینی شہید اور ایک زخمی ہوا، جب کہ ایک اور واقعے میں غزہ شہر کے مشرقی جانب ایک ٹینک نے گولہ فائر کیا جس سے ایک شہری شہید ہوا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے فائر اس وقت کیا جب اس نے جنگجوؤں کو نام نہاد ’یلو لائن‘ عبور کرتے اور فوج کے قریب آتے دیکھا، جو ان کے لیے فوری خطرہ تھے۔

حماس اور اسرائیل نے 9 اکتوبر کو ایک جنگ بندی پر دستخط کیے تھے، جس نے 2 سالہ تباہ کن جنگ کو روک دیا تھا، لیکن یہ معاہدہ سب سے پیچیدہ تنازعات کو آئندہ مذاکرات کے لیے چھوڑ گیا، جس سے تنازع منجمد تو ہو گیا مگر حل نہیں ہوا۔

دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزیوں اور امریکا کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت مطلوبہ اقدامات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر (جنہوں نے امریکا کی اس منصوبے میں مدد کی تھی اور جن کے بارے میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امن بورڈ میں شامل ہو سکتے ہیں) نے اتوار کے روز مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ڈپٹی لیڈر حسین الشیخ سے ملاقات کی۔

حسن الشیخ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ انہوں نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد کی صورتحال اور فلسطینی حقِ خودارادیت کی ضروریات پر بات چیت کی۔

دوسری جانب غزہ میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بتایا کہ قاہرہ میں حماس کے وفد، جس کی قیادت جلاوطن رہنما خلیل الحیہ کر رہے تھے، نے جنگ بندی کے اگلے مرحلے کی تلاش پر مصری حکام سے بات چیت کی۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے آغاز سے اب تک کم از کم 342 فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہو چکے ہیں۔

دنیا

غزہ: جنگ بندی معاہدے کی پھر خلاف وزری، اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 14 فلسطینی شہید

غزہ: جنگ بندی معاہدے کی پھر خلاف وزری، اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 14 فلسطینی شہید

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں آج کم از کم 14 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عینی شاہدین اور طبی کارکنوں کے مطابق پہلا حملہ گنجان آباد علاقے رمل میں ایک گاڑی پر ہوا، جس کے نتیجے میں 5 افراد شہید ہو گئے، تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ شہید ہونے والے افراد گاڑی کے اندر موجود تھے اس کے قریب۔

طبی کارکنوں کے مطابق گاڑی پر حملے کی کچھ دیر بعد اسرائیلی فضائیہ نے وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح اور نصیرات کیمپ میں 2 الگ الگ گھروں پر فضائی حملے کیے، جس میں مزید 5 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔

کچھ ہی دیر بعد غزہ شہر کے مغربی علاقے میں ایک اور گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں 4 فلسطینی شہید اور دیگر زخمی ہوئے، جس سے آج شہادتوں کی مجمعوعی تعداد 14 تک پہنچ گئی۔

فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی افواج کے غزہ پر فضائی حملوں کے دوران 316 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

10 اکتوبر کی جنگ بندی نے 2 سالہ غزہ تنازع میں کشیدگی کو کم کیا، جس سے لاکھوں فلسطینیوں کو تباہ حال غزہ میں واپس جانے کا موقع ملا، تاہم فلسطینی عام شہریوں کی شہادتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل کی تباہ کن کارروائیوں میں 69 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

دنیا

جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی افواج نے 8 مزید فلسطینی شہید کر دیے

جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی افواج نے 8 مزید فلسطینی شہید کر دیے

قابض اسرائیلی افواج نے جنگ بندی معاہدے کے باوجود جمعہ کے روز کم از کم 8 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، جن میں دو کم عمر نوجوان بھی شامل تھے، جنہیں مقبوضہ مغربی کنارے میں گولی مار کر قتل کیا گیا، اسرائیلی فوج نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اس نے جنوبی لبنان کے ایک پناہ گزین کیمپ پر منگل کے روز کیے گئے حملے میں 13 فلسطینیوں کو شہید کیا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارتِ صحت نے بتایا کہ 2 نو عمر نوجوانوں کو رات کے وقت قصبہ کفر عقب میں شہید کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 18 سالہ عمر خالد احمد المربو، اور 16 سالہ سامی ابراہیم سامی مشایخ مقبوضہ افواج کی فائرنگ سے کفر عقب، رام اللہ کے قریب، شہید ہوئے۔

فلسطینی ریڈ کریسنٹ نے اطلاع دی کہ اس کے طبی کارکنوں نے رات کے دوران کفر عقب سے 2 زخمیوں کو منتقل کیا، جن میں سے ایک کو انتہائی سنگین گولی کا زخم اور دوسرے کو سینے میں گولی لگنے کا زخم تھا۔

عمر المربو کے دوست عدی الشرفا، جو اس کی شہادت کے چشم دید گواہ ہیں، انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ دونوں سڑک پر موجود تھے، جب اسرائیلی فوج نے چھاپے کے دوران فائرنگ شروع کر دی، ان کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے بغیر کسی اشتعال انگیزی کے فائرنگ کی۔

الشرفا نے کہا کہ المربو سینے میں، دل کے مقام پر گولی لگنے سے گرے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے، وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ ان کا دوست کسی جھڑپ میں شریک نہیں تھا اور نہ ہی پتھراؤ کر رہا تھا۔

قصبہ کفر عقب بظاہر غیر قانونی طور پر ضم کیے گئے مشرقی یروشلم کا حصہ ہے، مگر اسرائیل کی علیحدگی دیوار نے اس علاقے کو کاٹ دیا ہے، جس کے باعث یہاں کے رہائشیوں کو نہ یروشلم کی بلدیہ اور نہ فلسطینی اتھارٹی سے بنیادی خدمات میسر ہیں۔

محصور جنوبی غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی فورسز نے جمعہ کے روز 5 فلسطینیوں کو قتل کیا، یہ اموات جنوبی غزہ کے اس علاقے میں ہوئیں جو اسرائیلی فوجی کنٹرول میں ہے اور جسے نام نہاد یلو لائن کے مشرق میں بتایا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ہلاکتوں کو جواز دینے کے لیے ’فوری خطرے‘ کا دعویٰ کیا، یہی بہانہ اسرائیلی فوج کئی بار اپنی جارحیت کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے، حالانکہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے غزہ میں اپنی کارروائیاں معطل رکھنے کی تصدیق کی ہے۔

علاوہ ازیں غزہ کے ایک ہسپتال کے عہدیدار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ایک اور فلسطینی خان یونس کے قریب اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہوا۔

ادھر اسرائیلی فوج نے جمعہ کو تصدیق کی کہ جنوبی لبنان کے عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ پر ہفتے کے آغاز میں کیے گئے اس کے حملے میں 13 فلسطینی شہید ہوئے تھے، جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے جنگجو تھے۔

دنیا

غزہ: اسرائیلی فورسز کی جنگ بندی معاہدے کی پھر خلاف ورزی، مزید 23 فلسطینی شہید کر دیے

غزہ: اسرائیلی فورسز کی جنگ بندی معاہدے کی پھر خلاف ورزی، مزید 23 فلسطینی شہید کر دیے

غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی حملوں میں مزید 23 بے گناہ فلسطینی شہید ہو گئے۔

قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے مختلف ہسپتالوں کے ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں غزہ اور خان یونس میں کم از کم 23 افراد شہید ہو گئے ۔

شہید ہونے والوں میں زیتون محلے کا 5 رکنی پورا خاندان بھی شامل ہے، جو اسرائیلی حملے میں شہید ہو گیا۔

خان یونس کے مغربی علاقے میں یو این آر ڈبلیو اے کی عمارت پر اسرائیلی فوج کے حملے میں مزید 3 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے، شجاعیہ جنکشن، صلاح الدین اسٹریٹ کے قریب اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک شخص شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔

شجاعیہ محلے میں ہی ایک اور حملے میں اسرائیلی ٹینک سے داغے گئے گولے سے ایک شخص شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

دریں اثنا اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ حماس کی جانب سے اس کے فوجیوں پر فائرنگ کے جواب میں فضائی حملے کیے گئے۔

اسرائیلی فوج نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر کہا کہ خان یونس میں ہمارے فوجیوں پر مسلح افراد نے فائرنگ کی، تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جواب میں جنوبی کمانڈ کی قیادت میں غزہ کے تمام علاقوں میں مختلف اہداف پر حملے کیے گئے۔

واضح رہے کہ غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق جنگ بندی کے دوارن بھی اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 393 حملے کیے، جس میں 280 افراد شہید اور 672 زخمی ہوئے۔

اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کش جنگ کے نتیجے میں اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں کم از کم 69 ہزار 513 افراد شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 745 زخمی ہو چکے ہیں۔

دنیا

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی منظوری پر چین اور روس کا اظہار تشویش، حماس نے قرارداد مسترد کردی

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی منظوری پر چین اور روس کا اظہار تشویش، حماس نے قرارداد مسترد کردی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے دیگر ارکان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اُن کی انتظامیہ کے ’غزہ منصوبے‘ کی منظوری دی، جس کا مقصد غزہ کو طویل المدتی استحکام کی طرف لے جانا ہے، انہوں نے اس ووٹ کو ’اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منظوریوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے چین اور روس کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے امریکی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، حالانکہ دونوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’سلامتی کونسل کی ناقابلِ یقین ووٹنگ پر دنیا کو مبارک ہو، جس نے بورڈ آف پیس کو تسلیم اور منظور کیا ہے، جس کی سربراہی میں خود کروں گا‘، انہوں نے اس اقدام کو تاریخی اہمیت کا لمحہ قرار دیا۔

نیویارک میں پیر کی شام منظور کی جانے والی اس قرارداد میں ایک کثیر مرحلہ فریم ورک شامل ہے، جس میں بورڈ آف پیس کا قیام اور غزہ میں ایک عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی شامل ہے، اس فورس کا کام جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے کی نگرانی کرنا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب منتقلی میں مدد فراہم کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کونسل سے باہر اُن ریاستوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس منصوبے کی حمایت کی جن میں قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکیہ اور اردن شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں بورڈ آف پیس کی مکمل رکنیت کا اعلان کیا جائے گا، اگرچہ وہ پہلے ہی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر (جنہوں نے اس تصور کی تجویز دی تھی) کا ممکنہ رکن کے طور پر ذکر کر چکے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی 20 نکاتی پیشکش پر گزشتہ ماہ اسرائیل اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا، جو اس تصور کو پیش کرتی ہے کہ بورڈ آف پیس، جنگ کے بعد غزہ کو سیاسی استحکام، تعمیر نو اور ریاست کے قیام کی طرف لے جائے گا۔

یہ پیشکش آئی ایس ایف کو تمام ضروری اقدامات استعمال کرنے کا اختیار بھی دیتی ہے جو اقوامِ متحدہ کی اصطلاح میں فوجی قوت کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے، تاکہ سرحدی علاقوں کو محفوظ بنایا جائے، تصدیق شدہ فلسطینی پولیس یونٹوں کی مدد کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ جیسے جیسے استحکام فورس اپنا کنٹرول بڑھائے گی اور امن و امان بحال کرے گی، غزہ کی مقامی تنظیموں کو غیر مسلح کرنے سے جڑے معیارات، اہداف اور وقت کے تعین کے مطابق اسرائیلی افواج غزہ سے واپس چلی جائیں گی، یہ پیمانے آئی ایس ایف، اسرائیل، امریکا اور جنگ بندی کے ضامن ممالک کے درمیان مشترکہ طور پر طے کیے جائیں گے۔

قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے میں بیان کردہ اقدامات کو فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت حقیقی پیش رفت میں تبدیل کرنے کو یقینی بنائے۔

سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ دنیا کو ایک قابلِ اعتماد اور محدود ٹائم فریم کے عمل کی حمایت کرنی چاہیے، جو ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف لے جائے۔

انہوں نے زور دیا کہ کوئی الحاق نہیں اور کوئی جبری نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان جغرافیائی تسلسل ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کونسل کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے جنگ بندی کے استحکام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔ ایک علیحدہ بیان میں انہوں نے تمام فریقین سے امریکی منصوبے کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے کی اپیل کی، جس کا مقصد دو ریاستی حل کے حصول کے لیے سیاسی عمل کا آغاز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ، قرارداد کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس میں غزہ کی بڑی شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانی امداد کے کاموں کو بڑھانا بھی شامل ہے۔

اگرچہ روس اور چین نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، مگر دونوں نے سخت اعتراضات اٹھائے۔

اقوامِ متحدہ میں روس کے مندوب واسیلی نیبینزیا نے کہا کہ قانونی امور سے متعلق اہم نکات نظر انداز کر دیے گئے ہیں اور خبردار کیا کہ آئی ایس ایف ایسا بااختیار نظر آتا ہے کہ وہ رام اللہ کی پوزیشن یا رائے کی پروا کیے بغیر مکمل خودمختاری کے ساتھ عمل کر سکتا ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ یہ قرارداد نوآبادیاتی طرزِ عمل کی یاد دلاتی ہے، جو برطانوی مینڈیٹ کے دور میں دیکھنے میں آتے تھے، جہاں فلسطینیوں کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔

چین کے مندوب فو کونگ نے کہا کہ متن کئی پہلوؤں سے کمزور اور انتہائی تشویشناک ہے۔

انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کے لیے پیش کیے گئے گورننس انتظامات پر تنقید کی، اور کہا کہ اس میں فلسطین بمشکل دکھائی دیتا ہے اور فلسطینی خودمختاری کو مکمل طور پر نہیں سراہا گیا۔

اگرچہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کیا، لیکن حماس نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا کیونکہ اس کے مطابق یہ فلسطینیوں کے مطالبات اور حقوق کا احترام نہیں کرتی۔

اپنے بیان میں گروپ نے کہا کہ ’یہ قرارداد ہمارے فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق اور مطالبات کے معیار پر پوری نہیں اترتی‘۔

بیان میں اس بین الاقوامی فورس کے قیام پر بھی اعتراض کیا گیا جس کا مشن ’فلسطینی گروہوں کے غیر مسلح کرنے‘ کو شامل کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد غزہ کی پٹی پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرتی ہے جسے ہمارے عوام، اس کی مزاحمتی قوتیں اور گروہ مسترد کرتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے منگل کے روز ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کی اور کہا کہ یہ منصوبہ غزہ کو مکمل غیر مسلح کرنے، اسلحے کے مکمل خاتمے اور شدت پسندی کے خاتمے پر زور دینے کی وجہ سے امن اور خوشحالی کی طرف لے جائے گا۔

ایکس پر نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ یہ منصوبہ، ابراہم معاہدوں کی توسیع کا باعث بنے گا۔

پاکستان

پاکستان کی مقبوضہ مغربی کنارے اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت

پاکستان کی مقبوضہ مغربی کنارے اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت

پاکستان نے مقبوضہ مغربی کنارے میں قابض اسرائیلی فورسز اور انتہا پسند آبادکاروں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں ناقابلِ قبول قرار دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں بار بار حملے، نمازیوں کو اشتعال دلانے کے واقعات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ عبادت گاہوں کا تحفظ اور آبادکار تشدد کی روک تھام عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

ترجمان کے مطابق پاکستان نے متعلقہ اقوامِ متحدہ قراردادوں پر مکمل عملدرآمد اور فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد، خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

دنیا

سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے سے متعلق امریکی قرارداد منظور کرلی

سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے سے متعلق امریکی قرارداد منظور کرلی

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل رائے شماری کے ذریعے امریکا کی تیار کردہ اُس قرارداد کو منظور کر لیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کی توثیق کی گئی ہے اور فلسطینی علاقے کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی اجازت دی گئی ہے۔

گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے پر متفق ہو گئے تھے، لیکن اقوامِ متحدہ کی یہ قرارداد ایک عبوری انتظامی ادارے کو جائز حیثیت دینے اور ان ممالک کو یقین دلانے کے لیے اہم سمجھی جا رہی ہے جو غزہ میں اپنے فوجی بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 13 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ روس اور چین نے غیر حاضری اختیار کی، جو قابلِ ذکر بات ہے کیونکہ اس سے قبل اشارے مل رہے تھے کہ ماسکو شاید اس متن کو ویٹو کر دے گا۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک ’بورڈ آف پیس‘ میں حصہ لے سکتے ہیں، جو ایک عبوری اتھارٹی کے طور پر تصور کیا گیا ہے جو غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی کی نگرانی کرے گی۔

اس میں بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی بھی منظوری دی گئی ہے، جس کا مقصد غزہ کو غیر عسکری بنانا ہے، جس میں ہتھیاروں کو جمع کرنا اور عسکری ڈھانچے کو تباہ کرنا شامل ہے۔

ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ قرارداد کے ساتھ ایک ضمیمے کی صورت میں شامل ہے۔

سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے روس نے پہلے قرارداد کی مخالفت کے اشارے دیے تھے، لیکن ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہ کر اس کی منظوری ممکن بنا دی۔

ووٹنگ کے بعد امریکا کے سفیر مائیک والز نے سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس فیصلے کو ’تاریخی اور تعمیری قرارداد‘ قرار دیا، جو خطے کے لیے ایک نیا راستہ طے کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ اس کوشش میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے، جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں، اور پورے خطے کے لوگوں کے لیے ایک نیا راستہ متعین کرنا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قرارداد کی منظوری پُرامن اور خوشحال غزہ اور اسرائیل کو محفوظ زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرنے کی جانب ایک اور اہم قدم ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ آئی ایس ایف اور نئے سرمایہ کاری کے طریقہ کار ایک ساتھ کام کریں گے، اول الذکر کا مقصد خطے کو حماس کے اثر سے آزاد کرنا ہے، اور موخر الذکر کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

تاہم، حماس نے اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے فلسطینی عوام اور مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔

حماس نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قبضے کے حق میں جاتا ہے‘۔

غزہ کی پٹی دو سالہ لڑائی کے بعد تقریباً کھنڈر بن چکی ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اب شاید وہ حالات پیدا ہو گئے ہیں‘ جن کے تحت فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاستی درجہ کے لیے ایک قابلِ اعتبار راستہ ہموار ہو سکتا ہے، لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحاتی پروگرام مکمل کرے اور غزہ کی تعمیرِ نو میں پیش رفت ہو۔

اس امکان کو اسرائیل پہلے ہی صاف طور پر رد کر چکا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ’ہمارا کسی بھی علاقے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کا موقف تبدیل نہیں ہوا‘۔

پاکستان نے خونریزی روکنے کیلئے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا

اسی دوران، امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے یہ قدم لڑائی روکنے، عام شہریوں کے تحفظ اور فائربندی کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھایا تاکہ انسانی امداد، تعمیرِ نو، اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کا راستہ ہموار ہو سکے۔

سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسلام آباد نے اس منصوبے کی حمایت ’صرف ایک بنیادی مقصد‘ کے تحت کی جس میں خونریزی روکنا، خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ووٹ فلسطینیوں، عرب گروپ اور 8 رکنی عرب-اسلامی گروپ (سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، انڈونیشیا اور ترکیہ)کے مؤقف کے مطابق دیا گیا، جنہوں نے اس سال کے اوائل میں ٹرمپ کے منصوبے کی توثیق کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ووٹ فلسطین اور عرب گروپ کے مؤقف کی روشنی میں دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کا مقصد جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا، جبری بے دخلی کو روکنا اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد راستے کی حمایت کرنا تھا۔

سفیر نے بتایا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران فعال کردار ادا کیا، عرب تجاویز کی حمایت کی اور اپنے ترمیمی نکات بھی پیش کیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قرارداد کا متن فلسطینی مسئلے پر ’بین الاقوامی قانونی جواز‘ کے مطابق ہو۔

انہوں نے بعض تجاویز شامل کیے جانے کا خیرمقدم کیا، مثلاً فائربندی برقرار رکھنے کے صریح مطالبے کا اضافہ اور سلامتی کونسل کو باقاعدہ رپورٹنگ کی شرط، لیکن ساتھ ہی کہا کہ کئی اہم نکات ابھی بھی تشنہ رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے واضح سیاسی راستہ، فلسطینی اتھارٹی کا حکمرانی اور تعمیر نو میں مرکزی کردار، اور اقوامِ متحدہ کی بڑھتی ہوئی شمولیت، یہ سب نہایت اہم پہلو ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم پرامید ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں مزید تفصیلات سامنے آنے سے وہ ضروری وضاحت مل سکے گی‘۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے پاکستان کی مستقل پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی امن منصوبہ اسی وقت قابلِ قبول ہوگا جب وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مسلسل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی طرف لے جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ موجودہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ’مکمل طور پر قابلِ عمل‘ ہیں، اور خبردار کیا کہ نئی قرارداد ’قائم شدہ بین الاقوامی قانون‘ کے دائرے میں کسی قسم کی تبدیلی یا کمی کا باعث نہیں بننی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقِ خود ارادیت ’بنیادی اور غیر مشروط‘ ہےاور اسے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔

سفیر نے کہا کہ مجوزہ ’بورڈ آف پیس‘ ایک عارضی نگرانی کا نظام ہونا چاہیے، جس کا مینڈیٹ 2027 میں ختم ہو جائے، جب تک اسے دوبارہ نہ بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں انتظامی و عملی اختیار فلسطینیوں کے پاس ہی رہنا چاہیے، اور یہ ایک فلسطینی کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو حکمرانی اور تعمیر نو میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینیوں کو نظرانداز کر کے امن حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایسی تمام پالیسیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے جو فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرتی ہیں‘۔

عاصم افتخار احمد نے آئی ایس ایف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس اُس وقت ہی استحکام کا ذریعہ بن سکتی ہے جب وہ اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق واضح مینڈیٹ کے تحت کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ غیر مسلح کرنا ایک سیاسی مذاکراتی عمل کے ذریعے متحدہ فلسطینی قومی اتھارٹی کے تحت ہونا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ بندی کی یکطرفہ خلاف ورزیاں پورے عمل کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور سب کچھ ناکام بنا سکتی ہیں، اور زور دیا کہ آئی ایس ایف کا مینڈیٹ اُس وقت ہی مؤثر ہوگا، جب مکمل اسرائیلی انخلا ہو چکا ہو۔

غزہ میں تباہی کے پیمانے کا ذکر کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں 69 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں شرم الشیخ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس ’امید کی ایک کرن‘ ثابت ہوئی ہے۔

عاصم افتخار نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتبار اور قابل میعاد کارروائی کی حمایت کرے، انہوں نے زور دیا کہ کوئی الحاق یا کوئی جبری بے دخلی نہیں ہونی چاہیے، اور یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ کی مسلسل جغرافیائی وحدت ایک قابلِ عمل ریاست کے لیے ضروری ہے۔

مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ، فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی عوام کو حکمرانی، تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی مضبوطی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔

اپنے خطاب کے اختتام پر سفیر نے فلسطینی عوام کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی کا اعادہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا دکھ ہمارا درد ہے، ان کی ثابت قدمی ہمارا فخر ہے، ان کی امنگیں ہمارا مقصد ہے‘، اور یہ کہ پاکستان ان کے حقِ خود ارادیت کی مکمل تکمیل تک ان کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔

دنیا

چین اور روس کا غزہ میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی قرارداد ویٹو نہ کرنے کا امکان

چین اور روس کا غزہ میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی قرارداد ویٹو نہ کرنے کا امکان

سفارتی ذرائع کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سینئر سفارت کار محتاط طور پر پُرامید ہیں کہ چین اور روس ممکنہ طور پر امریکی سرپرستی میں غزہ میں عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی کی منظوری سے متعلق پیش کی جانے والی سلامتی کونسل کی قرارداد پر ویٹو استعمال کرنے کے بجائے غیر حاضر رہ سکتے ہیں، جو جنگ بندی کے بعد غزہ کے مستقبل کے لیے اقوامِ متحدہ کی صلاحیت کا ایک اہم امتحان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امید ہے کہ قرارداد کا مسودہ پیر کو سلامتی کونسل میں رائے دہی کے لیے پیش ہوگا، اور اس وقت منظور ہوجائے گا جب اسے 9 حمایتی ووٹ ملیں، اور 5 مستقل اراکین (امریکا، چین، روس، برطانیہ اور فرانس) میں سے کوئی ویٹو نہ کرے۔

ایک سینئر سفارت کار نے کہا کہ چین قرارداد کو ویٹو نہیں کرے گا، لیکن روس کا مؤقف غیر یقینی اور اہم بھی ہے، ایک اور سفارت کار نے کہا کہ چین اور روس، ممکن ہے کہ دونوں غیر حاضر رہیں، مگر وہ ویٹو استعمال نہیں کریں گے۔

امریکا کی جانب سے باضابطہ طور پر پیش کیا گیا مسودہ قرارداد 2 سالہ مینڈیٹ کے ساتھ ’بورڈ آف پیس‘ نامی ایک عبوری ادارہ قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، جیسا کہ اُن کے 20 نکاتی غزہ پلان میں تجویز کیا گیا ہے۔

یہ مسودہ ایک عارضی 20 ہزار اہلکاروں پر مشتمل آئی ایس ایف کی بھی منظوری دیتا ہے، جو غیر ریاستی مسلح گروہوں کا اسلحہ ختم کرے، انسانی ہمدردی کے راستوں کو محفوظ بنائے، شہریوں کا تحفظ کرے اور حکومتی ڈھانچوں کی بحالی میں مدد دے، امریکا نے واضح کیا ہے کہ اس فورس میں کوئی امریکی فوجی شامل نہیں ہوگا۔

خطے کی جانب سے بھرپور حمایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 8 عرب اور مسلمان ممالک، پاکستان، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، اردن اور ترکی نے اس ہفتے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے تھے، جس میں امریکی مسودے کی توثیق اور اس کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امریکا بھی اس بیان میں شامل تھا، سفارت کاروں کے مطابق، یہ حمایت اس تشویش کی عکاسی کرتی ہے کہ کہیں تشدد دوبارہ بھڑک نہ اٹھے۔

ایک سفارت کار نے اس سوال پر کہ مسلم ممالک نے امریکی قرارداد کی حمایت کیوں کی، جواب دیا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ فلسطینی نسل کُشی دوبارہ شروع ہو۔

اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منصور نے پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں سفیر منیر اکرم سے ملاقات کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ غزہ میں خونریزی فوراً رکنی چاہیے، فلسطینی مشن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس نے امریکی مسودے کے لیے عرب مسلم گروپ کی حمایت کی توثیق کی ہے۔

مسودہ قرارداد غزہ کی عبوری انتظامیہ کے لیے بورڈ آف پیس کا تصور پیش کرتا ہے، مگر اس پر سخت تنقید بھی ہوئی ہے، روس اور چین نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بورڈ کو مکمل طور پر نکال دیا جائے۔

آئی ایس ایف غیر ریاستی مسلح گروہوں(بشمول حماس) سے اسلحہ کی مستقل برطرفی پر کام کرے گی، جو ایک نہایت حساس پہلو ہے۔

جیسے جیسے فورس ’کنٹرول اور استحکام قائم کرے گی‘، مسودہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کو ایسے ’معیارات، سنگ میلوں اور ٹائم لائنز‘ سے مشروط کرتا ہے جن پر اسرائیل، اسٹیبلائزیشن فورس، امریکا اور دیگر فریقین کے درمیان اتفاق ہو۔

تنقید کے جواب میں امریکی مسودے میں ترمیم کی گئی تاکہ اسے ’فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے قابلِ اعتبار راستے‘ پر زور دیا جا سکے، لیکن یہ مشروط ہے، یعنی فلسطینی اتھارٹی کی مخلصانہ“ اصلاحات اور غزہ کی تعمیرِ نو میں پیش رفت کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جائے گی۔

کچھ عرب ممالک اور ممکنہ فوجی دستے فراہم کرنے والے ملکوں نے اس بات پر بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ بورڈ آف پیس کی تشکیل کیسے ہوگی، اسے کون چلائے گا، اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا اگر کوئی کردار ہوا تو کیا کردار ہوگا۔

روس کی مخالف قرارداد

ماسکو نے جواب میں ایک متبادل مسودہ پیش کیا ہے، جس میں بورڈ آف پیس کو حذف کیا گیا ہے اور اس کی جگہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ استحکام اور حکمرانی کے لیے مختلف آپشن پیش کریں۔

روس کا مؤقف ہے کہ امریکی مسودہ ’بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قانونی معیاروں‘ بالخصوص دیرینہ 2 ریاستی حل پر پورا نہیں اترتا، متبادل متن زیادہ جامع مشاورت سے تشکیل پانے والی بین الاقوامی فورس کا خواہاں ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی واضح نگرانی ہو۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ قرارداد کی منظوری کے لیے سلامتی کونسل کے ارکان پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اسے مشرقِ وسطیٰ میں امن کا بہترین راستہ قرار دیتے ہوئے اعلانیہ اس تجویز کا دفاع کیا ہے، اور اُن عرب و مسلم ممالک کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے قرارداد کی حمایت کی ہے۔

امریکی سفارت کار پُرامید ہیں، لیکن اس کے باوجود، قرارداد کو سنگین رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں ویٹو کا خطرہ، متحدہ عرب امارات کا یہ کہنا کہ اسے فورس کے لیے ’کوئی واضح فریم ورک‘ نظر نہیں آتا، فوجی دستوں کی فراہمی سے متعلق غیر یقینی صورتحال، بورڈ آف پیس کی قانونی حیثیت پر سوالات (خصوصاً اگر فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز کیا گیا) عملی نفاذ اور فنڈنگ سے متعلق ابہام، اور فوری انسانی بحران شامل ہیں۔

دنیا

غزہ: اسرائیل نے مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کر دیں

غزہ: اسرائیل نے مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کر دیں

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل نے مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کر دیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزراتِ صحت نے ٹیلیگرام پر جاری بیان میں بتایا کہ اسرائیل نے گزشتہ روز بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے شہدا کی لاشیں واپس کیں، جس کے بعد موصول ہونے والی شہدا کی لاشوں کی مجموعی تعداد 330 ہوگئی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے اب تک واپس کی گئی 330 لاشوں میں سے صرف 97 شہدا کی شناخت ممکن ہو سکی ہے۔

دوسری جانب، غزہ میں شدید بارشوں کے بعد بے گھر فلسطینی کے لیے قائم عارضی کیمپوں میں پانی بھرنے سے مقامی افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، ساتھ ہی اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے پٹی میں امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں درپیش ہیں، جس کے باعث لاکھوں خاندان مناسب پناہ گاہوں سے محروم ہیں۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کی غزہ پر بمباری و حملوں میں کم از کم 69 ہزار 187 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 703 شہری زخمی ہوچکے ہیں۔

دنیا

پاکستان اور اہم مسلم ممالک کی غزہ میں عالمی فورس تعینات کرنے کی امریکی قرارداد کی حمایت

پاکستان اور اہم مسلم ممالک کی غزہ میں عالمی فورس تعینات کرنے کی امریکی قرارداد کی حمایت

پاکستان نے دیگر اہم مسلم اور عرب ممالک کے ساتھ شامل ہو کر اُس امریکی قرارداد کی حمایت کی ہے جس میں غزہ میں ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) تعینات کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں جاری مشترکہ بیان میں پاکستان، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، اردن، تُرکیہ اور امریکا نے اس قرارداد کے لیے اپنی مشترکہ حمایت کا اظہار کیا جو اس وقت سلامتی کونسل میں زیرِ غور ہے، یہ قرارداد امریکا نے کونسل کے ارکان اور خطے کے شراکت داروں سے مشاورت کے بعد تیار کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 29 ستمبر کو اعلان کردہ غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے تاریخی جامع منصوبہ اس قرارداد میں شامل ہے اور شرم الشیخ میں اس کی توثیق اور پذیرائی کی گئی۔

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم یہ بیان اُن ممالک کے طور پر جاری کر رہے ہیں، جنہوں نے ہائی لیول ویک کے دوران اس عمل کی ابتدا کی، ایک ایسا عمل جو فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کا راستہ فراہم کرتا ہے۔

مشترکہ بیان اُس عمل کی توثیق کرتا ہے جو فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کی راہ ہموار کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے اور یہ منصوبہ نہ صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور استحکام کا قابلِ عمل راستہ پیش کرتا ہے۔

مُمالک نے امید ظاہر کی کہ سلامتی کونسل اس قرارداد کو جلد منظور کرے گی۔

امریکا نے اس سے قبل اپنے ایک بیان میں سلامتی کونسل پر زور دیا تھا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو مضبوط بنانے کے لیے تیار کی جانے والی امریکی قرارداد کی باقاعدہ توثیق کرے اور خبردار کیا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی ’کمزور‘ ہے۔

روس کی قرارداد

امریکی اپیل کے ساتھ ہی روس نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ پر اپنی علیحدہ قرارداد پیش کر دی، جس سے براہِ راست امریکی مسودے کو چیلنج کیا گیا ہے، کونسل کے 5 مستقل ارکان (امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس) کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے اپنے بیان میں کہا کہ جب اس قرارداد پر اتفاقِ رائے کے لیے سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں، ایسے وقت میں اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں فلسطینیوں کے لیے سنگین، حقیقی اور مکمل طور پر قابلِ گریز نتائج پیدا کرسکتی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جنگ بندی نازک صورتحال میں ہے اور ہم کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متحد ہو کر آگے بڑھے اور اس انتہائی ضروری امن کو یقینی بنائے۔

امریکی مشن نے بتایا کہ اکتوبر کے وسط میں امریکا نے قطر، مصر، سعودی عرب، تُرکیہ اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے قرارداد کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا تھا۔

اس قرارداد کا سادہ اور واضح مقصد صدر ٹرمپ کے تاریخی 20 نکاتی جامع امن منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے، جسے 13 اکتوبر 2025 کو شرم الشیخ میں 20 سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 3 نومبر کے ہفتے میں امریکا نے نیویارک میں سلامتی کونسل کے اراکین اور شراکت داروں کے ساتھ نیک نیتی پر مبنی مذاکرات شروع کیے تاکہ ایک ایسے مسودے پر اتفاقِ رائے ہو سکے، جس کے ذریعے بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) قائم کی جا سکے اور غزہ میں ایک ایسا محفوظ، پُرامن، مستحکم اور خوشحال مستقبل بنایا جا سکے جو حماس کے اثر سے آزاد ہو۔

’دو سال کا مینڈیٹ‘

امریکی مشن نے مزید کہا کہ یہ کوشش صدر ٹرمپ کے وسیع پیمانے پر منظور شدہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے جس کی شرم الشیخ میں توثیق کی گئی تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سلامتی کونسل سے کہتے ہیں کہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائے اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی راہ ہموار کرے۔

اگر امریکی قرارداد منظور ہوگئی تو یہ غزہ کی عبوری حکومتی ساخت (جسے بورڈ آف پیس کہا جائے گا) کے لیے 2 سالہ مینڈیٹ (2027 کے آخر تک) کی منظوری دے گی، اور اس بورڈ کی صدارت صدر ٹرمپ خود کریں گے۔

اس کے علاوہ قرارداد رکن ممالک کو ایک عارضی عالمی استحکام فورس تشکیل دینے کی اجازت دے گی، جو غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیار مستقل طور پر غیر فعال کرے گی، شہریوں کی حفاظت کرے گی اور غزہ میں انسانی امداد کے محفوظ راستے قائم کرے گی۔

بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے 20 ہزار اہلکاروں پر مشتمل مجوزہ فورس میں امریکی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔

دنیا

پاکستان، امریکی غزہ مشن کا دائرہ کار چیلنج کرنے کیلئے عرب بلاک میں شامل

پاکستان، امریکی غزہ مشن کا دائرہ کار چیلنج کرنے کیلئے عرب بلاک میں شامل

پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں عرب ممالک کے ساتھ مل کر غزہ استحکام فورس کے امریکی منصوبے پر مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرارداد میں فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق اور آزاد ریاست کے قیام کو بھی شامل کیا جائے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں عرب ممالک کے ساتھ مل کر امریکا کے پیش کردہ غزہ استحکام فورس کے منصوبے پر سوالات اٹھائے ہیں اور زور دیا ہے کہ سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد میں صرف فورس کا ذکر نہیں بلکہ فلسطینیوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی وضاحت ہونی چاہیے۔

سفارتی ذریعے کے مطابق پاکستان، عرب ممالک کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے کہ قرارداد میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی تصدیق ہونی چاہیے، مزید اسرائیلی قبضے کو روکا جائے اور یہ بات یقینی بنائی جائے کہ غزہ اور مغربی کنارہ ایک ہی آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ رہیں۔

یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب سلامتی کونسل کے دو مستقل رکن ممالک چین اور روس نے امریکی مسودے پر غور کے لیے جاری خاموشی کی مدت ختم کر دی۔

دونوں ممالک نے کہا کہ مجوزہ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا مینڈیٹ واضح نہیں ہے اور یہ فورس براہِ راست اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہونی چاہیے، انہوں نے بورڈ آف پیس (بی او پی) سے متعلق مزید تفصیلات بھی مانگیں۔

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ چین اور روس چاہتے ہیں کہ سلامتی کونسل، آئی ایس ایف پر مکمل اختیار رکھے اور اس کے کام کی حدود طے کرے، ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی امن فورس اقوامِ متحدہ کے نظام سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔

امریکی مسودے کے پہلے ورژن جسے ریویژن 1 کہا جاتا ہے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو شامل کیا گیا ہے، اس کے مطابق ایک بورڈ آف پیس (بی او پی) قائم کیا جائے گا جس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے تاکہ غزہ کی تعمیرِ نو اور غیر مسلح کرنے کے عمل کی نگرانی کی جا سکے۔

تاہم، اس منصوبے کو کئی ممالک کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے قانونی خدشات ظاہر کیے ہیں، اردن نے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، جب کہ آذربائیجان نے کہا ہے کہ وہ صرف فائر بندی کی تصدیق کے بعد ہی شامل ہوگا اور اسرائیل کے دباؤ پر ترکیہ کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا ہے۔

انڈونیشیا اور پاکستان جیسے ممالک جو شرکت پر غور کر رہے ہیں وہ بھی محتاط ہیں، ایک سفارتکار نے بتایا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ دنیا انہیں اسرائیلی فوج کے ذیلی دستے کے طور پر دیکھے جن کا مقصد صرف حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔

اسرائیل نے بھی شکایت کی ہے کہ اس کا کردار صرف امداد اور لاجسٹکس کے انتظامات تک محدود کر دیا گیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ فورس کی منصوبہ بندی میں مرکزی کردار ادا کرے۔

دوسری جانب عالمی بینک نے امریکی منصوبے کی حمایت کی ہے، بینک کے صدر اجے بانگا نے واشنگٹن کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ وہ بی او پی کے دو سالہ منصوبے کی حمایت کرتے ہیں اور غزہ کی تعمیرِ نو کے فنڈز کے انتظام کے لیے تیار ہیں، اندازہ ہے کہ تعمیرِ نو پر تقریباً 70 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

امریکا کے اندر بھی اس منصوبے پر شکوک ہیں۔ پولیٹیکو کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق اسرائیل کے جنوبی علاقے میں منعقد ایک امریکی سیمینار میں ماہرین اور حکام نے فورس کی تعیناتی پر خدشات ظاہر کیے، خاص طور پر فوجی افرادی قوت اور علاقائی حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے کہا کہ یہ خدشات حکومت کے اندر بھی پائے جاتے ہیں، تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ایڈی واسکیز نے کہا کہ سب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ امن کوشش کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق امریکا اب قرارداد کا نیا ترمیم شدہ مسودہ تیار کر رہا ہے جسے آئندہ ہفتے سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔

ایک سفارتکار نے کہا کہ امریکا اپنے منصوبے پر قائم ہے، مگر سلامتی کونسل کے اندر اختلافات کی وجہ سے یہ عمل توقع سے زیادہ وقت لے سکتا ہے۔

اس بحث میں شامل تمام ممالک نے امریکی مسودے پر اپنے تحریری تبصرے جمع کروائے اور اپنی آرا پیش کیں۔

دنیا

امریکا کا غزہ میں امن فورس قائم کرنے کا منصوبہ، سلامتی کونسل میں قرارداد پیش

امریکا کا غزہ میں امن فورس قائم کرنے کا منصوبہ، سلامتی کونسل میں قرارداد پیش

امریکا نے غزہ میں امن و استحکام کے لیے دو سالہ بین الاقوامی فورس کے قیام کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں قرارداد جمع کرادی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا نے غزہ میں امن قائم رکھنے کے لیے دو سال کے لیے ایک نئی فورس بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی منظوری کے لیے اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک ترمیم شدہ قرارداد جمع کرائی ہے۔

یہ مسودہ پیر کے روز پیش کیا گیا جس کے بعد منگل کی صبح تک رکن ممالک کو اعتراضات دینے کا وقت دیا گیا ہے اور اگر کوئی اعتراض نہ آیا تو یہ قرارداد اس ہفتے جمعرات یا جمعہ کو ووٹنگ کے لیے پیش کی جائے گی۔

یہ فورس بورڈ آف پیس (بی او پی) کے تحت کام کرے گی جس کے سربراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے، یہ بورڈ غزہ کی تعمیرِ نو، معیشت کی بحالی اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے کام کی نگرانی کرے گا۔

امریکا نے اس قرارداد میں پورا 20 نکاتی ٹرمپ امن منصوبہ شامل کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل طور پر امریکی قیادت میں آگے بڑھے گا۔

تاہم، کئی ممالک اس منصوبے پر تحفظات رکھتے ہیں، متحدہ عرب امارات نے قانونی ابہام دور ہونے تک شرکت سے انکار کیا ہے، اردن نے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، آذربائیجان صرف مکمل جنگ بندی کے بعد حصہ لینے پر راضی ہے، جب کہ ترکیہ کو اسرائیل کے دباؤ پر منصوبے سے الگ کر دیا گیا ہے۔

انڈونیشیا، پاکستان اور کچھ دیگر مسلم ممالک شرکت پر آمادہ تو ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے مددگار بن کر صرف حماس کو غیر مسلح کرنے کے مشن میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔

اسرائیل نے بھی شکایت کی ہے کہ اسے منصوبہ بندی سے الگ رکھا جا رہا ہے اور اس کا کردار صرف امداد پہنچانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

ادھر عالمی بینک نے اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قرارداد کے اس حصے کی تائید کرتا ہے، جس کے تحت دو سال کے لیے بی او پی فورس کو مینڈیٹ دیا جائے گا اور بینک کو غزہ کی تعمیرِ نو میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی۔

قرارداد میں بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مالی مدد فراہم کریں، اس مقصد کے لیے ایک خاص فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور تخمینے کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو پر تقریباً 70 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

دوسری طرف امریکی میڈیا کے مطابق خود ٹرمپ انتظامیہ کے اندر بھی اس منصوبے پر خدشات موجود ہیں۔

امریکی جریدے ’پولیٹیکو‘ نے بتایا ہے کہ پچھلے مہینے جنوبی اسرائیل میں ایک دو روزہ اجلاس ہوا، جس میں تقریباً 400 افراد نے شرکت کی، ان میں امریکی حکومتی عہدیدار، رینڈ کارپوریشن اور این جی اوز کے نمائندے شامل تھے، اس اجلاس کی قیادت امریکی سیکیورٹی کوآرڈینیٹر مائیکل فینزل نے کی۔

رپورٹ کے مطابق اجلاس کے شرکا کو شک ہے کہ کیا واقعی ایک بین الاقوامی فورس کو غزہ میں مؤثر طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

پولیٹیکو کے مطابق اجلاس میں غزہ کی موجودہ صورتِ حال، ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ کی مشاورتی رپورٹس اور امریکی حکومتی سلائیڈز پیش کی گئیں۔

ایک امریکی دفاعی اہلکار کے مطابق یہ دستاویزات انتظامیہ کے گہرے خدشات کو ظاہر کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل صورتحال عوامی بیانات سے زیادہ محتاط ہے، کیونکہ اب بھی کئی مشکلات باقی ہیں، جیسے فوجی دستے اکٹھے کرنا، قانونی طریقہ کار طے کرنا، تعمیرِ نو کے لیے فنڈز جمع کرنا اور حماس سمیت خطے کے ممالک کی رضامندی حاصل کرنا۔

تاہم، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ایڈی واسکیز نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے تاریخی مشرقِ وسطیٰ امن منصوبے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس دن صدر ٹرمپ نے اپنا 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا، اس کے بعد سے مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں اور ہم جنگ بندی قائم رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل جاری رکھیں گے۔

دنیا

اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور

اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور

اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) نے پہلے مرحلے میں ایک بل کی منظوری دی ہے جو فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دیتا ہے۔

ترکیہ کے خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نشریاتی ادارے ’کان‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ بل پیر کی رات 120 ارکان میں سے 39 کی حمایت سے منظور ہوا، بل کے خلاف 16 ووٹ ڈالے گئے۔

اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہاپسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے درمیان سخت تکرار ہوئی، جو تقریباً ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی۔

یہ قانون سازی بن گویر کی انتہاپسند یہودی پاور پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، ووٹنگ سے پہلے مسودہ قانون کو کنیسٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا تاکہ اسے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے تیار کیا جا سکے، جو حتمی منظوری کے لیے ضروری مراحل ہیں۔

قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جو کوئی جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے باعث کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے، اور اس کا مقصد نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہو، اسے سزائے موت دی جائے گی‘۔

اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک بار سزا سنائے جانے کے بعد اسے کم نہیں کیا جا سکے گا۔

بن گویر نے امریکی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ووٹ کی منظوری کا جشن مناتے ہوئے لکھا کہ ’یہودی پاور تاریخ رقم کر رہی ہے، ہم نے وعدہ کیا تھا اور اسے پورا کیا، دہشت گردوں کے لیے سزائے موت کا قانون پہلے مرحلے میں منظور ہو گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بن گویر کے اس قانون کے اقدام کی مذمت کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اور نظامی امتیاز کو مزید گہرا کرتا ہے۔

یہ منظوری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی عوام اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل کی 2 سالہ غزہ جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیں، اور ساتھ ہی مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی مہلک فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔

اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جہاں وہ تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا سامنا کر رہے ہیں — جس کے نتیجے میں متعدد قیدی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

دنیا

ترکیہ: غزہ میں نسل کشی پر نیتن یاہو سمیت 37 اسرائیلی عہدیداروں کے وارنٹ جاری

ترکیہ: غزہ میں نسل کشی پر نیتن یاہو سمیت 37 اسرائیلی عہدیداروں کے وارنٹ جاری

ترکیہ کی عدالت نے اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور 36 دیگر اسرائیلی عہدیداروں کے وارنٹ جاری کر دیے۔

ترک نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم سمیت 37 مشتبہ افراد کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے تحت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ وارنٹس اسرائیل کے غزہ میں شہریوں پر منظم حملوں کی وسیع تحقیقات کے بعد جاری کیے گئے، جنہیں نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات قرار دیا گیا ہے۔

یہ تفتیش ان شکایات کے بعد شروع کی گئی تھی، جو متاثرین اور گلوبل صمود فلوٹیلا کے نمائندوں نے دائر کی تھیں، یہ ایک سول انسانی مشن تھا جو غزہ میں امداد پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسے اسرائیلی بحریہ نے روک کر تشدد کے بعد ملک بدر کر دیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ متاثرین، عینی شاہدین اور بین الاقوامی قانون کے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجی اور سیاسی رہنما براہِ راست حملے کرنے اور ہسپتالوں، امدادی قافلوں اور شہری بنیادی ڈھانچے پر حملے کرنے کے ذمہ دار تھے۔

پراسیکیوٹر کے دفتر نے خاص واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 6 سالہ ہند رجب کا اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے قتل، الاہلی عرب ہسپتال پر بمباری جس میں 500 سے زائد افراد شہید ہوئے، ترک-فلسطینی فرینڈشپ ہسپتال پر حملہ، اور دیگر مظالم بھی کیے گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کی غزہ پر ناکہ بندی نے جان بوجھ کر شہریوں تک انسانی امداد پہنچنے سے روکا، جو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک اضافی جنگی جرم ہے۔

مشتبہ افراد میں نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر، چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی ہیلوے، اور نیوی کمانڈر ڈیوڈ سار سلامہ شامل ہیں، جن پر نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرائم کے الزامات ہیں۔

چونکہ یہ افراد فی الحال ترکیہ میں موجود نہیں ہیں، پراسیکیوٹر کے دفتر نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انٹرنیشنل گرفتاری کے وارنٹس (ریڈ نوٹس) جاری کیے جائیں، تاکہ انہیں حراست میں لے کر ملک منتقل کیا جا سکے۔

تحقیقات استنبول پولیس ڈپارٹمنٹ اور نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کے تعاون سے ہوئیں، اور اب بھی جاری ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ترکیہ کے قانونی اقدامات بین الاقوامی انسانی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین کے کنونشن کے تحت کیے جا رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکیہ جنگی جرائم کی ذمہ داری اور غزہ کے متاثرین کے لیے انصاف کے لیے پرعزم ہے۔

گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے بھی بینجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق دفاعی وزیر یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹس جاری کیے تھے۔

اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی غزہ پر جنگ کے حوالے سے نسل کشی کا کیس درپیش ہے۔

دنیا

یوٹیوب نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کا احاطہ کرتی سیکڑوں ویڈیوز خاموشی سے حذف کردیں

یوٹیوب نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کا احاطہ کرتی سیکڑوں ویڈیوز خاموشی سے حذف کردیں

گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

دی انٹرسیپٹ کی 4 نومبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کی دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔

یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔

اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔

سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور ’دی بیچ‘ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔

الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔

فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔

یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں، کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔

دنیا

غزہ: معاہدے کے تحت مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں حکام کو موصول، مجموعی تعداد 285 ہو گئی

غزہ: معاہدے کے تحت مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں حکام کو موصول، مجموعی تعداد 285 ہو گئی

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع نصر ہسپتال نےتصدیق کہ ہے کہ اسے امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ہسپتال نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اب تک مجموعی طور پر 285 شہدا کی لاشیں وصول کی جا چکی ہیں، شہدا کی یہ لاشیں اسرائیلی و امریکی فوجی اِتائے چن کی لاش کے بدلے میں واپس کی گئیں، جسے منگل کے روز حماس نے غزہ سے واپس کیا تھا۔

امریکی ثالثی سے 10 اکتوبر سے نافذ معاہدے کی شرائط کے مطابق اسرائیل کو جب بھی کسی اسرائیلی یرغمالی کی لاش واپس ملتی ہے، تو وہ بدلے میں 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کرتا ہے۔

جنگ بندی کے آغاز پر حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود تھے، جن میں سے 20 زندہ اور 28 ہلاک ہو چکے تھے، بعد ازاں مزاحمتی گروپ نے تمام زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا اور 21 ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں واپس کر دیں۔

اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے میں تاخیر کر رہی ہے، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ یہ عمل اس لیے سست ہے کیونکہ کئی لاشیں غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے موجود ہیں۔

گروپ نے متعدد بار ثالثوں اور ریڈ کراس سے اپیل کی ہے کہ وہ لاشوں کی بازیابی کے لیے ضروری آلات اور عملہ فراہم کریں۔

واضح رہے کہ 2 سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں اب تک 68 ہزار 875 فلسطینی شہید جب کہ ایک لاکھ 70 ہزار 679 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

دنیا

حیران کن فیصلہ: سنگاپور میں خواتین فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے کے الزامات سے بری

حیران کن فیصلہ: سنگاپور میں خواتین فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے کے الزامات سے بری

ایشیائی ملک سنگاپور جہاں عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں 97 فیصد میں سزائیں سنائی جاتی ہیں، وہاں فسلطین کے حق میں مظاہرہ نکالنے کے الزامات کا سامنا کرنے والی تین مسلمان خواتین کو عدالت نے بری کردیا۔

برطانوی اخبار کے مطابق سنگاپور کی عدالت نے کوکلا انندمالی، سیتی امیرا محمد اسراوی اور محمد سوبِکُن کو عدم شواہد کی بناد پر بری کردیا اور کہا کہ وکلا ان کے خلاف الزامات ثابت نہ کر سکے۔

تینوں خواتین کو ایک غیر منظور شدہ فلسطین کے حق میں نکالے گئے مارچ کے منتظمین ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن عدالت نے حیران کن طور پر انہیں بری کر دیا۔

فروری 2024 میں تقریبا 70 افراد نے فلسطین کے حق میں ایک پرامن مارچ نکالاا تھا، جو سنگاپور کی مرکزی شاہراہ سے شروع ہوا اور صدراتی محل پر ختم ہوا تھا۔

مذکورہ مارچ کا مقصد فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ تھا۔

شرکاء نے تربوز نما امبرالے (جو فلسطینی پرچم کے رنگوں کی علامت ہیں) بھی اٹھائے تھے۔

مذکورہ مارچ کے ضمن میں تینوں خواتین کو جون 2024 میں اجازت کے بغیر عوامی جلوس منعقد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر الزام تھا کہ ان کی سربراہی میں نکالا گیا مارچ ایسے علاقے سے گزرا جہاں عوامی جلوس ممنوع تھے۔

تینوں خواتین پر گزشتہ ڈیڑھ سال سے مقدمہ زیر سماعت تھا اور ہر کسی کا خیال تھا کہ انہیں سزا ہوگی اور خود خواتین بھی ذہنی طور پر تیار تھیں کہ انہیں سزا سنائی جائے گی لیکن عدالت نے ان کے برعکس فیصلہ دیا۔

عدالت نے 21 اکتوبر 2025 کو تینوں کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے دلیل دی کہ حکومتی وکیل یہ ثابت نہیں کرسکے کہ تینوں خواتین ’جان بوجھ کر ممنوع علاقے‘ کا شعور رکھنے کے باوجود وہاں سے گزرے اور یہ کہ مذکورہ علاقے کی حد بندی بھھی واضح نہیں۔

عدالتی فیصلے کے بعد الزام میں گرفتار کی گئی تین میں سے ایک خاتون کوکیلا انندمالی نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ انہیں سزا سنائی جائے گی اور وہ ایک بیان تیار کرچکی تھیں جس میں وہ ’سسٹم کی خامیوں‘ کا ذکر کرنے والی تھیں لیکن رہائی کے حکم پر وہ بھی حیران ہوئیں۔

خواتین کو عدالت کی جانب سے رہا کرنے کے حکم کے بعد زیادہ تر ماہرین نے فیصلے کو چھوٹا لیکن اہم قدم قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں احتجاج کی آزادی سخت ضابطوں کے تحت ہے اور سنگاپور میں عدالتوں کی مجرم ٹھہرانے کی شرح تقریباً 97 فیصد ہے۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نظامی تبدیلی کا عندیہ نہیں بلکہ قانونی تکنیکی بنیاد پر لیا گیا اور یہ حکومتی پالیسی میں بڑی نرمی کا ثبوت نہیں دیتا۔

دنیا

امریکا نے اقوام متحدہ سے غزہ میں عالمی سیکیورٹی فورس کے قیام کی منظوری طلب کرلی

امریکا نے اقوام متحدہ سے غزہ میں عالمی سیکیورٹی فورس کے قیام کی منظوری طلب کرلی

امریکا نے اقوام متحدہ سے غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی منظوری طلب کرلی ہے، جس کا مینڈیٹ کم از کم 2 سال کے لیے ہوگا۔

امریکی ویب سائٹ ’ایکسِیوس‘ نے منگل کو رپورٹ کیا کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے کئی رکن ممالک کو ایک ڈرافٹ قرارداد بھیجی ہے، جس میں غزہ کی پٹی میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے مجوزہ فورس کے قیام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

ایکسِیوس (نے اس ڈرافٹ کی ایک کاپی حاصل کی) کے مطابق یہ قرارداد حساس مگر غیر خفیہ قرار دی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرارداد امریکا اور دیگر شریک ممالک کو غزہ کے نظم و نسق کے لیے 2027 کے اختتام تک سیکیورٹی فورس تعینات کرنے کا وسیع اختیار دیتی ہے، اور اس مدت میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔

یہ فورس ’غزہ بورڈ آف پیس‘ کے مشورے سے قائم کی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بورڈ بھی کم از کم 2027 کے اختتام تک قائم رہے گا۔

تاہم، ایک امریکی عہدیدار نے ’ایکسِیوس‘ کو بتایا کہ آئی ایس ایف پرامن مشن نہیں بلکہ نفاذی فورس ہوگی، ہدف یہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں قرارداد پر ووٹنگ ہو جائے اور پہلے فوجی جنوری تک غزہ پہنچا دیے جائیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ ڈرافٹ سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان آئندہ مذاکرات کی بنیاد بنے گا، اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ کی سرحدوں کی سیکیورٹی (اسرائیل اور مصر کے ساتھ)، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت اور شراکت داری کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔

ڈرافٹ کے مطابق آئی ایس ایف غزہ میں سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے ذمہ دار ہوگی، جس میں غزہ پٹی کو غیر عسکری بنانا، عسکری و دہشت گرد انفرااسٹرکچر کی تباہی اور دوبارہ تعمیر کی روک تھام، غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیار مستقل طور پر ضبط کرنا شامل ہوگا۔

ایکسِیوس کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ فورس کا مینڈیٹ حماس کو غیر مسلح کرنے تک پھیلا ہوا ہے، اگر وہ خود ایسا نہیں کرتی تو عالمی فورس یہ کام کرے گی۔

مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ میں ’بورڈ آف پیس کو قابلِ قبول متحدہ کمان‘ کے تحت تعینات کیا جائے گا اور مصر و اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت و تعاون کیا جائے گا۔

مجوزہ فورس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی قوانین، خصوصاً انسانی قوانین کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرے۔

ایکسِیوس کے مطابق آئی ایس ایف کا مقصد عبوری دور میں غزہ میں سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، جس دوران اسرائیل بتدریج مزید علاقوں سے انخلا کرے گا اور فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی اقدامات کے ذریعے طویل المدتی طور پر غزہ کا انتظام سنبھالنے کے قابل ہوگی۔

ڈرافٹ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ بورڈ آف پیس کو عبوری انتظامی ادارے کے طور پر اختیارات تفویض کیے جائیں گے، اس کے تحت بورڈ ایک غیر سیاسی، ٹیکنوکریٹ فلسطینی کمیٹی کی نگرانی کرے گا جو غزہ کی سول انتظامیہ اور روزمرہ معاملات کی ذمہ دار ہوگی۔

قرارداد میں یہ بھی شامل ہے کہ امداد کی ترسیل بورڈ آف پیس کے تعاون سے اقوام متحدہ، ریڈ کراس، اور ریڈ کریسنٹ کے ذریعے کی جائے گی، اور اگر کوئی تنظیم اس امداد کا غلط استعمال یا انحراف کرے تو اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دنیا

استنبول: پاکستان و دیگر اسلامی ممالک کا غزہ سے صہیونی فوج کےفوری انخلا کا مطالبہ

استنبول: پاکستان و دیگر اسلامی ممالک کا غزہ سے صہیونی فوج کےفوری انخلا کا مطالبہ

وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی سخت مذمت کی اور قابض اسرائیلی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔

پاکستان ان 8 عرب و مسلمان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، اگرچہ وقفے وقفے سے جھڑپیں اور کشیدگی سامنے آتی رہی ہے، تاہم غزہ میں نازک نوعیت کی جنگ بندی اب تک قائم ہے۔

یہ جنگ بندی کئی پیچیدہ مسائل (مثلاً حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی انخلا کا ٹائم فریم) کو حل کیے بغیر طے پائی تھی، جس کی اسرائیل نے فضائی حملوں کی صورت میں بارہا خلاف ورزی کی۔

پیر کو ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اسلامی و عرب وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں استنبول میں ملاقات کی، تاکہ غزہ میں جنگ بندی کی صورتحال پر غور کیا جا سکے، یہ وہی ممالک ہیں جو 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔

دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سمیت دیگر اسلامی و عرب سفارتکاروں نے پائیدار جنگ بندی اور غزہ میں دیرپا امن کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کی۔

بیان میں کہا گیا کہ رہنماؤں نے فلسطینی عوام کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کیا اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دیا۔

بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے عین مطابق فلسطین کی ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہیے، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق جس دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک نے کہا کہ غزہ کا مستقبل فلسطینیوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور وہاں کسی نئے سرپرستی یا بیرونی کنٹرول کے نظام سے گریز کیا جانا چاہیے۔

ترکیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ مسلمان ممالک کو غزہ کی بحالی و تعمیر نو میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔

ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے مذاکرات کے بعد کہا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو خود اپنے معاملات اور سیکیورٹی کا انتظام سنبھالنا چاہیے، اور عالمی برادری کو اس میں سفارتی، ادارہ جاتی اور معاشی طور پر بہترین ممکنہ مدد فراہم کرنی چاہیے۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہاں نیا سرپرستی یا نگران کا نظام آئے، ہم ایک نہایت اہم اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ غزہ میں نسل کشی دوبارہ شروع ہو۔

حاقان فیدان نے مزید بتایا کہ تمام 7 ممالک اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی خود غزہ کی سیکیورٹی اور حکمرانی کا کنٹرول سنبھالیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے اختتام پر انہوں نے حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ کی قیادت میں ایک وفد سے ملاقات کی تھی اور حماس نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔

ترک وزیرِ خارجہ نے امید ظاہر کی کہ حماس اور مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مصالحتی کوششیں جلد کامیاب ہوں گی، کیونکہ بین الفلسطينی اتحاد سے فلسطین کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی مزید مضبوط ہوگی۔

حاقان فیدان نے کہا کہ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف )، جو ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی، کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اختیار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے قانونی جواز حاصل ہو۔

انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن اس وقت عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس فورس کی تشکیل پر مشاورت کر رہا ہے، اور ترکیہ اس میں کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے، اگرچہ اسرائیل اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔

حاقان فیدان کے مطابق جن ممالک سے ہماری بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ اسرائیلی فوج کے مینڈیٹ اور اختیارات کی بنیاد پر کریں گے، پہلے ایک متفقہ مسودہ تیار کیا جائے گا، پھر اسے سلامتی کونسل کے اراکین کی منظوری درکار ہوگی اور یہ لازمی ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں سے کوئی بھی ویٹو استعمال نہ کرے۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ یہ ویٹو اکثر امریکا استعمال کرتا ہے جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے۔

اسرائیل طویل عرصے سے ترکیہ کے سفارتی اقدامات پر شک و شبہ رکھتا ہے، خصوصاً اس کے حماس سے قریبی روابط کی وجہ سے، اور اسی لیے وہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد بننے والی فورس میں ترکیہ کی شمولیت کی شدید مخالفت کرتا ہے۔

دنیا

نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی

نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی، بل بدھ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔

ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے کوآرڈینیٹر نے آج کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ایک ایسے بل کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکے گی۔

یہ بل دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ’جیوش پاور پارٹی‘ نے پیش کیا ہے، جس کی قیادت وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر کر رہے ہیں، یہ بل بدھ کو اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ میں پہلی بار منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اس شخص کو سزائے موت دی جائے گی جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کسی اسرائیلی شہری کو نسلی تعصب، نفرت یا ریاستِ اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ہلاک کردے۔

اسرائیل میں کوئی بھی بل قانون بننے کے لیے کنیسٹ میں تین مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔

اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کے مطابق کوآرڈینیٹر گل ہیرش نے پیر کو کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتایا کہ نیتن یاہو نے اس بل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

گل ہیرش نے کہا کہ وہ اس سے پہلے اس بل کے مخالف تھے، کیونکہ یہ غزہ میں زندہ یرغمالیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب یرغمالی زندہ ہیں، اس لیے میری مخالفت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔

اسی روز کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ جیوش پاور پارٹی کی درخواست پر اس بل کو پہلے مرحلے کے لیے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

اسرائیلی وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر بارہا اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے لیے سزائے موت کے قانون کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ مہینے اکتوبر میں حماس نے ایک عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی زندہ قیدیوں کو رہا کیا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت طے پایا تھا۔

اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں) اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، فلسطینی اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قیدی تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا شکار ہیں، اور متعدد قیدی حراست کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔

حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بن گویر نے جیلوں کے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے اور قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقاتوں پر پابندی، خوراک میں کٹوتی، اور نہانے کی سہولت محدود کر دی گئی ہے۔

دنیا

غزہ کی تعمیرنو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے، ترک صدر

غزہ کی تعمیرنو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے، ترک صدر

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔

استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔

مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔

اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔

یاد رہے کہ استنبول میں آج مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں غزہ کی خودمختاری، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سمیت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اقدامات پر غور متوقع ہے۔