کمپنی سرکار کی سندھ کی جغرافیائی اور مالی وسائل پر گہری نظر تھی جس کے پیش نظر انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی تاکہ اس کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جاسکے۔
شائع22 اگست 202503:40pm
اسداللہ مینگل کے اغوا کی کوشش اور ان کے قتل کا سن کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سخت برہم ہوئے کیونکہ انہوں نے بلوچستان سے باہر فوجی کارروائی کرنے سے منع کیا تھا۔
اپنے کئی رشتہ داروں کو سیلاب میں کھونے والے ایک رہائشی کامران خان نے بتایا، 'جب بھی ہمیں گلنے سڑنے والی لاشوں کی بو آتی ہے تو ہم کھدائی شروع کر دیتے ہیں'۔
نواب اکبر بگٹی کی شخصیت کے ایسے بے شمار پہلو ہیں کہ جن میں جہاں ایک طرف ان کی سفاکانہ شخصیت سامنے آتی ہے وہیں ان کی سحر انگیزی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
'حمیرا اصغر کی موت نے ثابت کیا کہ شوبزنس کی جھلملاتی اور جگمگاتی دنیا کے پیچھے ایک تاریک جہاں آباد ہے جو گاہے بگاہے اپنی بدصورتی کے ساتھ معاشرے کے سامنے آتا ہے'۔
ہاتھیوں کی ہلاکت کے حالیہ واقعات کے بعد اصل سوال یہ نہیں ہونا چاہیےکہ چڑیا گھروں کو کیسے ٹھیک کیا جائے بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ کیا اب انہیں مستقل طور پر بند کرنے کا وقت نہیں آچکا؟
بلوچستان کے معدنیات سے مالا مال صحراؤں میں، اربوں ڈالرز کے کان کنی کے منصوبے خوشحالی کا وعدہ کرتے ہیں لیکن تالاپ اور کچاؤ جیسے قصبوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
کمپنی سرکار کا وتیرہ تھا کہ وہ ذلت کو کبھی نہیں بھولتی تھی اور ذلت کو پالتی جو نفرت میں تبدیل ہوجاتی اور پھر وہ وقت کا انتظار کرتے کہ کب اس کا سود سمیت بدلہ لے سکیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان اختلافات برقرار ہیں جس نے کربلا عراق میں محرم گزارنے کے خواہشمند پاکستانی زائرین کے سفری پروگرامز کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ہر سال لاکھوں پاکستانی خلیج جانے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو کفالہ کے سخت نظام میں پھنسا ہوا پاتے ہیں، حکومتِ پاکستان ان کی پریشانیوں کو کیوں نظرانداز کرتی ہے؟
اگر 1948ء میں سری نگر کی جانب پیش قدمی کرنے والے جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی فوجی افسران کو پنڈی واپس نہیں بلایا جاتا تو آج کشمیر کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔
طیارہ حادثے میں زندہ بچ جانے والے ظفر مسعود کی کتاب سوال کرتی ہے کہ ایک دہائی میں 6 جہاز گرنے کے باوجود مسافروں کی بہتری کے لیے حقیقی تبدیلی کیوں نہیں لائی گئی؟
پہلے کراچی کے قریب سمندر میں بحری قزاقوں واگھروں نے اُدھم مچایا ہوا تھا جن کی وجہ سے بیوپاری جہازوں پر توپیں نصب تھیں اور بارود وغیرہ رکھا گیا کہ لوٹ کھسوٹ سے بچ سکیں۔