تنازعے کے دوران قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ 'پاکستان حملے کی زد میں ہے، عمران خان کو رہا کیا جائے!' کیا کرنے کے لیے رہا کیا جاتا؟ ریلی نکالنے کے لیے؟ دھرنا دینے کے لیے؟
پاکستانیوں کو میمز ریلز پر مذاق کرتے دیکھ کر بھارتی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک ملک اتنے سنگین وقت سے ڈیل کرنے کے لیے طنز و مزاح کا سہارا کیسے لے سکتا ہے؟
حکومت جو رواں سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ مالی گنجائش کی توقع کررہی تھی، اسے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنے چند منصوبوں کو ملتوی کرنا ہوگا۔
بیرونی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرنا پہلا قدم ہونا چاہیے، اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں کوئی بھی ادارہ اتنا دلیر ہے کہ وہ حکومت سے ایسا کوئی مطالبہ کرسکے؟
اس تنازع نے ہماری کمزوریوں کو آشکار کیا ہے کیونکہ کشیدگی کے دوران ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ آیا آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط منظور کرے گا یا نہیں۔
سرحد پار مزاج انتہائی گرم ہے اور حالیہ تنازع نے واضح کیا ہے کہ مستقبل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی صرف لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں تک محدود نہیں رہے گی۔
خوش آئند طور پر جنوبی ایشیا میں جلتی آگ بجھ چکی ہے اور وہ ایسے ملک نے بجھائی ہے جو دنیا میں ممالک کے درمیان سب سے زیادہ آگ لگانے کے لیے ہی جانا جاتا ہے۔
جوہری طاقت بننے کی کہانی یاد کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان نے متعدد چیلنجز کا سامنا کیا اور ان پر قابو پایا تاکہ وہ مستقبل میں بھارت کے خلاف اپنی سلامتی کا تحفظ کرسکے۔
اگرچہ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط پر بات چیت آگے بڑھائے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر کی گئی پیش کش کو مسترد کرنا بھارت کے لیے کتنا آسان ہوگا؟
پارلیمانی کمیونسٹ جماعتیں جن کی ریاستی قوم پرستی کو چیلنج کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے اور جو جنگ کی مخالفت کرتی ہیں، وہ بھی اب مودی حکومت کی ڈگر پر چل پڑی ہے۔
اگرچہ غیرملکی سفارتکار تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہہ رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جتنی گہری بداعتمادی ہے، وہ فون کالز یا بیک چینلز پیغامات کے ذریعے ختم نہیں ہوسکتی۔
چنئی سے کولمبو جانے والے طیارے میں پہلگام حملے میں ملوث مشتبہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے سیکیورٹی تلاشی لی گئی جو ظاہر کرتا ہے کہ مجرمان چکما دے کر بھارت سے فرار ہوچکے ہیں۔
سانحہ پہلگام انتہائی لرزہ خیز تھا لیکن اسے جواز بنا کر طبلِ جنگ نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی پانی کی تقسیم کو ہتھیار بنا کر یا نفرت پھیلا کر مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود جنگ کا تصور کہ جس میں حالات جوہری جنگ کے نہج تک نہ پہنچیں، انتہائی خطرناک ہے جبکہ ایسی صورت حال سے ہر صورت بچنا ہوگا۔
یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان واحد معاہدہ ہے جو تین بڑی جنگوں جموں و کشمیر اور دونوں ممالک کے مختلف حصوں میں ہونے والی بغاوتوں اور 2002 کے عسکری بحران کے باوجود قائم رہا ہے۔
گر اصلاحات کو شفافیت، جوابدہی اور صوبائی و عوامی حقوق کے احترام کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا تو پھر کوئی کانفرنس، چاہے جتنی بھی خوشنمائی سے پیش کی جائے دیرپا خوشحالی نہیں لا سکے گی۔
یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کر کے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں۔ اس کے بجائے، ہم معقول آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے زبردستی طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف اس راستے پر گامزن نظر آتی ہے جس سے پہلے مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلزپارٹی گزر چکی ہیں، اور یہی بات پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ سمیت دوسرے لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے۔
اگر سول سرونٹس چاہیں تو وہ تبدیلی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ نئی سوچ کو وہ تسلسل دے سکتے ہیں جس کی اسے حکومتوں کی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے ضرورت ہے۔