جو بات ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ عسکریت پسندی میں اضافے کا براہ راست سیاسی عدم استحکام سے تعلق ہے جبکہ تمام الزامات بیرونی قوتوں پر ڈال دینا بھی کافی نہیں ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق، امریکی سرمایہ کاروں کو پسنی میں بندرگاہ تیار کرنے اور اس کا انتظام دینے کا تصور پاکستان نے پیش کیا ہے تاکہ پاکستان کی معدنیات تک امریکی رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔
بہ ظاہر طالبان کے دو ٹوک مؤقف نے ٹرمپ کی انا کو ٹھیس پہنچائی ہے، چنانچہ بگرام ایئر بیس واپسی پر کسی بھی معاہدے کے امکان کو ٹھکرائے جانے کے بعد امریکا کیا انتخاب کرے گا؟
بعض عرب ممالک اقتصادی یا سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے کو بھی تیار نہیں ہیں، یکجہتی کے بیانات اکثر محض دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست عام ہے لیکن پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کی مہمات کی صورت میں ملک نے شاذ و نادر ہی اتنے بڑے پیمانے پر خود نمائی دیکھی ہو۔
جہاں سیاسی تناؤ کو ختم کرنے اور جمہوری عمل کی بحالی کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے وہیں پی ٹی آئی کو بھی سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا چاہیے۔
جہاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے میں چین کا کردار واضح ہے وہیں دونوں ممالک نے سفارتی حساسیت کا بھی مظاہرہ کیا جس نے برف کو پگھلانے میں مدد کی۔
اس تنازع نے ہماری کمزوریوں کو آشکار کیا ہے کیونکہ کشیدگی کے دوران ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ آیا آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط منظور کرے گا یا نہیں۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں۔ اس کے بجائے، ہم معقول آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے زبردستی طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔