ہمیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی تحریکوں سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نمٹنا اور پھر جب حالات دوبارہ پُرسکون ہونے لگیں تو ان کے مطالبات کو نظر انداز کرنا بند کرنا ہوگا۔
ایس سی او اجلاس کا دعوت نامہ نہ ملنے پر طالبان حکومت کو مایوسی ضرور ہوئی ہوگی جوکہ روس کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد عالمی سطح پر اپنی سرگرمیاں بڑھانے کے منتظر تھے۔
2025ء میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا بھارت سے دور ہو رہا ہے بلکہ یہ کہ وہ جنوبی ایشیا میں کام کرنے کے لیے مختلف طریقے آزما رہا ہے۔
جہاں دنیا کا بھارتی بیانیے پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے وہیں پاکستان اب اپنی سرزمین پر ہونے والے ہر حملے کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے رہا ہے، کیا پاکستان کی یہ لائحہ عمل درست ہے؟
کچھ افغان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ علاقائی سیاست میں پاکستان کا بڑھتا ہوا جارحانہ انداز اور وسطی ایشیا میں اس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے طالبان کو بے چین کیا ہے۔
4 روزہ تنازع کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک وسیع سفارتی محاذ کھولا وہ امید کررہا تھا کہ وہ دہشتگردی کے معاملے پر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
چین نے انسداد دہشت گردی میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اب سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے؟
چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔
چین سلامتی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ گہرے تعاون کا خواہاں ہے جبکہ پاکستان اپنی سرزمین پر باضابطہ طور پر چینی سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کے حق میں نہیں ہے۔